• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زمین کاتنازعہ

گلاب علی سہتو،ٹھری میرواہ

اندرون سندھ میں قتل و غارت گری کی خبریں روزانہ ہی پڑھتے رہتے ہیں، جن میں قبائلی تصادم میں ہلاکتیں، بے گناہ خواتین کا غیرت کے نام پر قتل، معصوم بچیوں کااغوااور زیادتی کے بعد قتل، عورتوں کو زندہ جلانے ، تیزاب پھینکنے کے واقعات عام ہیں۔ بعض دفعہ ان واقعات کو خودکشی یا اتفاقی موت کا رنگ دیا جاتا ہے لیکن حال ہی میں ٹھری میروا میں قتل کی ایسی واردات رونما ہوئی ہے جس کے بعد لوگوں کا خونی رشتوں پر سے بھی یقین اٹھ گیا ہے۔

باپ تو اپنے اہل خانہ ، خاص طور سے اولاد کے لیے سائبان کی حیثیت رکھتا ہے، وہ نامساعد صورت حال کا سامنا ہونے پر اپنے بچوں کو بچانے کی خاطر خود کو خطرات میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتا، لیکن ٹھری میرواہ میں ایک باپ نے اپنی بیٹی کو اپنے ہی ہاتھوں سےدشمنی کی بھینٹ چڑھا کر واقعے کومخالفین کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن پولیس تحقیقات کے بعد اس قتل کی واردات میں وہ خود ملوث پایاگیا۔

روزنامہ جنگ کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق کچھ عرصے قبل جوگی گاؤں کا رہائشی ہزارو جوگی اپنی بیمار بیٹی10سالہ سنفرزہ جوگی کو ٹھری میرواہ شہر سے دوا دلانے کے بعد واپس موٹر سائیکل پر اپنے گاؤں کی طرف آرہے تھے، ہزارو کا بھائی اسد اللہ بھی اس کے ہم راہ تھا۔رات زیادہ ہونے کی وجہ سے سڑک پر تاریکی چھائی ہوئی تھی ، جس کی وجہ سے اطراف کے مناظرصاف نظر نہیں آرہے تھے۔

جب وہ گرڈ اسٹیشن کے قریب پہنچے توان پر نامعلوم سمت سے فائرنگ شروع ہوگئی، گولی لگنے سے سنفروزہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئی جب کہ ہزارو کا بھائی اسد اللہ زخمی ہوا۔ اطلاع ملنے پر پولیس نےجائے واردات پر پہنچ کر لاش اور زخمی کو ٹھری میرواہ اسپتال منتقل کیا۔ 

اس کے بعد پولیس نے تفتیش شروع کرتے ہوئے جائے وقوعہ کا معائنہ کیااور گولیوں کے خول اور دیگر شواہد اکٹھے کئےگئے۔متوفیہ بچی سنفروزہ کی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد اس کے والد کے حوالے کردی گئی ۔ایس ایچ او ٹھری میر واہ نے بہ ذات خود اس کیس کی تحقیقات میں دل چسپی لیتے ہوئےتفتیشی افسر کو احکامات جاری کیے ۔جب واقعے کی باریک بینی سے چھان بین کی گئی تو انہوں نے شک کی بنا پر مقتولہ کے والد اور چچا کو بھی شامل تفتیش کرکے تفتیش کا دائرہ کار وسیع کردیا۔ 

جب ہزارو جوگی سے پوچھ گچھ کی گئی تو اس نےحقیقت بیان کی جس کے مطابق بچی کی موت کا ذمہ دار وہ خود اور اس کا بھائی اسداللہ تھا، اور اس نے اپنے مخالفین کو قتل کے جرم میں پھنسانے کے لیے اپنی بچی کو بھائی کی مدد سے خود ہلاک کیا تھا۔پولیس نے فوری طور سے دونوں ملزمان کو حراست میں لے کرقتل کا مقدمہ درج کرلیا۔۔

ایس ایچ او ٹھری میرواہ سید اصغر علی شاہ نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ مخالفین کو پھنسانے کے لیے ھزارو جوگی نے دس سالہ معصوم بچی کو اپنے ہی پستول سےپیچھے سے فائرنگ کرکےہلاک کیا جب کہ واقعے کو دشمنی کا رنگ دینے کے لیے اپنے بھائی کی ٹانگ میں بھی گولی ماری، جس کی وجہ سے وہ معمولی زخمی ہوا۔ ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ ھزارو جوگی کا طویل عرصے سے زمین کے تنازع کا مقدمہ مقامی عدالت میں چل رہا تھا۔ عدالت نے حال ہی میں اس کی مخالف پارٹی کے حق میں فیصلہ دیا۔ جس کے بعد وہ اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کے بہانے تلاش کرنےلگا۔ 

اس مقصد کے لیے اس نے اپنی سگی بیٹی کو ہی اپنے انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہزارو جوگی کی جانب سے شبہ کے اظہار کے بعد پولیس نے چار ملزمان کے خلاف سرکار کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ درج کرکےان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارےلیکن انہوں نے عدالت سے ضمانت قبل از وقت گرفتاری حاصل کرلی تھی لیکن جب مزید تحقیقات کی گئی تو وہ بے گناہ ثابت ہوئے جس کے بعد ہم نے اصل ملزمان اسد اللہ اور ہزارو جوگی کو گرفتار کرلیا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت اپنی ہی بیٹی کے خون سے ہاتھ رنگنے والے قاتل کو کیا سزا دیتی ہے، قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانا اس لیےبھی ضروری ہےکہ دیگر علاقائی روایات کی طرح اپنے مخالفین سے انتقام کے لیے اپنے ہی بچوں کو بھینٹ چڑھانے کی روایت پڑ جائے گی۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین