• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کاروبار میں شراکت داری انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔شراکت داری کےذریعہ لوگ بڑے بڑے کاروبار میں قدم رکھ رہے ہیں۔حالانکہ مثل مشہور ہے کہ سانجھے کی ہانڈی چوراہے پر پھوٹتی ہے،لیکن موجود ہ ماحول میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ کارپوریٹ کاروبار کی ترقی شراکت داری سے مشروط ہے۔پڑوسی ملک ہندوستان کی بات کریں تو وہاں جن لوگوں کو براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری (FDI)پر اعتراض تھا، ان کا ماننا تھا کہ چونکہ ایف ڈی آئی کے ذریعہ جب وال مارٹ اپنی کثیر سرمایہ کاری کے ساتھ آئے گا تو بھارت کے چھوٹے تاجر اس کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے، لہٰذا ایف ڈی آئی کی منظوری کے بعد بھارت میں اب اس بات کی ضرورت مزید محسوس کی جانے لگی ہے کہ مشترکہ تجارتی ماحول کو فروغ دیا جائے اور کئی حضرات اپنی اپنی چھوٹی سرمایہ کاری کو یکجا کر کے کسی بڑے فرم کی بنیاد ڈالیں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا جواب دیں۔

پڑوسی ملک کے بعد اب ذکر کرتے ہیں اپنے پیارے وطن پاکستان کا۔آپ میں سے بہت سوں کو یاد ہوگا کہ پاکستان میں جس زمانے میں FinTech (فائنانشل ٹیکنالوجی) کی اسٹارٹ اَپ کمپنیاں زور پکڑنے لگی تھیں(اور یہ زیادہ پرانی بات نہیں)، اس وقت دعوے کیے گئے تھے کہ فِن ٹیک کی یہ اسٹارٹ اَپ کمپنیاں، بینکس کا مکمل طور پر صفایا کردیں گی، تاہم جلد ہی یہ بات سامنے آگئی کہ اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ فنٹیگریشن (Fintegration) (جو دی اکانومسٹ کا ایجاد کردہ لفظ ہے) ہے، یعنی بینکس اور فِن ٹیک کمپنیوں کے درمیان شراکت۔

یہ حقیقت ہے کہ فِن ٹیک کمپنیاں، بینکس کے مقابلے میں کم وسائل استعمال کرتی ہیں اور زیادہ پھرتیلی ہیں، جس کی وجہ سے وہ نئی مصنوعات اور سہولیات پر زیادہ تیزی سے کام کرسکتی ہیں۔ اس وقت پاکستانی بینکس جو ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہیں، یعنی کور بینکنگ سسٹم، اس میں نئے دور کے صارفین کی خواہشات کے مطابق بار بار اپ ڈیٹس کرنا عملی نہیں ہے۔ترقی پذیر ممالک میں فِن ٹیک اور بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ 

دنیا بھر میں تقریباً 2 ارب افراد بینکاری نظام کا حصہ نہیں ہیں، جن کی اکثریت چین، بھارت اور پاکستان جیسے ممالک میں ہے۔ بینکس کے آپریشنل اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے لیے دیہات میں شاخیں کھولنا ممکن نہیں ہے لیکن موبائل فون، خصوصی طور پرا سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے ان افراد کو سہولیات فراہم کرنا ممکن ہوگيا ہے۔

مالی شمولیت (Financial Inclusion) کا مطلب محض کسی بینک میں اکاؤنٹ کھولنا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب سازگار ضوابط اور کم قیمتوں کے ماحول میں ہر قسم کی مالی سہولت تک رسائی ہے، جس میں ادائيگیاں، بیمہ، بچتیں اور سرمایہ کاری سب ہی شامل ہیں۔ موجودہ کمپنیاں، بنیادی بینکاری سہولیات مہیا کرتی ہیں، وسیع و عریض آپریشنز کی وجہ سے اخراجات میں کمی سے فائدہ اُٹھاتی ہیں اور ضوابط کی تعمیل بھی کرتی ہیں لیکن مخصوص مارکیٹس کو خصوصی سہولیات فراہم کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔

بینکس کے برعکس فِن ٹیک کمپنیوں کے لیے ایسا کرنا زیادہ آسان ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ اگلے چند برسوں میں پاکستان میں7 کروڑ افراد 3G یا 4G کی سہولیات استعمال کرنے لگ جائیں گے اور اگر انھیں ڈیجیٹل ادائيگیوں کی طرف لانا ہے تو بینکس اور فِن ٹیک کمپنیوں کو ایک ساتھ کام کرنا ہوگا۔ فِن ٹیک کمپنیوں اور بینکس کا آپس میں وہی تعلق ہے جواسمارٹ فونز اور ایپس کا آپس میںہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فِن ٹیک کمپنیوں کی وجہ سے بینکس کو اُسی طرح فائدہ ہوگا جس طرح ایپس کی وجہ سے اسمارٹ فونز کو ہوا ہے۔ 

وسیع پیمانوں کی وجہ سے اخراجات میں کمی سے فائدہ اُٹھانے والے بینکس، فِن ٹیک کمپنیوں کو مارکیٹ کے مخصوص گوشوں میں امتیازی ایپس پیش کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کریں گے۔ ایپس اگر مقبول ہوجائیں تو اسمارٹ فون کمپنیوں کو فائدہ ہوگا لیکن اگر ایپس ناکام ہوجائیں تو اسمارٹ فون کے پلیٹ فارم کو کسی بھی قسم کا نقصان نہیں ہوگا، کیونکہ ہزاروں دوسری ایپس موجود ہیں۔

بینکس اور فِن ٹیک کمپنیوں کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کی صورت حال ہے۔ اگر فِن ٹیک کمپنیاںنئی مصنوعات کی تخلیق میں کامیاب ہوجائیں تو بینکاری نظام کے صارفین کو فائدہ ہوگا لیکن اگرفِن ٹیک کمپنیاں ناکام ہوجائیںتو بینکس کو پھر بھی نقصان نہیں ہوگا، لہٰذا انھیں اپنی آمدنی کے بارے میںفکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

پاکستان میں فنٹیگریشن (Fintegration) کے وسیع مواقع موجود ہیں، تاہم Capacityکی کمی اور ترغیبی مراعات نہ ہونے کے باعث اکثر پاکستانی بینکس اس وقت روایتی مارکیٹس میں روایتی بینکاری کی خدمات پر اکتفاء کیے ہوئے ہیں۔اس سلسلے میں پاکستان کے مرکزی بینک، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو بینکوں کے لیے ایسا روڈ میپ تیار کرنا چاہیے کہ وہ اس پر عمل درآمد کے پابند ہوں۔روڈ میپ کے تحت بینکوں کو شارٹ ٹو میڈیم ٹرم اہداف دیے جائیں۔ سب سے زیادہ کامیاب پارٹنرشپس وہی ہوتی ہیں، جن میں تمام فریقین برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کو فنٹیگریشن کے لیے ایسا فریم ورک بنانا چاہیے، جس میں فِن ٹیک کمپنیوں کو Vendorکے بجائے پارٹنر کی حیثیت حاصل ہو۔

پاکستان میں اس کی ایک مثال FINCA اورFINJAکے درمیان پارٹنرشپ ہے۔ فنکا مائیکروفنانس بینک اور فنجا فِن ٹیک اسٹارٹ اپ کمپنی نے مل کر ایک ایسا موبائل والٹ تیار کیا ہے، جس کے ذریعے کسی بھی اسمارٹ فون اور ملک کے کسی بھی بینک کے اکاؤنٹ سے رقم کی ادائيگی ممکن ہے۔ فنکا مائیکروفنانس بینک اپنے برانچ لیس بینکنگ کے لائسنس کے ذریعے بنیاد فراہم کررہا ہے جبکہ فنجاموبائل والٹ اور اس کے برانڈ کا ذمہ دار ہے۔ فنجا نے 10لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرلی ہے اور فنکا کو کسی بھی قسم کا خرچہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

تازہ ترین