• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ حکومت کے دور میں لگاتار پانچوں برسوں میں معیشت کی شرح نمو کے اہداف سال بہ سال حاصل نہیں کئے جاسکے۔ پہلے تین برسوں میں معیشت کی شرح نمو 1980 سے 2013کے 33برسوں کی اوسط سے بھی کم رہی جبکہ مالی سال 2017اور 2018میں شرح نمو میں کچھ اضافہ ہوا مگر اسکے ساتھ ہی تجارتی خسارہ اور جاری حسابات کا خسارہ قابو سے باہر ہوگیا جبکہ ملک پر قرضوں کے حجم میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا۔ دسمبر2016سے دسمبر 2017کے صرف 12ماہ میں پاکستان کے بیرونی قرضوں اور ذمہ داریوں کے حجم میں 13.1ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ اکتوبر 2016سے 9اپریل 2018کے درمیان اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 7.5ارب ڈالر کی کمی ہوئی یعنی مختصر مدت میں پاکستان کو 20.6ارب ڈالر کا جھٹکا لگا۔ موجودہ حکومت کے دور میں جولائی 2013سے مارچ 2018ء یعنی4سال 9ماہ کی مدت میں پاکستان کو تقریباً 102ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا جبکہ جاری حسابات کے خسارے کا حجم 34.9ارب ڈالر رہا۔ اسی مدت میں وطن عزیز میں بیرونی ممالک سے 88.4ارب ڈالر کی ترسیلات آئیں۔بیرونی ملکوں سے آنیوالی ان ترسیلات کو تجارتی خسارے کی مالکاری کیلئے استعمال کیا گیا جوکہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ واضح رہے کہ ترسیلات کا ایک حصہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق (4) 111کا مرہون منت ہے جس سے ٹیکسوں کی مد میں قومی خزانے کو تقریباً دو ہزار ارب روپے سالانہ کا نقصان ہوتا رہا ہے۔ ان ترسیلات کا تقریباً 78فیصد صرف چار ملکوں سے آتا ہے۔ استعماری طاقتیں ریشہ دوانیاں کرکے اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کی آڑ میں ان ترسیلات کے حجم میں اچانک بڑی کمی کراسکتی ہیں۔ معیشت اس جھٹکے کو سنبھال نہیں پائے گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ترسیلات کے بڑے حصے کو تجارتی خسارہ پورا کرنے کے بجائے ممکنہ حد تک سرمایہ کاری کرنے کیلئے استعمال کیا جائے۔
جاری کھاتے کا خسارہ بڑھنے اور اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہونے سے بھی ہمارا بیرونی شعبہ بحران کا شکار ہوا۔ اس بحران کے پیدا ہونے میں استعماری طاقتوں کے اشارے پر 6.64ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری کیلئے اگست 2013کی آئی ایم ایف کی اس شرط کا بھی اہم کردار رہا ہے جس کے مطابق پاکستان کو تین برسوں تک بجلی و گیس کے نرخ بڑھانے تھے۔ اس شرط کو چاروں صوبوں کی بھی عملی حمایت حاصل تھی کیونکہ اس کے تحت صوبوں کی جانب سے بھی طاقتور طبقوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کے نقصانات پورے کئے جانے تھے۔ اس شرط کے نتیجے میں مالی سال 2015، 2016اور 2017میں برآمدات گرتی رہیں۔ اسی مدت میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھا گیا جس سے نہ صرف برآمدات متاثر ہوئیں بلکہ غیر ضروری درآمدات بھی بڑھتی رہیں۔
مالی سال 2016-17میں جاری کھاتے کا خسارہ بڑھنا شروع ہوگیا تھا لیکن آئی ایم ایف نے متوقع خسارے کو دانستہ کم کرکے بتلایا۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ اسٹیٹ بینک نے بھی 17نومبر 2016کو جاری کردہ اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ 2016-17 میں جاری کھاتے کا خسارہ 1.5ارب ڈالر سے زائد رہ سکتا ہے حالانکہ یہ بات واضح تھی کہ یہ خسارہ اس سے کئی گنا زیادہ ہوگا۔ چنانچہ خسارے کو کم کرنے کے لئے کوئی موثر قدم اُٹھایا ہی نہیں گیا نتیجتاً بیرونی شعبے کا بحران سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا گیا۔ اس حقیقت کو بہرحال تسلیم کرنا ہوگا کہ معیشت کو آج جن مشکلات و خطرات کا سامنا ہے ان کی ذمہ داری وفاقی و صوبائی حکومتوں، سیاستدانوں، ریاست کے تمام ستونوں اور ریاست کے اہم اداروں مثلاً اسٹیٹ بینک، ایف بی آر اور ایس ای سی پی پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس پس منظر میں یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 8اپریل 2018کو جن ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کا اجرا کیا ہے وہ اعلان کردہ مقاصد حاصل نہیں کرسکیں گی۔ اس ضمن میں چند گزارشات پیش ہیں۔
(1) ٹیکس چوری، لوٹی ہوئی دولت اور دوسرے ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی رقوم سے کئی ہزار ارب روپے کے اثاثے ملک کے اندر موجود ہیں جن کو ٹیکس حکام سے خفیہ رکھا گیا ہے ان ’’ملکی پاناماز‘‘ کی تفصیلات ریکارڈ میں موجود ہیں۔ یہ اثاثے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی دسترس میں بھی ہیں۔ اگر ان ملکی پاناماز کو ایمنسٹی دینے کے بجائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ان اثاثوں کی نشاندہی کر کے ان سے قانون کے مطابق ٹیکس اور واجبات وصول کئے جائیں تو حکومت کو دو ہزار ارب روپے کی اضافی آمدنی ہوسکتی ہے۔ ہم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست کریں گے کہ بیرونی اثاثوں کے ازخود نوٹس کیس میں ان ملکی پاناماز کے ضمن میں فوری طور پر احکامات صادر کئے جائیں۔
(2) اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ حالیہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے بعد بھی غیر منقولہ جائیدادیں ناجائز دولت کو محفوظ جنت فراہم کرتی رہیں گی۔ قومی مفادات کے تحفظ کیلئے یہ از حد ضروری ہے کہ صوبے جائیدادوں کے ’’ڈی سی ریٹ‘‘ مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لے آئیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو یہ واضح ہو جائیگا کہ صوبوں کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی کی مخالفت صرف نورا کشتی ہے۔
(3) حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے لوگوں کو موقع دیا ہے کہ وہ ایسی نقد رقوم پر ایمنسٹی حاصل کرلیں جو دراصل ان کے پاس موجود ہی نہیں ہیں۔ اس طرح آئندہ حاصل کی جانے والی ناجائز دولت کو بھی قانونی تحفظ مل جائیگا۔
(4) پاکستان سے ناجائز دولت قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے ملک سے باہر بھیجنے کے متعدد راستے آئندہ بھی موجود رہیں گے چنانچہ اگر ایک شخص ایمنسٹی اسکیم کے تحت ایک لاکھ ڈالر پاکستان لے آتا ہے تو اسکے پاس قانونی طور پر تقریباً 11.6ملین روپے موجود ہوں گے جن کو واپس ملک سے باہر بھیج سکتا ہے۔ اس صورت میں اسکے پاس نقد رقم تو ہوگی ہی نہیں مگر اسکی کتابوں میں 11.6ملین روپے موجود ہوں گے اسطرح آئندہ حاصل کی جانیوالی دولت کو خود بخود تحفظ مل جائیگا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت بڑے پیمانے پر مہنگی شرح سود پر بیرونی قرضے حاصل کرکے اور بیرونی شعبے کے بحران پر قابو پانے کی آڑ میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کا اجرا کر کے آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر گزارا کر لے گی مگر معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے اسٹرکچرل اصلاحات نہ کرنیکی وجہ سے آنیوالے وقت میں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز کرنا پڑے گا جسکے نتائج کا سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین