• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں کالم لکھنے بیٹھا، تو بار بار مرزا غالبؔ یاد آئے کہ دل غم سے نڈھال بھی ہے اور بےپایاں خوشیوں سے سرشار بھی۔ دکھ یہ ہے کہ انسانی ہمدردی کے چشمے خشک ہوتے جا رہے ہیں۔ جناب نواز شریف کی اہلیہ لندن میں زیرِ علاج ہیں جن کے عزم اور استقامت کو تاریخ نے بار بار سلام کیا ہے۔ وہ سرطان کے مرض میں مبتلا ہیں اور ان کی حالت روزبروز ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ نوازشریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز جن پر احتساب عدالت میں تین مقدمات چل رہے ہیں، وہ عدالت کی اجازت سے عیادت کے لیے لندن پہنچے اور مزید استثنیٰ کی درخواست بھی دے گئے تھے۔ توقع یہی تھی کہ انسانی ہمدردی میں عدالت استثنیٰ کی درخواست منظور کر لے گی۔ نیب کے چیئرمین فاضل جسٹس (ر) جاوید اقبال سے کسی صحافی نے سوال کیا کہ نوازشریف کو لندن جانے کی اجازت کیوں دی گئی، تو اُنہوں نے برجستہ کہا کہ اجازت عدالت نے دی ہے اور انسانی ہمدردی بھی کوئی شے ہے۔ ان کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ احتساب کا بھی ایک ضابطۂ اخلاق ہے جس میں انسانی مشکلات اور ناگہانی صورتِ حال کا خیال رکھا جاتا ہے۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق محترمہ کلثوم نواز کو شدید تکلیف کی حالت میں چھوڑ کر باپ بیٹی اسلام آباد آ گئے اور عدالت میں پیش ہوئے۔ جناب نوازشریف غم سے نڈھال تھے اور اِسی لیے اُن کے لہجے میں تلخی نمایاں تھی۔ مجھے اِس موقع پر غالبؔ کا شعر یاد آیا؎
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
اہلِ وطن کو اپنی عظیم خاتون کی صحت یابی کے لیے دعا مانگنی اور ان کی عظمت کو سلامِ عقیدت پیش کرنا چاہیے۔ آزمائشوں میں عجب عجب مقام آتے ہیں۔ خودی اور خودداری حریف کے سامنے جھکنے نہیں دیتی۔ آویزش میں جس قدر سختی آتی ہے، اسی نسبت سے عزم بھی بلند ہوتا جاتا ہے۔ اِسی کیفیت کو غالبؔ نے یوں بیان کیا ہے ؎
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
اِس قلبی کیفیت میں ’رازداں‘ پر بھی سوال اُٹھنے لگتے ہیں؎
کیا غم خوار نے رسوا لگے آگ اِس محبت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو
اور پھر ایک ایسا مقام بھی آتا ہے کہ دل بلبلا اُٹھتا ہے؎
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھیرا
تو پھر اے سنگِ دل! تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
ہماری سیاست جس ڈگر پر چل نکلی ہے اور ہمارے بعض افراد جس انداز سے ایک دوسرے سے دست و گریباں دکھائی دیتے ہیں، اس سے خوف سا آنے لگا ہے۔ ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ لاکھوں مسلمانوں کی بے مثال قربانیوں اور آرزوؤں سے جو پاکستان وجود میں آیا تھا، کیا اسے ایک ایسی پستی کو بھی چھونا تھا جس میں بڑوں کا احترام ہے نہ چھوٹوں کے لیے محبت کے الفاظ۔ ہماری تہذیب میں جو ایک شائستگی، رواداری اور خیرخواہی تھی وہ کہاں کافور ہو گئی؟ آج ہر شخص جسے اللہ تعالیٰ نے کوئی رتبہ عطا کیا ہے، وہ مسیحا بنا بیٹھا ہے اور شفا بخشنے کے بجائے شدتِ جذبات سے آزار پہنچا رہا ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا؎
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
رشتوں میں ایک عجب افراتفری، رویوں میں بلا کی سختی ہے اور کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ حشر برپا ہونے والا ہے۔ سالہا سال کے دوست شمشیر بدست نظر آتے ہیں اور سب کچھ تباہ کرنے کی سرِعام دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اقدار کی فصیلیں گرائی جا رہی ہیں اور اصولوں کا سرراہ قتل عام جاری ہے۔ نفرتوں کے الاؤ دہکائے جا رہے ہیں اور گھر کے چراغ ہی اُنہیں خاکستر کیے دیتے ہیں۔ یااللہ! یہ فنا کا کیسا مرحلہ ہے کہ عقل و ہوش جواب دے چکے ہیں اور وضعداری کی نبضیں ڈوبتی جا رہی ہیں۔
