• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خصوصی تحریر…یاور حیات(مرحوم) کی یادداشتیں
میں لاہور کے ایک نجی کالج میں زیرتعلیم تھا جب ایکٹنگ کا شوق چرایا، میں نے اس خواہش کا اظہار اپنے ماموںانور کمال پاشا سےکیا تو انہوں نے کہا کہ ایکٹنگ بعد کی بات ہے پہلے اپنے اصل کام کی طرف توجہ دو، ان کا اشارہ ڈائریکشن کی طرف تھا۔ پاشا صاحب نے کہا ایکٹر اورڈائریکٹر بننے کیلئے ضروری ہے کہ تم پہلے فلم کے دیگر شعبوں پر بھی دسترس حاصل کر لو۔ اوائل میں مجھے کیمرہ مین رشید لودھی کے سپرد کیا گیا، پھر فلم ایڈیٹر ایم اکرم کے نیاز حاصل ہوئے پھر سائونڈ ریکارڈسٹ سی منڈودی اور ان کے ساتھیوں اے زیڈ بیگ اور افضل حسین کی چاکری کی، گویا کافی عرصہ لائٹ مین سے لے کر کلیپ بوائے تک فلم نگری کی بھول بھلیوں میں گم رہا اور پھر ایک روز پاشا صاحب نے نعیم ہاشمی سے مخاطب ہو کر کہا ’’یار نعیم یاور کو ایکٹر بنادو‘‘ میری خواہش ہے کہ یہ ڈائریکشن کی طرف آئے چونکہ ڈائریکشن کیلئے ایکٹنگ کا جاننابہت ضروری ہے اس لئے اب تم اسے پالش کردو۔ 1950ء کا دور تھا اور ان دنوں پاشا صاحب اپنی فلم ’’سرفروش‘‘ بنا رہے تھے۔ پاشا صاحب کا گھر ہی ان کا آفس تھا اسی اچھرہ والے گھر میں انہوں نے تاریخ ساز فلمیں بنائیں۔ نعیم ہاشمی قریب ہی رہتے تھے اور وہ پاشا صاحب کے یونٹ میں ریگولر ایکٹر تھے۔ دونوں کا آپس میں بہت یارانہ تھا پاشا صاحب نے مجھے کہا کہ نعیم ہاشمی پاکستان کے ان چند آرٹسٹوں میں سے ہیں جنہیں فلم کے علاوہ اسٹیج اور ریڈیو پر بھی کام کا تجربہ ہے اور یہ تجربہ صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ اب میں تھا اور استاد محترم نعیم ہاشمی صاحب۔
ایک روز میں نے پوچھا ’’ہاشمی صاحب! ڈرامہ کیا ہے‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ ’’اگر تم چھت سے سیڑھیوں کے ذریعے اترو تو یہ ڈرامہ نہیں،اگر تم چھت سے چھلانگ لگا دو تو یہ ڈرامہ ہے‘‘ گویا معمول سے ہٹ کر کام کرنا ڈرامہ کہلاتا ہے اور اس نسخہ میں رائٹر، ڈائریکٹر، کیمرہ مین اور ایکٹر اپنے اجزا تلاش کرتے ہیں۔ نعیم صاحب نے بتایا کہ ڈرامہ کے دو اسکول آف تھاٹ ہیں ایک Realisticاور دوسرا Glamorous۔
استاد محترم کی میرے ساتھ تین چار سال تک مکالمہ بازی جاری رہی اٹھتے بیٹھے، چلتے پھرتے ہمارے درمیان سوال جواب کا لامتناعی سلسلہ جاری رہتا، ہاشمی صاحب کہا کرتے تھے کہ ’’جس طرح سوال ضروری ہے اسی طرح اس کا جواب اس سے زیادہ ضروری ہے جو اب تسلی بخش نہیں ہوگا تو اس سے ایک اور سوال جنم لے گا مگر افسوس کہ اب سوال وجواب کا رجحان بہت کم ہوگیا ہے یہ خوبی پاشا صاحب میں بھی تھی مگر زیادہ تکرار پر وہ برہم ہو جایا کرتے تھے جبکہ ہاشمی صاحب حلیم اور ٹھنڈے مزاج کے مالک تھے۔
ایک روز میں نے نعیم صاحب سے پوچھا ’’Realisticڈرامہ کی زیادہ زندگی ہے یا گلیمرس کی‘‘اس کا جواب انہوں نے تین چار نشستوں میں دیا ان کا کہنا تھا کہ یہ ’’آگاہی‘‘ پر منحصر ہے کہ یہ لوگوں میں کب پیدا ہوتی ہے اس کا سب سے پہلے رائٹر، پھر ڈائریکٹر اور پھر ایکٹر ذمہ دار ہے، رائٹر جب تک منٹو، کرشن چند، غلام عباس، راجندر سنگھ بیدی، اشفاق احمد، بلونت سنگھ، انتظار حسین اور احمد ندیم قاسمی کی طرح نہیں لکھتے۔ ڈائریکٹر اس وقت تک Realisticفلمیں نہیں بنا سکتے اور اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ ڈائریکٹر بھی طبعاً Realisticہوں جو Realityکو فروغ دینا چاہیں، ریالٹی ہی ہماری اصل زندگی ہے۔ رہن سہن، بودوباش، عام زندگی، بڑا ڈائریکٹر وہی ہے جو نارمل سچوایشن سے ڈرامہ پیدا کرے اس سلسلہ کی آخری کڑی ایکٹر ہے اگر وہ خود طبعاً Realityمیں نام مقام بننا چاہتا ہو مگر اس کے باوجود یہ تلخ حقیقت ہے کہ گلیمر کا رجحان زیادہ رہا ہے، ہیروئن خوبصورت اور کروڑ پتی ہے اور ہیرو غریب۔
استاد محترم نعیم ہاشمی کی ذات اور ان کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کے حوالے سے لکھنے کو اور بھی بہت کچھ ہے مگر اب میں اس عہد کی طرف آتا ہوں جب 64ء میں ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو میں نے ابتدا میں ہی اسے جوائن کرلیا، ’’خیرات خور‘‘ میرے ابتدائی ٹی وی ڈراموں میں سے ایک تھا ’’خیرات خور‘‘ کا مرکزی کردار نعیم ہاشمی صاحب نے ادا کیا یہ ڈرامہ تھرڈ ورلڈ کنٹری بالخصوص پاکستان کے حالات کا بہترین عکاس تھا اس کے رائٹر باقی صدیقی تھےاس ڈرامہ کی کہانی یہ تھی کہ ’’خیرات خور بابا‘‘ بیٹے کے خودکفیل اور امیر ہونے کے باوجود ’’خیرات خوری‘‘ کی عادت نہیں چھوڑتا، اس کا بیٹا تنگ آکر کمرے میں قفل لگا کر اسے بند کردیتا ہے مگر وہ حیلے بہانوں سے گھر سے نکل کر ’’جماں جنج نال‘‘ بنا پھرتا ہے ڈرامہ کی ریکارڈنگ سے قبل مجھ میں ہمت اور جرات نہیں تھی کہ میں استاد محترم سے کہوں کہ وہ میری ہدایات میں کام کریں میری ایک بڑی مجبوری یہ بھی تھی کہ میرے نزدیک دوسرا کوئی ایکٹر اس کردار کیلئے فٹ نظر نہیں آتا تھا میں نے اپنی اس مشکل کا ذکر انور کمال پاشا صاحب سے کیا تو انہوں نے نعیم ہاشمی صاحب سے سفارش کی۔ ڈرامہ کے ایک سین میں جب مالدار بیٹا خیرات خور باپ کی تلاش میں ایک شادی والے گھر جاتا ہے اور وہ اسے براتیوں میں تلاش کررہا ہوتا ہے بیٹے کے دیکھنے سے قبل خیرات خور باپ بیٹے کو دیکھ لیتا ہے اس مختصر سے سین میں ہاشمی صاحب نے کلوز کیمرہ کے شارٹس میں فقط ’’چہرہ کی ٹکڑی‘‘ بالخصوص آنکھوں کے ساتھ اداکاری کرتے ہوئے بیٹے کے سامنے چھپنے کی جو ایکٹنگ کی یہ انہی کا خاصہ تھا میری خواہش ہے کہ یہ ڈرامہ دوبارہ ٹیلی کاسٹ کیا جائے ان کا میرے ساتھ آخری ٹی وی ڈرامہ ’’عکس‘‘ تھا یہ ڈرامہ انور کمال پاشا صاحب کا لکھا ہوا تھا، اس ڈرامہ میں انہوں نے تھیٹر کے ایک ایسے اداکار کا کردارادا کیا جو ایک سنگر بیٹی کا باپ ہے اس ڈرامے میں بھی ان کی اداکاری انتہا پر تھی استاد مرحوم ایکٹر کیلئے تعلیم اور مشاہدہ کے ساتھ پریکٹس کو بھی ضروری قرار دیتے تھے۔
افسوس! نعیم ہاشمی صاحب کو ان کی زندگی میں ان کا مقام نہ مل سکا۔
تازہ ترین