• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے روسی افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل گراسیموف سے بات چیت کے دوران جنوبی ایشیا میں سرد جنگ کے اثرات سے نکلنے کی اسلام آباد کی جس خواہش کا اظہار کیا، وہ وطن عزیز ہی نہیں پورے خطے میں امن، استحکام، ترقی اور خوشحالی کی ناگزیر ضرورت ہے۔ گہرائی میں جاکر تجزیہ کیا جائے تو دوسری جنگ عظیم کے بعد سرد جنگ کے ابتدائی برسوں میں برٹش انڈیا کے دو ملکوں میں بٹنے کے فارمولے میں کشمیر کا معاملہ غیر حل شدہ رکھنے، پاک بھارت کشیدگی بڑھانے اور جنگوں کی فضاء پیدا کرنے میں سرد جنگ کے منفی اثرات کا خاصا دخل ہے جو نہ صرف پاکستان اور بھارت کی ترقی و خوشحالی کی کوششوں میں حائل ہوتے رہے بلکہ خطے کے تمام ملکوں کو یرغمال بنانے کا ذریعہ بنے۔ سوویت یونین کے انہدام سمیت کئی اہم واقعات، جن میں افغانستان میں اتحادی فوجوں کی آمد سے لے کر مشرق وسطٰی میں تباہی وبربادی کا تاحال جاری منظرنامہ شامل ہے، اس بات کا متقاضی ہے کہ سرد جنگ کے اثرات کو دور کیا جائے اور باہمی اتحاد و تعاون کی فضا میں تمام ملکوں کو ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر پیش قدمی کے مواقع حاصل ہوں۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر نے دنیا بھر کے ملکوں کو اقتصادی تعاون بڑھانے اور تجارتی فوائد میں حصہ دار بننے کے جو مواقع دئیے، ان کا دنیا بھر میں اعتراف کیا جارہا ہے جبکہ پاکستان اور روس کے درمیان کئی برسوں سے جاری رابطے جوں جوں آگے بڑھے، ماسکو کی طرف سے پاکستان کی ان کاوشوں کا کھل کر اعتراف سامنے آیا جو وہ دہشت گردوں کی بیخ کنی، افغانستان میں قیام امن اور علاقائی امن و تعاون میں فروغ کے لئے کرتا آیا ہے۔ جنرل باجوہ کے منگل کے روز ماسکو پہنچنے کے بعد کے دو دنوں میں بری فوج کے کمانڈر کرنل جنرل اولیگ سالیوکوف سمیت روسی فوجی قیادت کی طرف سے پاک روس عسکری تعاون کو مزید وسعت دینے کی خواہش کے اظہار اور افغانستان میں امن و مفاہمت کے لئے پاکستانی کوششوں کی بھرپور حمایت کے اعلان سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ پاکستان کی سب ملکوں سے دوستانہ روابط رکھنے اور باہمی مفادات پر مبنی ہمہ جہتی معاہدے کرنے کی حکمت عملی ثمر آور ثابت ہورہی ہے۔ اس باب میں بیجنگ میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے دفاع کا یہ فیصلہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے کہ 8ممالک کی مشترکہ جنگی مشقیں اگست سے ستمبر تک ماسکو کی میزبانی میں ہوں گی جن میں روس، چین اور دیگر رکن ممالک کے علاوہ تاریخ میں پہلی بار پاکستان اور بھارت کی افواج بھی شرکت کریں گی۔ نئی دہلی کے حکمرانوں نے، جو پاکستان کے ساتھ امن، تعاون اور صلح کی فضا پیدا کرنے کے اکثر مواقع نظرانداز کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے ، پہلی بار اس امر پر آمادگی ظاہر کی کہ ان کی افواج دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے، دہشت گردی کے نیٹ ورک کو بے اثر کرنے اور جنگ کی تیاری جانچنے کے علاوہ ممکنہ حملوں کو روکنے کے لئے اکٹھی مشقیں کریں گی۔ یہ ایک بڑی پیش رفت ہے اور اس سے فوجی و سویلین سطحوں پر تعاون و مفاہمت کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے فوجیوں نے ماضی میں غیرملکی سرزمین پر اقوام متحدہ کے تحت بطور امن مشن ایک دوسرے کے ساتھ کام کیا ہے مگر ان کی نوعیت عالمی ادارے کے دستوں کی حیثیت سے قطعی مختلف رہی ہے۔ اب چین کی میزبانی میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں امن و استحکام، ترقی و خوشحالی کے لئے مشترکہ کمیونٹی کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جس شنگھائی اسپرٹ کی حمایت کی گئی اس کا تجویز کردہ مشترکہ جنگی مشقوں کا نام ہی ’’امن مشن 2018ء‘‘ اس منزل کی نشاندہی کرتاہے جس کی طرف بڑھنے کا عزم کیا گیا ہے۔ شنگھائی تنظیم کے وزرائے دفاع کے اجتماع میں پاکستان کے خرم دستگیر سمیت مختلف ملکوں کے وزراء نے جس ’’شنگھائی جذبے‘‘ کی حمایت کی اس کے آگے چل کر خطے میں فروغ امن کا اہم سنگ میل ثابت ہونے کی توقعات کی جاسکتی ہیں۔

تازہ ترین