یہ تو ہمارے مکافاتِ عمل ہیں جبکہ قدرت کا نظام توازن پر قائم ہے۔ جہاں ناکامیاں ہیں، وہاں حیرت انگیز کامیابیاں بھی ہیں۔ غالبؔ نے کس قدر شوخ انداز میں کہا تھا؎
نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
میں نے اخبار میں پڑھا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں تین وزرائے اعلیٰ نے وفاق کے ترقیاتی منصوبوں سے اختلاف کیا اور اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔ اس خبر کے پہلو میں یہ خوشخبری بھی موجود ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل میں پہلی بار وزیراعظم اور تمام وزرائے اعلیٰ نے قومی آبی پالیسی پر دستخط کیے جو ایک بہت بڑا تاریخی کارنامہ اور داخلی استحکام کا نہایت روح پرور مظہر ہے۔ یہ امر بھی نشاط انگیز ہے کہ گزشتہ دنوں ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے روس اور چین میں اہم شخصیتوں سے ملاقاتیں کیں، دوررس اثرات کے حامل معاہدے کیے جن سے پاکستان کی اسٹرٹیجک حیثیت میں زبردست اضافہ ہوا۔ اس پیش رفت میں ہمارے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کردار قابلِ ذکر ہے جبکہ ہمارے وزیرِخارجہ جناب خواجہ محمد آصف اور وزیرِ دفاع جناب خرم دستگیر خاں حددرجہ سرگرم ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مشکلات کے باوجود پاکستان عالمی برادری میں اپنا مقام پیدا کر رہا ہے اور سی پیک منصوبے کے ذریعے براعظموں کو ایک دوسرے کے قریب لا رہا ہے، لیکن رہ رہ کر یہی خیال آتا ہے کہ داخلی طور پر ہمارے ہاں جذبات میں جو طغیانی آئی ہوئی ہے، اس سے کسی وقت بھی کوئی حادثہ رونما ہونے کا حدثہ ہے۔
مجھے اِس موقع پر اپنی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ یاد آ رہا ہے۔ میں ستمبر 1950ء میں ہیڈمرالہ پر تعینات تھا۔ ایک ہفتے موسلادھار بارشیں ہوئیں اور دریائے چناب میںزبردست طغیانی آ گئی۔ پانی کا ڈسچارج آٹھ لاکھ کیوسک ہو چکا تھا اور ہیڈورکس کو شدید خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ اعلیٰ حکام نے بند توڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ آس پاس کے دیہات پانی میں ڈوب گئے، مگر ہیڈورکس محفوظ رہا۔ ڈاؤن سٹریم پر خانکی ہیڈورکس واقع تھا ۔مرالہ ہیڈورکس سے گزر کر پانی بارہ گھنٹوں میں وہاں پہنچا تھا۔ ہیڈورکس حکام نے فیصلہ کرنے میں تاخیر کی جس کے نتیجے میں پورا ہیڈورکس پانی میں بہہ گیا جو ایک ناقابلِ تلافی نقصان تھا۔ اس تجربے کی روشنی میں ہمارے متعلقہ اداروں کو بے ہنگم جذبات کی موجوں پر قابو پانے کے لیے بروقت فیصلے کے لیے مستعد رہنا چاہیے۔
عدالت ِ عظمیٰ نے لاہور ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی کو اس لیے معطل کر دیا کہ اُن کی تعیناتی میں وزیرِ داخلہ جناب احسن اقبال کی سفارش کا بھی عمل دخل تھا۔ واقعاتی طور پر ڈاکٹر صاحبہ کی تعینانی میرٹ پر ہوئی کیونکہ ان کے پاس مانچسٹر یونیورسٹی سے ماسٹرز اور یونیورسٹی آف برمنگھم سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے اور انہوں نے یونیورسٹی آف کیمبرج سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کا اعزاز حاصل کیا۔ انہیں جس انداز سے فارغ کیا گیا، اس سے کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہوا۔ بلاشبہ عدالت ِعظمیٰ صدقِ دل سے عوام کے مسائل حل کرنا چاہتی ہےمگر انہیں کسی سے زیادتی سے بھی اجتناب کرنا چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین