• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاحتی انڈسٹری۔۔۔۔

پاکستان کے حوالے سے اس بات پر دنیا میں کسی کو شک کا شائبہ تک نہیں کہ یہاں قدرت نے ایسی خوبصورت وادیاں صحرا کھیت اور سمندر کے ساتھ موسموں کے دھنک رنگ دئیے ہیں اس سے افزوں یہ کہ ٹیکسلا میں بدھا کے آثار کو اچھی طرح محفوظ کرکے اگر چین اور جاپان تک اس کی پبلسٹی کی جائے تو لاکھوں زائرین دیکھنے کو آئیں گے جیسے ہندوستان سے سکھ یاتری آتے ہیں تاہم وہ تعداد میں کم ہوتے ہیں۔ گندھارا موہنجو ڈاڑو اور ہڑپہ جیسے عظیم و شان ورثے میں ملے ہوئے آثار دیکھنے اور تحقیق کے لئے دنیا بھر سے محقق اور سفیران ِ سیاحت جوق در جوق آئیں گے اور پاکستان اس کے زریعے قیمتی زرمبادلہ کمانے کے علاوہ نیک نامی بھی کمائے گا۔ لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ کتنے قیمتی ورثے کو ہونے کے باوجود کسی حکومت نے اس سلسلے میں کوئی کام نہیں کیا۔ اور اب یہ کام اور مشکل اس لئے بھی ہوگیا کہ دہشت گردی کی وجہ سے سیاحت ماند پڑ گئی ہے۔ البتہ پاکستان کے لوگ ایبٹ آباد مرّی گلیات ہنزہ اور کاغان میں کثیر تعداد میں سیاحت کے لئے جاتے ہیں اور پہلے سے بہتر ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کا انتظام کیا گیا ہے۔

پاکستان ایک جغرافیائی، تاریخی، سماجی اور ثقافتی طلسم کدہ ہے یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو تقریباً ہر نعمت سے نوازا ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک ہیں جو سمندر سے محروم ہیں، کئی صحرا ہی صحرا پر مشتمل ہیں، کئی ہیں جو سال بھر برف سے ڈھکے ہوتے ہیں، لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو کراچی سے کشمیر اور گوادر سے خنجراب تک مختلف جغرافیائی اور موسمی خطوں پر مشتمل ہے۔ شمال میں دنیا کے تین عظیم ترین سلسلہ ہائے کوہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش ایک دوسرے سے ملتے ہیں جن میں دنیا کی بلند ترین 14 چوٹیوں میں سے پانچ بشمول \”کے ٹو\” جو دنیا کی دوسری سب سے اونچی چوٹی ہے، پاکستان میں موجود ہیں۔ پہاڑوں سے قدموں میں قطبین کے بعد دنیا میں سب سے بڑا برفانی خزانہ 5000 سے زائد گلیشئرز کی صورت پاکستان میں محفوظ ہے۔ پھر پاکستان کےبلند و بالا سرسبز جنگلات، چراگاہیں اور جھیلیں ہیں جن میں سطح سمندر سے 4000 میٹر بلند الپائن جنگلات، سطح مرتفع دیوسائی اور تین ہزار میٹر بلند فیری میڈوز مشہور ہیں۔ جنگلات اور چراگاہوں سے نیچے نظر ڈالیں تو دریائے سندھ کے میدانی علاقے جو اپنی زرخیزی کے باعث بریڈ باسکٹ آف پاکستان کہلاتے ہیں۔ پھر شمالی لینڈ اسکیپ سے بالکل مختلف سندھ اور بلوچستان کے خطے ہیں۔ جن کا اپنا انفرادی جغرافیہ ہے۔ ایک طرف سندھ کے گرم میدانی علاقے جو کھجور اور آم کی فصلوں کے لیے مشہور ہیں رفتہ رفتہ تھر پارکر کے عظیم صحرا میں تبدیل ہوجاتے ہیں جو بالآخر سندھ کے ساحلوں سے جا ملتے ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان کا پتھریلا مگر خوبصورت لینڈاسکیپ ہے جسے ماونٹین اسکیپ یا راک اسکیپ کہنا زیادہ مناسب ہے، جس کے ساتھ بلوچستان کے ان چھوئے، خوبصورت اور شفاف پانیوں والے ساحل بچھے ہیں، پر پاکستان ان ساحلوں پر ختم نہیں ہوجاتا، سمندروں میں پاکستانی حدود میں متعدد جزائر ہیں جو سرزمین پاکستان کا حصہ ہیں۔ ان میں استولا، چرنا اور منوڑا مشہور ہیں لیکن کئی ایسے بھی ہیں جو وقتاً فوقتاً سمندر میں نمودار ہوتے اور دوبارہ سمندر برد ہوتے رہتے ہیں۔ ان خطوں کے اپنے موسم ہیں۔کہیں ساحلی ہوائیں، کہیں گرد باد، کہیں بارش، کہیں برفباری۔

خطہ ءِ ارض ِ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ ہزاروں سالوں پر محیط ہے اور ان ہزاروں سالوں کے دوران جو تہذیبیں اور قومیں یہاں رہی یا یہاں سے گزری ہیں ان کے آثار سرزمین پاکستان میں بکھرے پڑے ہیں۔ شمال میں دو سے چار ہزار سال قدیم گندھارا تہذیب کے آثار، وسط میں 5000 سال پرانی وادی مہران یا انڈس ویلی کی تہذیب کے اہم مراکز ہڑپہ اور موئن جوداڑو، بلوچستان میں 9000سال قدیم ترین[7000 قبل مسیح] تہذیب مہر گڑھ، تقریباً ہزار سال قدیم لسبیلہ میں شہر روغان نامی غاروں کا شہر جو پہاڑیوں پر بسا ہے اور جسے بدھ مت کی عبادت گاہ سے منسوب کیا جاتا ہے۔

اس خطہ زمیں سے دارائے اعظم اور سکندر اعظم گزرے، موریہ سلطنت کے عظیم بادشاہوں چندر گپت، اسکے پوتے اشوک اعظم، مغل بادشاہوں بابر اور اکبراعظم، ملکہ برطانیہ نے حکومت کی، ان عظیم شخصیات سے منسوب آثار پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ثقافتی نقطہ نظر سے دیکھیں تو پاکستان چار بڑی اور متعدد چھوٹی چھوٹی ثقافتوں کا مجموعہ ہے جن میں سے ہر ایک اپنے آپ میں ایک مکمل تہذیب ہے۔ جن کی اپنی اپنی منفرد ثقافت ہے۔

غرض پاکستان میں وہ سب کچھ ہے جس کے لیے کسی سیاح کو شاید کئی ملکوں جانا پڑے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاحت کو وہ مقام نہیں ملا جو اس کا حق ہے۔ ایکسپریس ٹربیون کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2010 میں بین الاقوامی سیاحت کا حجم تقریباً ساڑھے نو لاکھ سیاح تھا۔ جو کم ہو کر 2013 میں ساڑھے پانچ لاکھ رہ گیا تھا اور 2014 میں مزید کم ہوکرابتدائی چھ ماہ میں دولاکھ سیاحوں سے بھی کم رہ گیا تھا یعنی سال بھر میں کوئی چار لاکھ۔

نیشنل ٹورازم کے حوالے سے پلڈاٹ کی رپورٹ کے مطابق سن 2009 میں 46 ملین پاکستانی سیاحوں نےاندرون ملک سفر کیا۔ ان ”سیاحوں” میں سے صرف 14 فیصد نے خالص سیر و تفریح کی غرض سے سفر کیا باقی لوگ اپنے رشتہ داروں سے ملاقات، کاروبار، علاج معالجہ یا زیارات کی غرض سے عازم سفر ہوئے۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان آنے والے بین الاقوامی سیاحوں میں سے تقریباً پچاس فیصد بیرون ملک خصوصاً یورپ میں رہائش پذیر پاکستانی ہوتے ہیں جو سالانہ چھٹیوں میں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کی غرض سے وطن واپس آتے ہیں۔

تازہ ترین