• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’’کاظم حسنین‘‘ منیجنگ ڈائریکٹر سنجینٹا پاکستان

کاظم حسنین‘‘ منیجنگ ڈائریکٹر سنجینٹا پاکستان

پینل انٹرویو: نجم الحسن عطاء، لیاقت علی جتوئی

جنگ: سب سے پہلے ہم چاہیں گے کہ آپ اپنی کمپنی کے بارے میں بتائیں کہ یہ کیا کرتی ہے اور اس کا بزنس ماڈل کیا ہے؟

کاظم حسنین: سنجینٹا (Syngenta)کا پاکستان کے ساتھ ایک پرانا تعلق ہے۔ اس کمپنی نے ’سیبا گائے گی‘ کے نام سے کاروبار شروع کیا۔پھر اس کا نام تبدیل ہوکر Novartis Pakistan Ltd ہوا ، سن 2000میں اس کمپنی کا نام سنجینٹا ہوگیا۔سنجینٹا، پاکستان کی ان چند کمپنیوں میں شامل ہے جو مؤثر (Effective) اور منفرد (Innovative) سولیوشنز کی بات کرتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کاشت کاروں کو مفصل ایڈوائزری سروس فراہم کرتے ہیں۔ایڈوائزری سروس میں ’آن دا فیلڈ‘ عملی تربیت اور ’فارمرز میٹنگز‘ شامل ہیں۔ پاکستان بھر میں کاشت کاروں کے ساتھ اس طرح کی سیکڑوںمیٹنگز کرتے ہیں۔ہم ملک بھر کے 27ہزار گاؤں میں 60لاکھ کاشت کاروں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ تو ہوگئی ایک بات۔ ہمارے بزنس ماڈل کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارا کوئی ڈسٹری بیوٹر نہیں ہے۔ ہم اپنے پراڈکٹس اپنے فرنچائز چینل کو فراہم کرتے ہیں، جس کا نام ’نیا سویرا‘ ہے اور وہ براہ راست کاشت کاروں کوہماری پراڈکٹس فراہم کرتا ہے۔ پاکستان میں ایسا بزنس ماڈل متعارف کرانے کی بنیاد ہم نے رکھی تھی۔ ہم نے اپنا فرنچائز چینل صرف اس لئے رکھا ہوا ہے تاکہ ہم کاشت کاروں کو جینوئن پراڈکٹس کی فراہمی یقینی بناسکیں اور انھیں مفید مشورے دے سکیں۔

جنگ: خیال کیا جاتا ہے کہ اگر کراپ پروٹیکشن پراڈکٹس نہ ہوں تو دنیا بھر میں پیدا ہونے والی 40%خوراک کیڑوںمکوڑوں اور بیماریوں کے نذر ہوجائے گی۔ آپ پاکستان میں جو کراپ پروٹیکشن پراڈکٹس مارکیٹ کرتے ہیں، ان کی تفصیلات سے آگاہ کریں؟ آپ کون کون سی فصلیں Coverکرتے ہیں؟

کاظم حسنین:ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان کی جغرافیائی حدود 79ملین ہیکٹرزپر مشتمل ہیں۔ اس میں سے تقریباً 22ملین ہیکٹرز زیر کاشت ہے۔ مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 20%کے آس پاس ہے، جب کہ 40%سے زیادہ ملکی ورک فورس اس شعبے کے ساتھ منسلک ہے۔ یہاں میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قدرت نے پودوں کو بھی قوت دی ہے اور وہ خود سے بھی ایسے کیمیکل پیدا کرتے ہیں، جو بیماریوں اور کیڑے مکوڑوں کے خلاف مدافعتی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ کہنے کے بعد میں آپ کو بتانا چاہتاہوں کہ اس کے باوجود 35%سے 40%فصل ضایع ہونے کا خدشہ رہتا ہے، اگر فصلوں پر بیماریوں اور کیڑے مکوڑوں سے بچاؤ کے اسپرے وغیرہ نہ کیے جائیں۔ہمارےخطے میں فصلوں کو تحفظ دینے کے لیے حشرت کش دوا(Pesticide)، نباتات کش دوا (Herbicide)اورنقصان دہ فطرت کو تباہ کرنے والی دوا (Fungicide) کا استعمال ہوتا ہے۔ اگر یہ ادویات نہ ہوں اور فصلوں کو مطلوبہ تحفظ نہ مل سکے تو کمی کے باعث غذا غریب عوام کی پہنچ سے بالاتر ہوجائے گی۔اس کے لیے ضروری ہے کہ کراپ پروٹیکشن کے پراڈکٹس کا مؤثر استعمال کیا جائے۔اس کے لیےہم دنیا بھر میں ریسرچ سینٹرز کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ہم تمام بڑی فصلوں کپاس، گندم، چاول، کماد، پھلوںاور سبزیوں وغیرہ کو پروٹیکشن دینے کے پراڈکٹس بناتے ہیں۔ سنجینٹا فارم کمیونٹی میں قابل بھروسہ نام ہے۔

جنگ: اپنے بیجوں کے کاروبار(Seed Business)کے بارے میں بتائیں کہ آپ پاکستان میں کس طرح کے بیج لارہے ہیں۔ ان کی R&Dکہاں ہوتی ہے اور ان بیجوں کی نوعیت کیا ہے، مثلاً یہ روایتی بیج ہوتے ہیں یا GMسیڈز؟

کاظم حسنین: ہم ہائبرڈ سیڈز (Hybrid Seeds)میں کام کررہے ہیں اور اگر آج کی بات کریں تو ہم Genetically Modified بیجوں میں کام نہیں کررہے۔حکومت پاکستان نے ابھی تک تجارتی بنیاد پر GMسیڈز کی منظوری نہیں دی ۔ حکومتی سطح پر ابھی اس سلسلے میں کام ہورہا ہے، جب حکومت تجارتی بنیادوں پر GMسیڈز کی منظوری دے گی، اس کے بعد ہی ہم اس بارے میں سوچیں گے۔ اگر جنوبی ایشیا کی بات کریں تو اس خطے میں مختلف سینٹرز ہیں، جن کے ساتھ مل کر ہم ہائبرڈ سیڈ زپر کام کرتے ہیں۔

جنگ: انسانی آبادی میں روزانہ 2لاکھ نفوس کا اضافہ ہورہا ہے۔ دو لاکھ روزانہ کا مطلب یہ ہوا کہ 2050تک دنیا کی آبادی میں دو ارب کا اضافہ ہوجائے گا۔ اتنے بڑی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ آپ کیا کہیں گے؟

کاظم حسنین: میرا خیال ہے آپ کا یہ سوال بہت اہم ہے۔ ہر سال اناج کی کھپت میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے۔ اندازہ ہے کہ 2030تک خوراک کی ضروریات 30%تک بڑھ جائیں گی۔ 2050تک اناج کی کھپت میں  70% اضافہ ہوجائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں اپنی فصلوں کی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھانا ہے، جو کہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بطور اسٹیک ہولڈر، ہمارا جتنا کردار بنتا ہے، ہم اپنا کردار بخوبی ادا کررہے ہیں۔ہم اس بات کو یقینی بنارہے ہیں کہ ہم کاشت کاروں کو ایسےکراپ پروٹیکشن پراڈکٹس فراہم کرتے رہیں جو بیماریوں اور دیگر مسائل کے خلاف اثر رکھتے ہوں۔

جنگ: آپ جو پراڈکٹس بناتے ہیںوہ کیمیکل Basedہوتےہیں۔ انھیں استعمال کرنے کے لیے کاشت کاروں کے لیے حفاظتی انتظامات کس قدر ضروری ہوتے ہیں؟ اس سلسلے میں آپ کاشت کاروں کو کیاگائیڈ لائن دیتے ہیں؟

کاظم حسنین: ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کاشت کار ہمارے جو کوئی بھی پراڈکٹس استعمال کرے، ان کےSafe استعمال کو یقینی بنائے۔ ہم نے ایک اسٹیورڈشپ (Stewardship) پروگرام شروع کررکھا ہے، جس کے تحت ہمارے ہر بیگ پر ایک رابطہ نمبر درج ہوتا ہے۔ کسی بھی کاشت کار کو ہماری ادویات کے استعمال میں پریشانی ہو تو وہ ان نمبرز پر رابطہ قائم کرسکتا ہے، جہاں ہمارے لوگ ان کی رہنمائی کے لیےموجود ہوتے ہیں۔ کاشت کار کا تحفظ سب سے اہم ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے Protective Equipmentبھی مفت میں تقسیم کیےہیں۔

