• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک عجیب ماحول بن چکا ہے اخلاقیات اپنا رستہ بھول چکیں، بدتمیزی اور بدتہذیبی نے پورے معاشرے کو جکڑا ہوا ہے اور ہر چیمپئن بس اسی پر اکڑا ہوا ہے زمانہ ہی بدل چکا ہے ببانگ دہل جھوٹ بولا جارہا ہے اور اُس جھوٹ پر آواز اٹھانے والے کو ہی شرمندہ کیا جارہا ہے آگے بڑھنے کی ہوس نے رفتار کو تیز اور کردار کو تہس نہس کردیا ہے پروا ہے تو بس جیتنے کی کسی بھی حال میں کسی بھی انداز میں کسی بھی لباس میں اور اس کی طلب میں ہر وہ حد پار کی جارہی ہے جو پہلے ممنوع تھی اور اُس کے بارے میں سوچنے والا بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر اب جو حد پار نہ کرسکے وہ سکندر ہی نہیں معاشرہ ایک ایسی عجیب بھیڑ بن چکا ہے جو مسلسل دھول اُڑارہا ہے اور اس دھول میں چہرے ایسے اٹ گئے ہیں کہ سب کی اصلیت چُھپ گئی ہے بس دھول نے جو ماسک چڑھادیا وہ ہی اصلیت ہے۔ سیاست میں کبھی کبھی کا طرز عمل اب روز کا معمول بن چکا ہے آئے دن اخلاق سے اس طرح گِرا جارہا ہے کہ گِرنے والا ہی اپنے آپ کو فاتح سمجھتا ہے اور کھڑا رہنے والا بیوقوف۔ اور اس سیاسی معاشرے کی بربادی کا اثر سارے معاشرے پر ہورہا ہے میڈیا ہر وقت بس ان ہی کی شان میں قصیدے یا غم میں مرثیے پڑھتا ہے جس کو پورا معاشرہ محسوس بھی کرتا ہے اور اس کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ اور یہ سب عدم مساوات کی وجہ سے ہورہا ہے طاقتور کے کمزور پر حاوی ہونے کی وجہ سے ہورہا ہے دوسرے کا حق غصب کرنے کی وجہ سے ہورہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس سارے رویے کا سب سے زیادہ اثر نوجوانوں پر ہورہا ہے اور انھیں ہر حلقہ اپنے اپنے مقاصد کے اعتبار سے استعمال کررہا ہے کیونکہ نوجوان پچھلے چند سالوں میں ان گرتی ہوئی اخلاقی اقدار کو اپنے لئے بدقسمتی سے مشعل راہ بناچکے ہیں تو ان کا کسی بھی رُخ پر موڑنا انتہائی آسان ہوگیا ہے جھوٹ بول بول کر ان کی سوچوں سے سچ کا مطلب ہی ختم کردیا گیا ہے اور اب ہر جھوٹ ہی انہیں سچ لگتا ہے اور اُس کے پیچھے ایسے بھاگنے لگتے ہیں جیسے راستہ سیدھا کسی شاندار مستقبل کی طرف جارہا ہے مگر جب بھاگ بھاگ کر تھک جاتے ہیں اور پلٹ کر دیکھتے ہیں تو اُس جگہ سے بھی انتہائی دور آچکے ہوتے ہیں جہاں تھوڑا بہت مستقبل باقی تھا مگر اُس وقت تک پانی سر سے اونچا ہوچکا ہوتا ہے اور واپسی کی کشتیاں جل چُکی ہوتی ہیں اور اُن کو اس راستے پر دوڑانے والے اپنے مستقبل کو اُن کا کندھا استعمال کرکے مزید تابناک بناچکے ہوتے ہیں ایسا نہ جانے کتنے سالوں سے ہورہا ہے اور ہر دفعہ ایک نیا نعرہ نیا نظریہ نئی شعبدے بازی کے ساتھ نمودار ہوتا ہے ہزاروں نوجوانوں کا مستقبل زندگی اور خواہشیں روند دیتا ہے اور اس نعرے کے خالق لندن امریکہ اور دبئی جاکر عیاشی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ سچ کا دفاع کرنا آج کل صرف بیوقوفوں کا کام ہے اور ایسے ہزاروں لاکھوں بےوقوفوں کے پیچھے ایک انتہائی چالاک مفاد پرست اور عیار دماغ ہوتا ہے جو ان بیوقوفوں کو استعمال کرکے صرف اپنے مقاصد پورے کرتا ہے لکھ پتی سے کڑوڑ پتی کڑوڑ پتی سے ارب پتی اور اسی طرح بس دولت کماتا رہتا ہے اور یہ ہزاروں بیوقوف یہ ہی سمجھتے رہتے ہیں کہ ہم نظریے کی جدوجہد میں ایک ادنیٰ سپاہی ہیں ۔ مجھے ایک تحریک دکھادو جس کے لیڈر ارب پتی، نہ ہوئے ہوں اور ایک کارکن دکھا دو جس کے بچے یا گھر والے آج شاندار زندگی گزار رہے ہوں۔ سچ کچھ نہیں ہوتا نظریہ بھی کچھ نہیں ہوتا اُس وقت تک جب تک تمہارے بوڑھے ماں باپ یا بچے تمہاری طرف آس لگائے ہوں کہ تم اُن کے لئے آسودہ حالی لےکر آؤ گے اور اپنے گھر والوں کے لئے خوش و خرم زندگی لانے سے بڑھ کر کوئی نظریہ نہیں اگر سچ کے لئے کھڑا ہونا ہے تو اپنے لیے کھڑے ہو کسی ایسی تحریک کے لئے نہیں جس کی قیادت مفاد پرستوں کے ہاتھ ہو اگر ضمیر کے سامنے سرخرو ہونا ہے تو اس سے بڑا سرخرو ہونا کچھ نہیں کہ تمہارے بوڑھے ماں باپ تمہاری وجہ سے سکون کی زندگی گزار رہے ہوں تم سے منسلک لوگ تمہاری وجہ سے خوش وخرم ہوں یہ کیسا سرخ رو ہونا کہ بوڑھی ماں دوسروں کے گھروں میں کام کرے اور اُس کا جوان بیٹا کسی مفاد پرست لیڈر کے بہکاوے میں آکر صبح دوپہر رات تحریک کا ایک ایسا کارکن بنا ہو جو کہ صرف استعمال ہورہا ہو اور نام نہاد لیڈر اپنی قیمت بڑھارہے ہوں ۔ بہادری یہ نہیں کہ ایک ہی آن میں دس دس لوگوں سے لڑلو یا کسی بھی گلی چوک یا پہاڑ پر کھڑے ہوکر کسی کو گالیاں دے دو انسانیت کے نزدیک بہادری یہ ہے کہ تم سے منسلک ہر شخص جو تمہاری طرف اس امید سے دیکھتاہے کہ تم اُس کے لیے راحت کا باعث بنو گے تم اُن کےشاندار مستقبل کا ذریعہ بنو گے اور تم اپنی خواہشوں اپنی ضرورتوں کو پس پشت رکھ کر اُن کے لیے وہ سب میسر کروگے جس کی اُن کو ضرورت ہے تو یقین کرو اس سے بڑی بہادری اور کوئی نہیں۔ کونسی جنگ کیسی جنگ کونسا نظریہ کیسا نظریہ کبھی کسی لیڈر کو دیکھا ہے تڑپتے یا مرتے اگرتڑپا ہے تو کارکن ہی تڑپاہے لڑا ہے تو کارکن ہی لڑا ہے مرا ہے تو کارکن ہی مرا ہے یقین کرو یہ صرف تمہاری قربانیوں پر پلنے والے لوگ ہیں تمہیں ان کی ضرورت نہیں ہے انہیں تمہاری ضرورت ہے ۔ دیکھا نہیں اس ملک میں بڑی بڑی تحریکیں چلیں کارکن یا تو جیلوں میں گئے یا قبروں میں اور اُن کے گھر والے یا تو بھوکے ہیں یا کسی کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہیں اور چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والے لیڈر آج محلوں کے مالک ہیں اور عیاشی کی زندگی گزاررہے ہیں کوئی ایک لیڈر کسی بھی تحریک کا ایسا دکھادو جوتمہاری جیسی زندگی میں ہو مگر تم تو پیدا ہی استعمال ہونے کے لیے ہو ۓ بیوقوف بننے کےلیے ہو اس لیے بنتے رہو۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ تم نظریے کی جنگ لڑنا چاہتے ہو سچ کی جنگ لڑنا چاہتے ہو تو پہلے اپنے آپ کو ایک کامیاب انسان بناؤ دولت کماؤ اپنے گھر والوں کے مستقبل کو محفوظ کرو پھر سچ کانعرہ لگاؤ تم ایک کے بعد ایک نظریہ بدلتے رہو گے اور مزید برباد ہوتے رہو گے۔ تم تو ایک عام آدمی ہو تمہیں کس کو جواب دینا ہے جاگو اور سچ بولنے یا نظریے پر ڈٹے رہنے کی ضد چھوڑو اور اپنے اور اپنے گھر والوں کے مستقبل کی فکر کرو جب تمہارے پاس دولت ہوگی تو سارے نظریے ہی تمہارے ہوں گے اور تم جو بھی بولو گے لوگ اُسے ہی سچ بولیں گے مانیں گے۔ بصورت دیگر لگاتے رہو نعرے لڑتے رہو اکیلے بنتے رہو بیوقوف اور کسی دن یا تو کسی جیل چلے جاؤ گے سالوں گھر والوں سے دور ہوجاؤ گے یہ ہے کہانی ہر نظریاتی کی وہ خود تو اپنی زندگی برباد کرتا ہی ہے مگر اپنے ساتھ ساتھ اپنے سے جُڑی نہ جانے کتنی اور زندگیاں بھی برباد کردیتا ہے بس ہُش میں خوش رہتا ہے جب نام نہاد لیڈر اُسے بہادری کا سرٹیفکیٹ دیتے ہیں جس پر دراصل لکھا ہوتا ہے شکریہ آپ کی بیوقوفی کی وجہ سے آج میں ایک ارب پتی ہوں اور آپ کی وجہ سے میرے بچوں کا مستقبل شاندار ہوگیا ہے قربانی کا شکریہ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین