• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملیریا کے حوالے سے بلوچستان ہائی رسک قرار

آج پاکستان سمیت دنیابھر میں ملیریاسےمتعلق آگہی کاعالمی دن منایاجارہاہے،بلوچستان میں ملیریاکےحوالےسے صورتحال انتہائی تشویشناک ہے،اس کااندازہ اس حقیقت سےلگایاجاسکتاہے کہ صوبے میں 29اضلاع کو ملیریا کےحوالےسے ہائی رسک قراردیاگیاہے، صوبےمیں ڈینگی اور چکن گونیا نےبھی خطرےکی گھنٹی بجادی ہے۔

ملیریاویسےتو ایک خاص قسم کے مچھرسے لگنےوالا بظاہر عام سا مرض ہے،مگراسے اگر مناسب اہمیت نہ دیتے ہوئے بروقت تشخیص اورعلاج نہ کیاجائے تو یہ جان لیوابھی ثابت ہوسکتاہے۔

بلوچستان میں جہاں شعوروآگہی کےفقدان اور طبی سہولیات کی کمی ویسے ہی بڑا مسئلہ ہیں،صوبےکے34اضلاع میں سے29کوملیریاکےحوالےسےہائی رسک قراردیاگیاہےجن کی تعداد ملک میں سب سےزیادہ ہے، یہی نہیں صوبےمیں ڈینگی اورچکن گونیاکےکیسزبھی مسلسل رپورٹ ہورہےہیں۔

صوبائی مینیجر ملیریاکنٹرول پروگرام بلوچستان ڈاکٹرکمالان گچکی نےجیونیوزکوبتایا کہ صوبے میں اس وقت پاکستان میں سب سےزیادہائی رسک اضلاع بلوچستان میں ہیں ۔

ملک میں ہائی رسک اضلاع کی تعداد 56ہے،ان میں 29بلوچستان میں ہیں۔ڈاکٹرکمالان گچکی کاکہناتھا کہ صحت کے سرکاری شعبےکے اعدادوشمارکےمطابق بلوچستان میں ملیریاکےکیسزمیں ہرسال مسلسل اضافہ ہورہاہے۔

سرکاری اسپتالوں اورصحت کےمراکز میں 2016میں ملیریاکے53ہزارکیسزرپورٹ ہوئےتھے، جبکہ گذشتہ سال 2017میں بلوچستان میں 75ہزارکیسزرپورٹ ہوئے۔

اس میں نجی شعبےکےاعدادوشمارشامل نہیں ہیں،ان کا کہناتھا کہ ملیریاکےکیسز میں اضافہ اس وجہ سے نظرآرہاہے کہ پہلےکیسزرپورٹ نہیں ہوتے تھے اب یہ باقاعدگی سے رپورٹ ہورہےہیں۔

اگرویسے دیکھاجائےتو صوبے میں ہر ایک ہزار میں سے سات افراد میں ملیریا کی تصدیق ہوئی،، جبکہ باقی ملک میں یہ شرح دو فیصدسےکچھ زیادہ بنتی ہے۔

طبی ماہرین کےمطابق ملیریا کےمرض میں اضافے کی بڑی وجہ غربت ، صحت و صفائی کی کمی اوران سے متعلق شعور و آگہی کافقدان ہے،اس مرض کی بروقت روک تھام اور علاج بہت ضروری ہے،بصورت دیگرایک خاص قسم کے مچھر سے لگنے والی بظاہرعام سی بیماری پیچیدہ شکل اختیار کرنےکےبعدجسم کے دیگر اعضاء کو بھی متاثر کرسکتی ہے ۔

کوئٹہ کےمقامی صحت اورملیریامرکز کےانچارج اور سینئرمیڈیکل افسرڈاکٹرارباب طارق کاسی کاکہناتھا کہ ملیریاکوہمارےہاں اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی کہ دی جاناچاہئے،،ہم اسے بہت لائٹ لیتے ہیں،،اگر کسی کو کپکپاہٹ کےساتھ بخارہو،اس کےعلاوہ جسم میں درد کی بھی شکایت ہو،پسینہ آرہاہو اور نظام ہضم بھی درست نہ ہو تو اسے ملیریاکی تشخیص کےلئے مخصوص ٹیسٹ ضرورکراناچاہئے۔

ملیریا کےعلاج کےحوالےسے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملیریا کےعلاج کےلئےمریض کو مناسب دوا دینا ضروری ہے،،اگر ا س کا بروقت علاج نہ کیاجائےتو اس سے مزید پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔

یہ آگے چل کر دماغ پر بھی اثرانداز ہوسکتاہےاور جسم کےدیگراعضاء کو بھی متاثر کرسکتاہے،،،ملیریاکی روک تھام کےحوالےسےاقدامات سے متعلق صوبائی مینیجرملیریاکنٹرول پروگرام نے بتایا کہ صوبے میں ملیریا کی صورتحال کےپیش نظر بھرپور اقدامات کئے جارہے ہیں۔

اس حوالے سے صوبہ بھر میں مرض کی تشخیص کےلئے سات سو سےزائد مائیکرواسکوپی سینٹرز قائم کئے گئے ہیں،اس کےعلاوہ معاشرے میں شعوروآگہی کےحوالےسےبھی کام ہورہاہے،،،،مختلف غیرسرکاری تنظیموں سےمل کر ایڈووکیسی مہم چلائی جارہی ہےجبکہ انسدادملیریاکےلئے اسپرے مہم بھی شروع کردی گئی ہے۔

بروقت تشخیص کےبعد صحت کےمرامز میں ملیریاکےعلاج کےلئے ادویات بھی فراہم کی گئی ہیں،،،جبکہ مرض سے بچاؤ کےلئے مخصوص مچھردانیاں بھی فراہم کی جارہی ہیں۔

ڈاکٹرکمالان گچکی کےمطابق ملیریاکی روک تھام اور علاج کےلئےصوبائی حکومت کو گلوبل فنڈاورڈبلیو ایچ او کامالی اورتکنیکی تعاون حاصل ہے۔

ملیریاکی تشویشناک صورتحال تو اپنی جگہ ،،اس کےعلاوہ صوبائی مینیجر ملیریاکنٹرول پروگرام ڈاکٹرکمالان گچکی کا یہ بھی کہناتھا کہ ملیریاسےتو ہم فائٹ کرہی رہےہیں مگر صوبے میں چکن گونیا اور ڈینگی کےکیسزبھی سامنے آرہے ہیں جن کی صورتحال بھی الارمنگ ہے۔

اعدادوشمارکےمطابق 2016میں ڈینگی کے 79کیسزرپورٹ ہوئے جبکہ 2017میں ان کیسزکی تعداد 53تھی،،ڈینگی کےیہ کیسززیادہ تر لسبیلہ،کیچ اور گوادرکےعلاقوں سے رپورٹ ہوئے۔

ملیریاہوڈینگی ہو یا پھر چکن گونیا اور کوئی دوسرا مرض ان میں اضافہ کی وجوہات میں دوسرےعوامل اپنی جگہ،مگر اس حوالےسے بڑی وجہ عوام میں شعوروآگہی کافقدان ہے۔

طبی ماہرین کاکہنا ہے کہ مناسب شعوروآگہی سےکئی امراض کی روک تھام ممکن ہے،،کیوں کہ ایسے وقت کہ جب جہاں طبی سہولیات کافقدان ہو وہاں پرہیز علاج سے بہترکافارمولہ لاگو ہوناوقت کی اہم ضرورت بن جاتاہےاور یہی صورتحال بلوچستان میں بعین نظرآتی ہے۔

تازہ ترین