• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا پاکستانی معیشت ڈالر سے مشروط ہے؟

اس وقت  ڈالر کی قیمت تقریباََ 115روپے ہے ، جو 118کو چھو کر آچکی ہے۔ ڈالرکی قیمت جب بھی بڑھتی ہے تو درآمد کنندگان سخت پریشان ہوجاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک انٹربینک مارکیٹ میں مداخلت کرے اور روپے کی قدر گرنے نہ دے تو دوسری طرف برآمد کنندگان خوش ہوجاتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک روپے کی قدر میں کمی ہونے دے۔ ادھر اوپن مارکیٹ میں غیر ملکی کرنسی کا تبادلہ کرنے والی ایکسچینج کمپنیز تذبذب میںپڑجاتی ہیں اور بعض اوقات کرنسی مارکیٹ کا ریگولیٹر اسٹیٹ بینک بھی چپ سادھ لیتاہے۔

یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ روپے کی قدر کو کم ہونے سے نہ روکا جائے تو مہنگائی کا طوفان آجاتاہے ، اور نئی درآمدی کنسائنمنٹ کے تحت مارکیٹوں میں روپے کی بے قدری کے اثرات نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ اب جبکہ ماہ رمضان کی آمد آمد ہےتو ڈالر کی بڑھتی ہوئی شرح کو بنیاد بناکر درآمدی اشیاکی قیمتوں میں 10سے 25فیصد تک اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔جن میں بچوں کا خشک دودھ، گارمنٹس، کراکری، الیکٹرونکس کی مصنوعات، کھلونے، گھڑیاں، پرفیومز، ڈیکوریشن کا سامان، لکڑی، اسٹیل، ادویات، سیلولر فونز، کیمیکلز، جڑی بوٹیاں، آلات، خام مال، مشینری، موٹر وہیکلز، درسی کتابیں، رسائل، میک اپ کا سامان، درآمدی ٹائلز، چشموں کے فریم اور ضروریات کی دیگر اشیاء شامل ہیں ۔

عجیب سی صورتحال ہے جب ریٹیل کی دنیامیں کوئی بھی کموڈیٹی 100 روپے فی ڈالر سے خرید ی جاتی ہے اور جب ڈالرکی قیمت بڑھ جاتی ہےتو وہی چیز وہیں پڑے پڑے مہنگی ہو جاتی ہے ۔ اور جب ڈالر کی قدر کم ہوتی ہے تو وہی چیز واپس اپنی قیمت پر نہیں آتی اور ریٹیلرز کا کہنا یہی ہوتاہے کہ انہوں نے یہ اشیا ڈالرکی مہنگی شرح پر خریدی ہیں اور اس میں سراسر نقصان صارفین کا ہوتاہے اور وہ مہنگائی کا رونا روتے روتے نئی مہنگائی کے عادی ہوجاتے ہیں اور پھر نئی مہنگائی کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔یہی صورتحال پیٹرولیم مصنوعات کی ہے یعنی جب پیٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو اشیا مہنگی ہو جاتی ہیں اور جب پیٹرول کی قیمت کم ہوتی ہے تو اشیا کی قیمت نیچے نہیں آتی وہیں جم جاتی ہے۔

پاکستان میں کرنسی کا کاروبار کرنے والوں اور ماہرین نے اس شک کا اظہار کیا کہ اس کی وجہ بین الاقوامی فنانشل اداروں سے قرضوں کی ادائیگی کے لیے کیے گئے وعدے ہیں جبکہ سٹیٹ بینک کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ مارکیٹ میں اس کی بڑھتی ہوئی طلب ہے لیکن سٹیک ہولڈرز نے اس بات کو زیادہ قابل قبول نہیں سمجھا۔

منی ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اس بات کی جانب اشارہ کرتا رہا ہے کہ ڈالر کی موجودہ قیمت اس کی قدر کی صحیح عکاسی نہیں کرتی اور اس کے مطابق اسے 120 سے 125 روپے تک لے جانا ہوگا۔

دوسری جانب ماہر اقتصادیات صفیہ آفتاب کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ میں واضح طور پر درج تھا کہ پاکستان کےزرِ مبادلہ کے ذخائر میں بہت کمی آ گئی ہے جس سے انھیں قرضوں کی ادائیگی میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔ان کا خیال ہے کہ 'ڈالر کی قدر میں اضافے کے بعد خیال کیا جاتا ہے کہ شاید درآمدات کچھ کم ہو جائیں اور برآمدات میں اضافہ ہو لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ 'ڈالر کی قیمت میں اضافے سے ملک سے سرمایہ چلا جاتا ہے اور سرمایہ دار یہاں آنا نہیں چاہتے اور یہ ہر طرح سے نقصان دہ ہے۔

اسلا م آباد میں ایک فارن کرنسی ڈیلر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ’’ڈالرز کی ڈیمانڈ میں اچانک اضافہ ہوگیا، جس کی وجہ سے اس کی قدر بھی بڑھ گئی ہے۔ ابھی آثار ایسے نظر آرہے ہیں کہ اس کی قدر میں اضافہ نہ صرف یہ کہ بر قرار رہے گا بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وزیرِ خزانہ سلمان شاہ کا کہنا تھا کہ ہم تیل، ایل این جی، کھانے کی اشیاء، زرعی اشیاء، کوکنگ آئل سمیت کئی چیزیں درآمد کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سی پیک کے پروجیکٹس کے حوالے سے مشینریزبھی درآمد کی جارہی ہیں۔ اس وجہ سے ڈالر کی قدر میں اضافہ قدرتی تھا۔ اگر ہم نے اپنے امپورٹ بل کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی، برآمدات کو نہیں بڑھایا، پیداواری لاگت کو کم کر کے ایکسپورٹ کے لئے اپنی مصنوعات کو عالمی منڈی میں مزید مسابقانہ نہیں بنایا اور بنیادی معاشی اصلاحات نہیں کیں، تو صورتِ حال ایسی ہی رہے گی۔اس قدر میں اضافہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ ہمارے قرضوں کا حجم مزید بڑھے گا اور سی پیک کے جو پروجیکٹس چل رہے ہیں، وہ بھی مزید مہنگے ہو جائیںگے۔

ڈالر کی قدر میںاس قدر اضافہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کی تابعداری کا نتیجہ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو لوگ ملک کے معاشی امور چلاتے ہیں، وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ وہ ملک کے مفاد میں کم اور ان اداروں کے مفاد میں زیادہ سوچتے ہیں اور ایسی پالیسیاں بناتے ہیں، جس سے ملک کو نقصان ہو اور ان اداروں کا فائدہ ہو۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی یا ڈالر کی قدر بڑھ جانے سے ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ ہوگا، یہ بالکل ایک غلط تصور ہے۔

اس کا حل یہی ہو سکتاہے کہ غیر ضروری امپورٹ پر فی الحال پابندی لگا دینی چاہیے۔ مثال کے طور پر مالی سال 2017ءکے دوران تقریبا تین اعشاریہ پانچ بلین ڈالرز کاروں اور دوسرے لگژری آئیٹمز کی امپورٹ پر خرچ ہوئے۔ ہمیں ایسی امپورٹ پر وقتی طور پابندی لگانی چاہیے اور صرف انتہائی ضروری امپورٹس، جیساکہ سی پیک کے لئے مشینری وغیرہ امپورٹ کرنی چاہئیں۔

تازہ ترین