• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنوبی اور شمالی کوریا کے صدور کی ملاقات

اختتامِ ہفتہ شمالی اور جنوبی کوریا کے سربراہوں کِم جو نگ اِن اور مون جے کی دونوں ممالک کی سرحد کے عین وسط میں واقع جنوبی کوریا کے چھوٹے سے قصبے میں تاریخی ملاقات ہوئی۔اس ملاقات کے لیے جو کمرہ تیار کیا گیا اس میںتمام اشیا نیلے، سفید اور اودے رنگ کی تھیں۔ سجاوٹ میںسادگی اور توازن قائم تھا جسے جنوبی کوریا کے ماہرین امن، سلامتی اور استحکام کی علاقات قرار دیتے ہیں۔تاہم نیویارک ٹائمز نے اس حوالے سے اپنی جائزہ رپورٹ میں ملاقات کو ایک آمر اور ایک سفارت کار کی ملاقات قرار دیا۔

ملاقات کا ایجنڈا مختصر اور عیاں تھا کہ جزیرہ نماکوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک خِطّہ قرار دیا جائے اور دو نو ں ممالک کے مابین پُرامن تعلقات قائم ہوں۔دو نوں رہنمائوں نے اس مختصر ایجنڈے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ تاہم یہ ایجنڈا دراصل آئندہ ماہ صدر ٹرمپ سے شمالی کوریا کے رہنماکی ملاقات کے بعد ہی حتمی شکل پائے گایا مسترد کردیا جائے گا، کیوں کہ بیش تر مبصرین آئندہ ماہ شمالی کو ر یا اور امریکا کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی طرف زیادہ دھیان دے رہے ہیں۔ 

انہیں قدم قدم پر طرح طر ح کےخدشات ہیں۔زیادہ تر سفارت کار اور مبصرین صد ر ٹرمپ کی سیمابی طبیعت سے خوف زدہ ہیںاور بہت سے کِم جونگ اِن کی ذہنی کیفیات سے آگاہ ہیں۔ اس لیے انہیں خدشہ ہے کہ بہت اہم اور حساس معاملات پریہ دو نو ں کس طرح متفق ہوں گے۔ صدر ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر ایجنڈاُن کی مرضی کے مطابق نہ ہوا تووہ مذاکرات چھوڑ کر اُٹھ جائیں گے۔

دراصل امریکاچاہتا ہے کہ شمالی کوریا اپنے تمام جو ہر ی ہتھیار ختم کردے،جوہری اور میزائل کے تجربات پر پابندی عاید کرے اور جنوبی کوریا سے بہتر دو طرفہ تعلقات قائم کرے۔امریکی ذرائع کے مطابق صدر کِم جونگ اِ ن چاہیں گے کہ امریکا کم از کم اس نکتے پر راضی ہوجائے کہ شمالی کوریا کی معیشت کی بہتری کی کوششوں کے ساتھ اسےجوہری ہتھیاروں کے کچھ حصے باقی رکھنے کی چُھوٹ مل جائے۔اور یہ ہی اہم سوال ہے کہ کیا صدر ٹرمپ یہ رعایت دینے پر راضی ہوجائیںگے؟

جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان نے اپنی جمعت کے رہنمائوں کو یقین دلایا ہے کہ اگر چہ معاملات پے چیدہ ہیں، مگر امید ہے کہ قیامِ امن کا کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آئے گا۔وہ صدر ٹرمپ کو بھی حالات سے آگاہ رکھ رہے ہیں۔وہ دونوں رہنمائوں کی بند کمرے میں ہونے والی ملا قات سے خاصے پُراُمّیددکھائی دیے۔اس ملاقات اور مذ اکرات کے حوالے سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں بھی دو طرفہ طور پر امن کے قیام، خطے کو جوہری ہتھیا ر و ں سے پاک کرنے اور پائےدار امن قائم کرنے کی کوششوں کو سراہا گیا ہے۔

اس ملاقات کے ضمن میں جنوبی کوریا کی وزیر خارجہ نے کہا کہ ان مذاکرات کا کریڈٹ صدر ٹرمپ کو جاتاہے ۔ وہ صدرکِم جونگ اِن کو مذاکرات کی میز پر لے آئے۔ امید ہے کہ آئندہ بڑی ملاقات میں کچھ اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ مہمانوں کی کتاب میں شمالی کوریا کے صدر نے لکھا: ’’یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے‘‘۔ اس ملاقات کے بعد دعائیہ تقریب بھی ہوئی۔

دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے وقت جاپان ،کوریا پر قابض تھا۔امریکا اور روس نے کوریا کو جاپان سے آزاد کرایا اوراڑتیس عرض البلد پردونوں ممالک کی فوجیں آ منے سامنے آگئیں ۔اسی جغرافیائی خط کو شمالی اور جنوبی حصّے کی سرحد تسلیم کرلیا گیااوریوںکوریا تقسیم ہوگیا۔ شمالی کوریا میںکِم ال سنگ نے چین اور روس کی مدد سے حکومت تشکیل دی اور جنوبی حصّےمیںامریکی حمایت یافتہ ریا ست قائم کی گئی۔ جون 1950ء میں شمالی کوریا کی جنوبی کو ریا کے ساتھ سرحدی جھڑپیں بڑی جنگ میں بدل گئیں۔ جنوبی کوریا نے امریکاسے مدد طلب کی تو امریکی صدر نے اقوام متحدہ کے پرچم تلے فوجی روانہ کردیے۔ 

جنرل میک آرتھر، جن کا جاپان کی جنگ اور اس کے اختتام میں اہم کردار تھا،کوریاکے معاملات دیکھ رہے تھے۔ جاپان پر جوہری بم گرانے کے بعد پوری دنیا سہمی ہوئی تھی۔ ا مر یکا کے اس وقت کے صدور،ہنری ٹرومین اور ان کےبعد آئزن ہاور نے شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی جنگ ختم کرنے اور چین کی سپلائی لائن کاٹنےکے لیے ایٹم بم گر ا نے کا فیصلہ کیا۔ مگر جنرل میک آرتھر نے فوری جوہری بم گرانے سے روک دیا۔ دوسری طرف 1949ء میں سوویت یونین نے بھی ایٹم بم بناکر پہلا دھماکا کردیا تھا۔ صدر ٹرومین سمیت تمام مغربی رہنما سناٹے میں آگئے تھے کہ سوویت یونین نے اتنی جلدی یہ ٹیکنالوجی کیسے حا صل کرلی۔

کوریا کی جنگ کے دوران امریکی صدر ٹرومین اور ان کے صلاح کاروں کو اندیشہ تھا کہ سوویت یونین ایسے میں کہیںجاپان پر قبضہ نہ کرلے۔ اس لیے وہ شمالی کوریا پر جوہری بم گرانے کے ضمن میں تذبذب کا شکار تھے۔ البتہ شمالی کوریا کو چین کے ساتھ سوویت یونین سے مدد ملتی رہی۔ سوویت یونین کا ایٹم بم بناکر تجربہ کرلینااور اس کی عالمی معاملات میں مداخلت،پھر چین میں سو شلسٹ انقلاب کی آمدنے نئی سرد جنگ کا آغاز کردیا۔ کو ریا کے مسئلے پر یورپ میں یوگوسلاویہ میں صدر مارشل ٹیٹو اور مارشل اسٹالن کے اختلافات پر بھی امریکا گہری نظر رکھے ہوئے تھا۔ 

امریکی جاپان پر دو جوہری بم گرانے کے بعد عالمی سردار بن بیٹھے تھے۔ سوویت یونین ان کے لیے بڑا خطرہ تھا اور امریکا کے عسکری صلاح کار تیسری عالمی جنگ ہونےکا بار بار خدشہ ظاہر کر رہے تھے جس پر امریکا کو تشویش تھی۔ ایسے میں امریکا جنوبی کوریا میں اپنی بھرپور روایتی طاقت استعمال کرتا رہا۔ 1953ء میں دونوں ملکوں کے درمیان جاری جنگ ختم ہوئی تو امریکا نے جنوبی کوریا کو اپنا مستقل بحری اڈہ بنالیا جہاں سے وہ جاپان کو مدد دے سکتا تھا۔اس کے علاوہ بحرالکاہل میں واقع چھو ٹے جزیرہ گوام میں امریکا نے اپنا مستحکم بحری اڈہ اورلاسلکی نظام قائم کرلیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ا پنی بحری طاقت میں تیزی سے اضافہ کرنا شروع کردیا تھاجس کی وجہ سرد جنگ تھی۔

امریکی فوجیوں نے شمالی کوریا کی جنگ میں بم باری کرکے اور سرحدی علاقوں میں ٹینکوں کے ذریعے عام شہریوں اوردیہی علاقوں میں کسانوں کو شدید جانی ومالی نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ دو بار امریکی صدور شمالی کو ر یا پر جوہری بم گرانے کی بھی تیاری کرچکے تھے ،مگر انہیں سو و یت یونین کا خوف لاحق رہا کہ وہ بھی جوہری طاقت ہے۔ایسے میں ماسکو بھی بدلہ لے سکتا اور امریکا کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ان حالات میں امریکیوں کو اگرچہ بہ راہ راست نہیں مگر سیاسی،اقتصادی اور عالمی ساکھ کو نقصان پہنچنےکا اندیشہ لاحق رہا۔ 

اس حوالے سے امریکا نے مشرقی یورپ کے ممالک کےلیے(جن میں سے بیش تراشتراکی فکر کے حامل اور سوویت یونین کے ساتھ تھے) مغربی جر منی کو صنعتی ترقی کا پیمانہ بناکر ترقی یافتہ سرمایہ داری کی شوونڈو بنائی۔ دوسری طرف مشرقی بعید کے ممالک کو چین سے متاثر ہونے سے روکنے کے لیے جاپان کو جدید صنعتی ترقی کی علامت بناکر دوسری شوونڈو بنائی گئی۔

اس ضمن میں امریکا کی سرمایہ دارانہ پالیسی نے بیش تر ممالک کو متا ثر کیا۔ جنوبی کوریا کو شمالی کوریا پر اقتصادی فوقیت دینے کےلیے امریکانے وہاں سرمایہ کاری کی اوراُسے جدید ٹیکنالوجی فراہم کی۔اس طرح جنوبی کوریاچند ہی برسوں میں ایک خوش حال اور ترقی یافتہ ملک بن کراُبھرا جس کے سر پر امریکا کی دفاعی چھتری تھی۔

دوسری جانب شمالی کوریاکی کمیونسٹ اور ورکرز پارٹی کِم ال سنگ کی رہنمائی میں آگے بڑھ رہی تھی۔ زرعی اور کسی حد تک صنعتی طور پر شمالی کوریا ترقی کی منزلیں طے کررہا تھا۔ تین سالہ کوریا کی جنگ کے نقصانات بہت بڑ ےتھے۔ امریکی افواج نے اس خطے کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا تھا۔ مگر کِم ال سنگ،جو موجودہ صدرکِم جونگ اِن کےپڑدادا تھے، ایک بڑےاشتراکی اور ا نسا ن دوست رہنما تھے۔اُن کا شمار دنیا کے چند بڑے ر ہنما ئو ں میں ہوتا تھا۔ نسل وہ ہی ہے، مگر موجودہ صدرکِم جونگ قدرے جذباتی مشہور ہیں۔ ان میں امریکاکے خلاف وہ ہی غم و غصہ ہے جو ان کے بزرگوں میں تھا۔ 

اس لیے شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیاروں کو امریکی سرمایہ داروں کے خلاف سلامتی کی کنجی تصور کرتا ہے۔یہاں یہ واضح رہے کہ ٹرومین اور آئزن ہاور سوویت یونین کے جوہری بم کی وجہ سے تذبذب کا شکار رہے، مگر اب صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے جوہری بم اور بیلسٹک میزائلوں سے خوف زدہ ہیں۔ان حالات میں مذاکرات کی کام یابی میں امریکا کا فائدہ ہے۔تاہم ہر دو صورتوں میں شمالی کوریا کو کوئی نقصان نہیں ہے۔

تازہ ترین