جنگ: ماہرین کہتے ہیں کہ ہم زمینی وسائل کو اتنی تیزی سے استعمال میں لارہے ہیں جسے زمین برداشت نہیں کرسکتی۔ زمین اور خوراک کی پیداوار کو پائیدار (Sustainable)کیسے بنایا جائے؟

کاظم حسنین: اس میں ہمار اکردار یہ ہے کہ ہم کاشت کاروں کو بہتر سے بہتر اور مؤثرمشورے دے سکیں۔ اس سلسلے میں ایک بات یہ بھی درست ہے کہ زمین کو زراعت کے لیے حد سے زیادہ استعمال کرنا بھی نقصان دہ ہے، زمین کو بھی ایک فصل سے نکل کر دوسرے فصل کے لیے تیار ہونے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔پاکستان کی بات کریں تو بڑے کاشت کار تو پروگرویسیو ہیں اور ان کی پیداوار بھی اچھی ہے، اصل مسئلہ تو درمیانے اور چھوٹے درجے کے کاشت کار کا ہے، جن کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے۔ ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ درمیانے اور چھوٹے درجےکے کاشت کار کو اس کی پیداوار کی Yieldبڑھانے میں معاونت فراہم کریں، جب وہ اپنی پیداوار سے کچھ کمائے گا تبھی کاشت کاری کے ساتھ جڑا رہے گا۔

جنگ: ایک عام شخص سے بات کی جائے تو وہ کہتا ہے کہ زمین کو بچانا ہے تو Pesticides، فرٹیلائزرزاور GMبیجوں کا استعمال کم سے کم کرنا ہوگا۔ آپ اس رائے کو کس طرح رد کریں گے؟

کاظم حسنین: میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی بات یہ ہے کہ ہم سب کو زندہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت ہے۔ زمین کی اور بیجوں کی پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانا ہوگا، تبھی غذا کی بڑھتی ضروریات پوری ہو سکیں گی۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ کاشت کاروں کو تعلیم دی جائے کہ وہ ان چیزوں کا ضرورت سے زیادہ استعمال نہ کریں۔ ہر چیز کا Saferاستعمال ہونا چاہیے۔ ہمیں ہیلتھ، سیفٹی اور انوائرنمنٹ(HSE)کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا اور یہ چیزیں کاشت کار میں شعور بڑھنے کے ساتھ آئیں گی۔

جنگ: زراعت ، کاشت کاری اور خود کاشت کار کا تحفظ آپ کے اپنے مفاد میں ہے۔ اس سلسلے میں سنجینٹا گلوبل نے Good Growth Plan 2020کے نام سے اہداف مقرر کیے ہیں۔ یہ اہداف ایسے ہیں، جن کا بلاشبہ پاکستان میں بھی اطلاق ہونا چاہیے۔ سب سے پہلا ہدف یہ ہے کہ موجودہ وسائل کو استعمال کرتے ہوئے 2020تک فصلوں کی پیداوار میں کم از کم 20%اضافہ کیا جائے۔ موجودہ وسائل سے مراد یہ ہے کہ کوئی اضافی زمین استعمال نہ ہو، اضافی پانی استعمال نہ ہو، کوئی دیگر اضافی Inputاستعمال نہ ہو۔ یہ کیسے ممکن ہوپائے گا؟

کاظم حسنین: ہر فصل کا اپنا ایک پروگرام ہوتا ہے، اس کی Recommendationہوتی ہے۔ پانی مجھے ایک خاص مقدار تک ڈالنا ہے، اس سے زیادہ ڈالوں گا تو وہ ضایع ہوگا، اس کا کوئی اضافی فائدہ نہیں ہوگا۔ پاکستان میں ہمارے 10ریفرنس فارمز ہیں، جہاں ہماری ماڈل فارمنگ گائیڈ لائنز کے تحت کاشت کاری ہوتی ہے۔ ہماری گائیڈ لائنز پر عمل کرکے ان کاشت کاروںکو فائدہ ہوا ہے۔ کاشت کاری میں تجربہ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔

جنگ: اس پلان کا دوسرا ہدف بھی انتہائی اہم ہے کہ کاشت کاری کے لیے اس وقت جو زمین دستیاب ہے، اسے کیسے محفوظ رکھا جائے۔ اندازہ ہے کہ عالمی سطح پر ہم ہر سیکنڈ میں ایک فٹ بال گراؤنڈجتنی زرعی زمین سیم و تھور، پانی کی عدم دستیابی اور پھیلتے شہروں کے باعث کھو رہے ہیں۔ پاکستان میں شاید اس کی رفتار دیگر ملکوں سے زیادہ ہوگی۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟

کاظم حسنین: فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ انتہائی حساس ہے، ہمیں فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔ پاکستان ایک عظیم ملک ہے اور حکومت نے فوڈ سیکیورٹی کی ایک وزارت بھی قائم کی ہوئی ہے، وہ بھی اس پر کام کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں ہم سب ایک پیج پر ہیں۔

جنگ: جب ہم Biodiversity کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیںتو گرین ہاؤس گیسز کا اخراج اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دنیا میں جتنی گرین ہاؤس گیسز خارج ہوتی ہیں،اس میں زراعت کا حصہ 14%ہے۔ زراعت میں گرین ہاؤس گیسز کی پیداوار اور اخراج کو کیسے کم کیا جائے؟

کاظم حسنین: زراعت سے کاربن کاعالمی اخراج 14%ہے۔ سنجینٹا گلوبل ایک کلائمیٹ چینج گروپ کے ساتھ مل کر اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ سنجینٹا کے پراڈکٹس سے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کتنا ہوتا ہے اور اس میں ہم کس طرح کمی لاسکتے ہیں۔ اس کا ایک Componentتو یہ ہے کہ Input Optimizationکی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم استعمال سے زیادہ پیداوار حاصل کی جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بیج کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔ بیج کو بونے سے پہلے اگر اچھی طرح Treatکرلیا جائے تو بعد میں اس پر شاید اتنے زیادہ اسپرے اور دیگر چیزوں کی ضرورت نہ پڑے۔ ہمارے یہاں ابھی Seed Careکا اتنا زیادہ تصور اجاگر نہیں ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سارے مسائل کی جڑ شعور کا نہ ہونا ہے۔ چیزوں کا زیادہ استعمال بھی نقصان دہ ہے تو کم استعمال سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکیں گے۔یہ کچھ ایسے ایریاز ہیں، جن پر کام کرکے ہم کاربن اخراج کو کم کرسکتے ہیں۔

جنگ: بڑے کاشت کاروں کے پاس تو وسائل کی کمی نہیں لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں نا تو کراپ انشورنس ہوتی ہے اور ناہی چھوٹے کاشت کاروں کو قرضے ملتے ہیں اور ناہی حکومت انھیں کوئی سبسڈی دیتی ہے۔ آپ چھوٹے کاشت کاروںکی کیسے مدد کررہے ہیں کہ وہ اپنی پیداوار میں اضافہ کرسکیں؟

کاظم حسنین: ہمارا فوکس ہی درمیانے اور چھوٹے درجے کا کاشت کار ہے۔ ہم چھوٹے کاشت کار کا درد رکھتے ہیں اور اس کے مسائل سے آگاہ ہیں۔ چھوٹے کاشت کاروں کے لیے ہم کچھ مزیدپروجیکٹس پر کام کررہے ہیں، جو ابھی پائپ لائن میں ہیں۔صرف گزشتہ سال کی بات کریں، تو ہم اپنی فارمر میٹنگز کے ذریعے ساڑھے تین لاکھ چھوٹے کاشت کاروں تک پہنچے، جنھوں نے ہمارے مفید مشوروں سے فائدہ اُٹھایا ہے۔بوائی سے پہلے ہم ان کی رہنمائی کرتے ہیں کہ کون سے Input Productsکا استعمال بہتر رہے گا، بوائی کس طرح کرنی چاہیے، پودا اُگنے کے بعد اس کی حفاظت کیسے کرنی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ہم ہر مرحلے پر چھوٹے کاشت کاروں کی رہنمائی کے لیے موجود ہوتے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین