• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کنزیومر ازم اور پاپ کلچر

دنیاکمرشل ازم کے دور سے نکل کر اب عالمگیریت، پاپ کلچر اور منڈی کی معیشت کی جانب رواںدواں ہے۔یہاں ٹہرکر ایک سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا، مثلاً وہ کون سی وجوہات ہیںجن سے متاثر ہوکر کلاسیکی گانے والانوجوان پاپ موسیقی کی طرف راغب ہورہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سامعین جو 25 سال سے کم عمر کے ہیں اسے امریکی پاپ کلچر نے ایسا متاثرکیا ہے کہ اسکا اب ذوق اور ذائقہ بھی تبدیل ہوگیا اس لئے امریکی مارکیٹنگ کا ہدف 10سے 19 سال تک کے نوجوان صارف ہیں۔

اسلئے صارف کو عالمگیریت کی چکاچوند اور سی ڈیز اور سائیبرکے شبستانوںنے ذہنی طور پر متاثرکیا اوراب گھروںتک پاپ موسیقی کی بازگشت سنی جاتی ہے۔عصر حاضرمیں عالمگیریت (گلوبلائزیشن) اور تجارت کوامریکی پاپ کلچر بڑی تیزی سے متحرک کررہا ہے۔ بالغ نوجوان چاہے وہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک سے تعلق رکھتاہو یانئے صنعتی ممالک (Nics) سے ہوں، بین الاقوامی تجارت میں ان کا کلیدی کردار ہے۔

صارف کی خواہش، خریدنے میں تبدیل کرنا

اس وقت مارکیٹنگ کے تمام اندازنوجوان صارفین کو متوجہ کرتے ہیں تاکہ مجموعی طلب میںاضافہ ہو۔اب ایک اور اصطلاح مغربی معیشت دانوںنے گھڑی ہے اسے وہ Drivedطلب کہتے ہیں جس کے ذریعے عالمگیری تجارت میں اضافہ کیاجاسکتا ہے۔ مغرب میں یہ خیال عام ہوگیا ہے کہ صارف جس قدر زیادہ خرچ کرے گامعاشی سرگرمیاں اتنی تیز ہوں گی، اس کیلئے انہوں نے بینکوں کو استعمال کیا ہے، لیزنگ پر گاڑیاں، بغیر کولیٹرل کے تین لاکھ روپے تک قرضوںکا اجراء اور کریڈٹ کارڈ کے رومانس کو عام کردیا گیا ہے۔ 

مغرب کے معاشی منیجرکا یہ کہنا ہے کہ طلب کے صرف یہ معنیٰ نہیں ہے کہ کسی شے کی خواہش کی جائے بلکہ طلب کو موثربنانے کیلئے صارف کی خواہش کو خریدنے میں تبدیل کیاجائے۔پھر یہ کہ اس کی آمدنی اس قدر ہو کہ وہ قوت خرید بھی رکھتا ہو اس کیلئے بینکوں نے مذکورہ انتظامات کئے ہیں۔ افراط زر بڑھنے کی وجہ سے ملازمین کی تنخواہوں ایک خاص سطح تک بڑھائی گئی۔

کنسرٹس، سی ڈیز، موبائلز وغیرہ اور کنزیوم ازم

ترقی یافتہ ملکوںاور کچھ ترقی پذیر ملکوں میںکنسرٹس، سی ڈیز، آڈیو، وڈیو فلمیں موبائلز کے دھنک رنگ فروخت ہوئے اور ریونیو میں اضافے کا موجب بنے۔ الیکٹرونک، کھیلوں کے گیجٹس سے نئے طلب پیدا کرکے کنزیوم ازم کو نئی صورت دیکر اخراجات کو مہمیز دی۔ اسی رجحان نے مشروبات، فرنچائز، برگر اور کھانوں کی طرف نئی نسل کو راغب کیا۔ کھانے کا ذائقہ تبدیل ہوگیا، ملبوسات خاص طور پر جینز لڑکوں لڑکیوں میں عام ہوگئی، اتنی عام کہ اس نے عالمگیریت کا روپ دھار لیا۔ 

مغربی میڈیا ذوق اور ذائقہ تبدیل کرنے اور اپنے پروڈکٹس کی فروخت کیلئے نوجوانوں کے انتخاب (چوائس) اور ترجیحات کو پبلسٹی سے تبدیل کرنے میں  کافی حد تک کامیاب رہا ہے اس لئے ’’لوگو‘‘ اور ’’برانڈ‘‘ سے متاثر کیا جارہا ہے۔

پاکستان بڑے شہروں ایل اے، ٹوکیو، ریو فاسٹ فوڈ اور ملبوسات میں یکسانیت

آپ پاکستان کے بڑے شہروں کی بڑی بستیوںمیں دیکھیں اوران کا موازنہ فاسٹ فوڈ اور ملبوسات میں ایل اے، ٹوکیو، ریو Rio سے کریں تو آپ کو یکسانیت نظر آئے گی۔ کچھ عرصہ پہلے کے اندازے کے مطابق مختلف ملکوں کے نوجوانوں کے ایسے گروپوں نے 60 ارب ڈالرز کی اشیا خریدی ہیں۔سب سے زیادہ خریداری موبائلز کے علاوہ ملبوسات میںجینز کی ہوئی ہے۔ 

امریکا کی یہ مارکیٹنگ کے انداز ہیں جس سے مجموعی طلب بڑھاتے ہیں۔براںبریں نوجوان صارف کی ترجیحات، انتخاب، ذوق اور ذائقہ تبدیل کرنےمیں ایم ٹی وی (MTV) اور دیگر ٹی وی چینلز اہم رول ادا کررہے ہیں۔اس ایک مثال دیکھئے کہ اکنامکس ٹو ڈے اپنے ایک اداریئے میں لکھتا ہے کہ ’’ایک نیا پاپ پروڈکٹ جب امریکا میں متعارف کرایا جاتا ہے اس کے فوراً بعد 137 ممالک کے نوجوان اس کو فالو کرتے ہیں جن میں اب ترقی پذیر ممالک کی تعداد زیادہ ہے۔

ابھرتی ہوئی معیشتوں میں کنزیوم ازم کا تناسب

کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ دس سے انیس سال کے لڑکے لڑکیاں صارف لاطینی امریکا میں 59ملین ہیں، ان کی تعداد امریکا میں کم ہے جیسے بل گیٹس اور ایپل کےبچوں کو اجازت نہیں کہ وہ ایک خاص عمر تک موبائلز، لیپ ٹاپ اور دیگر گیجٹس کو ہاتھ لگائیں۔ 

پاکستان کے بچے، بوڑھے، جوان شب و روز اسی فسوں کاری میں مشغول ہیں۔ ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں ان صارفین کی تعداد 50ملین سے زائد ہوگئی ہے۔ یورپ امریکا سے متاثرنہیں،انہوں نے اپنی منڈی تخلیق کی ہے لیکن عالمی سطح پر منڈی کی معیشت کے رجحانات سب کیلئے ایک جیسے ہیںتاہم امریکی صدر ٹرمپ ان رجحانات کے خلاف ہوگئے ہیں۔

خریداری کے نئے کلچر میں ٹی وی اور ایڈورٹائزنگ کا رول

نوجوانوں کی عالمی مارکیٹوں میں ٹیلی ویژن اور ایڈورٹائزنگ سے تحریک دی جاتی ہے، گلوبلائزیشن نے ذرائع ابلاغ اس طرح استعمال کیا ہے کہ اقوام عالم کے نوجوان مغربی دنیاکے نئے رجحانات چاہے موسیقی ہو، ملبوسات یا کھانے پینے کی اشیا اسے نہ صرف تسلیم کررہے ہیںبلکہ اختیارکررہے ہیں۔ حالانکہ مقامی ذوق اور ذائقے بھی کم از کم پاکستان میں مقبول ہورہے ہیں۔ البتہ شاعری اور موسیقی کے اعلیٰ  قدروں  پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اس نئی مارکیٹنگ میں عورت کو زیادہ استعمال ہواہے جس سے معاشرے میں پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیںجس کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین