کچھ عرصہ قبل میں اور میرا ایک دوست برمنگھم کی ایک معروف سڑک پر گھوم رہے تھے اس سڑک پر پاکستانی و کشمیری نژاد لوگوں کے کاروبار کی اکثریت تھی اچانک ہماری نظر ایک ٹریول ایجنسی ٹائپ کی دوکان پر پڑی جس کی کھڑکی پر دیگر اشتہارات کے سمیت یہ اشتہار بھی آویزاں تھا کہ یہاں پاکستانی ویزا سروس کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ چند گز کے فاصلے پر ہی جیری کا دفتر بھی موجود تھا جس کے پاس پاکستان کا ویزا سروس کا باقاعدہ لائسنس موجود ہے لیکن اس کچھ فاصلے پر ایسی ہی سروس ایک عام سی ٹریول شاپ بھی آفر کر ر ہی تھی یہی نہیں کچھ آگے جا کر ایسا ہی ایک اور اشتہار ہمیں ایک اور دکان پر بھی نظر آیا۔ ہماری رگِ صحافت پھڑکی اور ہم ان دونوں ’’ویزا آئوٹ لیٹس‘‘ کی تصاویر اتارنے کے بعد سیدھی جیری کے دفتر میں جا پہنچے اور وہاں کائونٹر پر موجود دو خواتین سے اس حوالے سے سوالات کرنے لگے۔ انہوں نے بتایا کہ ایسا ہو رہا ہے اور یہ لوگ براہِ راست ایمبیسی یا قونصل خانے کے پاس ویزادرخواستیں لے کر نہیں جاتے بلکہ جیری کے آفس میں لاتے ہیں جہاں سے ہم ان درخواستوں کو پراسس کرتے ہیں۔ ان خواتین نے بتایا کہ دوسرے شہروں میں بھی اس طرح کی آئوٹ لیٹس موجود ہیں اور جیری ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتی بلکہ یہ ایک سہولت ہے کہ جہاں جیری کے دفاتر نہیں ہیں وہاں لوگ ایسی جگہوں پر اپنی ویزا درخواستیں دیتے ہیں اور انہیں برمنگھم یا دیگر بڑے شہروں میں نہیں آنا پڑتاتاہم ان دونوں خواتین نے بتایا کہ ہم ایسے آئوٹ لیٹس سے بچوں کی درخواستیں وصول نہیں کرتے۔ شاید انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ ہمارا اگلا سوال کیا ہوگا کیونکہ اسی صورت میںمخفی معاملات میں بچوں کی مرضی کے بغیر ویزے لگوا کر انہیں زبردستی برطانیہ سے باہر لے جایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں برمنگھم کے جنگ کے نمائندے ابرار مغل کی ایک ایسی ہی خبر نے برطانیہ کی پاکستانی کمیونٹی میں ایک ملے جلے ردعمل اور ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا۔ اس خبر کے مطابق برمنگھم اور گردو نواح میں نادرا ایڈوائس بیورو کے نام سے لوگوں نے نادرا کارڈ بنانے کے غیر قانونی آئوٹ لیٹس کھول رکھے ہیں۔ انہوں نے جو بورڈ آویزاں کئے ہیں ان پر حکومت پاکستان کا منظور شدہ نادرا کا مونو گرام لگا ہوا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ آئوٹ لیٹس شاید پاکستان ہائی کمیشن سے منظور شدہ ہیں۔ تاہم اس خبر کے بعد ہائی کمیشن کی جانب سے اس حوالے سے وضاحت کر دی گئی ہے کہ برطانیہ کے مختلف شہروں میں قائم اس قسم کے آئوٹ لیٹس غیر مجازادارے ہیں جو کہ آن لائن نادرا کارڈ درخواست جمع کروانے کی مدد کے نام پر رقم وصول کر رہے ہیں۔ایسے اداروں کی منظوری نہ ہی ہائی کمیشن اور نہ ہی کسی قونصلیٹ کی طرف سے دی گئی ہے۔ہائی کمیشن نے یہ بھی واضح اعلان کیا ہے ان اداروں کی جانب سے جمع کروائی جانے والی درخواستوں میں پہلے بعض جھوٹی کہانیوں کی وجہ سے شناختی کارڈ پراسس کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور ہائی کمیشن یا قونصلیٹ رقم کے ضیاع اور معلومات کی چوری پر ذمہ دار نہیں ہوگا۔چند ماہ قبل لوگوں کی سہولت کے لئے آن لائن نادرا کارڈ سروس کا اجرا کیا گیا تاکہ برطانیہ یا دیگر ممالک میں بسنے والے تارکین وطن اپنی سہولت کے مطابق اس سے استفادہ کر سکیں۔ اس سے قبل برطانیہ میں نادرا کارڈ کے حوالے سے ہائی کمیشن اور قونصل خانے ’’بیگ لاگ‘‘ کا شکار ہو چکے تھے اور کئی شہروں میں شناختی کارڈ بنانے کے لئے لگائی جانے والی سرجریاں بھی ناکافی ہوگئی تھی۔ قونصلیٹس میں موجود نادرا کے عملے پر بھی اضافی بوجھ پڑ گیا تھا اور وہ چھٹی کے دنوں میں بھی کئی شہروں میں جاکر نادرا کارڈ بناتے تھے۔ آن لائن سروس اگرچہ ایک نادر سہولت ہے مگر ہر کوئی ابھی اس کو استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے لئے استعمال کرنے والے کے پاس کمپیوٹر کے علاوہ ایک سکینر اورپر نٹربھی ہونا چاہئے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں نے مدد اور سہولت کے نام پر کاروبار کا آغاز کر دیا اور کچھ رقم لے کر آن لائن نادرا کارڈ کی درخواستیں جمع کروانے لگے۔ بہت سے شہروں میں یہ سہولت 15سے 20اور کچھ 30پونڈ فی کارڈ درخواست وصول کر رہے ہیں۔ یہ اس فیس کے علاوہ ہے جو کہ سرکاری طور پر طے شدہ ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جو لوگ واقعی آں لائن سہولت کو خود استعمال نہیں کر سکتے ان کے لئے ایسی آئوٹ لیٹس نے یہ آسانی پیدا کر دی تھی لیکن کچھ لوگ اسے غیر قانونی سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ محض مدد نہیں کاروبار ہے۔پاکستانی کمیونٹی کے بعض حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ بھی سامنے آرہا ہے کہ پاکستان ہائی کمیشن کو چاہئے کہ وہ اس قسم کے آئوٹ لیٹس کو قانونی دائرہ کار میں لے آئے کیونکہ اس سے کمیونٹی کو ایک سہولت میسر آجائے گی۔ وہ ایسے مجاز ادارے قائم کرے یاپھر پاکستانی ٹریول ایجنسیوں کو اپنا مجاز ایجنٹ مقرر کرے جو کہ ایک مناسب فیس لے کر لوگوں کو آن لائن درخواستیں جمع کرنے میں مدد دے سکیں۔ اس سے کمیونٹی ایسے غیر قانونی ایجنٹوں سے بھی بچ جائے گی جو کہ واقعی ان کی معلومات کے لئے ایک رسک ہیں۔