میرپورخاص ضلع میں ایک شادی شدہ عورت کاروکاری کی ظالمانہ رسم کے بھینٹ چڑھ گئی۔یہ گزشتہ ہفتےکی بات ہے ،میرپورخاص ضلع کے تعلقہ سندھڑی کے پھلاڈیوں تھانے کی حدود میں واقع گوٹھ چتوشرمیں ایک شخص طالب شر نے مبینہ طور پر بندوق سے فائر کرکے اپنی تیس سالہ بیوی اور تین بچوں کی ماں کو بے دردی سے قتل کردیا،پولیس نے ملزم کوآلہ قتل سمیت گرفتار کر کے تحقیقات شروع کردی ہے جب کہ ضروری کارروائی کرنے کے بعد لاش کو ورثاء کے حوالے کردیا۔
مذکورہ واقعہ سے متعلق علاقے میں یہ بات گردش کررہی ہے کہ بدنصیب عورت کاقتل کاروکاری کا شاخسانہ ہے،حقیقت کیا ہے،اسے پولیس شفاف اور دیانت دارانہ تحقیقات سے ہی سامنے لاسکتی ہے۔امید ہے پولیس جلد تمام حقائق سامنے لائے گی تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور متاثرین کوبھی اطمینان نصیب ہوسکے۔
سندھ کی سرزمین اپنی رو ایتی مہمان نوازی، امن وآشتی ،پیارومحبت اور بھائی چارے کی عظیم خصوصیات سے پہچانی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ یہاں قدیم فرسودہ روایات بھی رائج ہیں۔اندرون سندھ خواتین کے ساتھ ظالمانہ اوربہیمانہ رسم و رواج کی جڑیں آج بھی خاصی گہری ہیں،ان میں کاروکاری ،چراورونی سمیت دیگر غیرانسانی رسموں اورجابرانہ سوچ اور رویوں نے 21ویں صدی میں بھی اپنے دہشت ناک پنجے گاڑے ہوئے ہیں ، ملک کے بڑے شہروں کے عوام اور بالخصوص نئی نسل کی اکثریت کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ ـ’’کاروکاری ‘‘کیا ہے؟ان کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ اندرون سندھ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کو کاروکاری کہا جاتا ہے۔،کسی بھی غیر عورت سےقابل اعتراض تعلقات استوار کرنے والے مرد کو ’’کارو‘‘جبکہ کسی نامحرم مردسےمشکوک تعلقات رکھنے والی خاتون کو ـــ’’کاری ‘‘قرار دے کر غیرت کے نام پر کبھی خاتون اور کبھی اس جرم کے مرتکب مردجب کہ اکثر اوقات دونوں کو ہی ان کے عزیزواقارب انتہائی وحشیانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتا ردیتے ہیں۔،یہ بات بھی جنگ کے مشاہدے میں آئی ہے کہ ذاتی دشمنی ،جائیداد اور دیگر معاملات کی آڑ میں کسی بھی مرد یا عورت کو کاروکاری کے جرم کا مجرم قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔،ہماری معلومات کے مطابق، کاروکاری کی ظالمانہ اور فرسودہ رسم بلوچستان سے سندھ کے خطے میں منتقل ہوئی ہے اسی لئے آج بھی بلوچستان سے ملحقہ سندھ اور پنجاب کے علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات قدرے زیادہ نظر آتے ہیں۔ ،عام تصور یہ ہے کہ کاروکاری جیسی ظالمانہ رسمیں معاشرے میں جہالت کی وجہ سے زندہ ہیں ،کسی نہ کسی حد تک اس کے فروغ میں جہالت اور غربت کا بھی تعلق ہے ،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر اندرون سندھ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے واقعات پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے جاگیردار ،وڈیرے ،سردار اور بااثر شخصیات کی ا کثریت اس وحشیانہ فعل کونہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہے بلکہ اسے بھرپور تحفظ بھی دے رہی ہے ۔
قانون کی بالا دستی کے فقدان ،انصاف کی راہ میں پیچیدگیاں اور اس کےحصول میں ہونے والی تاخیر کے باعث غریب لوگ انصاف کے حصول کے لیےزیادہ تر برادری یا قبیلے کے ان طاقتور لوگوں کے پاس فریادی بن کر جاتے ہیں ،جنہوں نے اپنے خودساختہ قوانین بنائے ہوئے ہیں،جن کے تحت وہ زمین و جائیداد کی ملکیت، لوگوں کی موت و زیست کے فیصلے کرتے ہیں۔ کسی بھی تنازعے کو کاروکاری کا رنگ دے کربے گناہ مرد و خواتین کو انتہائی سفاکی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔
ماضی میں متعدد مرتبہ سندھ اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی غیرت کے نام پر قتل کی بازگزشت سنائی دیتی رہی ،2010میں سندھ اسمبلی کے اجلاس میں ایک اہم قرارداد منظور کی گئی جس میں اس وقت کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ کاروکاری کے نام پر ہونے والے قتل کے واقعے کی کارروائی فوجداری قانون کی دفعہ 302کے تحت کی جائے اور اس جرم کے مرتکب ملزمان کے خلاف قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے گرفتاری عمل میں لائی جائے ۔
2016میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کارکاری یا غیرت کے نام پر قتل کے خلاف اراکین کی بھاری اکثریت کی رائے سے با قاعدہ بل پاس ہوا،اس موقع پر سابق وزیراعظم نواز شریف نے مذکورہ بل پر مکمل طور سے عمل درآمد کرانے کا وعدہ کیا تھا،لیکن اب تک اس کے تحت کارروائیوں کا آغاز نہیں ہوا۔شاید اس کے نفاذ کی راہ میں سندھ سمیت ملک کی بااثر شخصیات رکاوٹ بنی ہوئی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان قبیح رسومات کا آج تک خاتمہ نہیں ہوسکا اور بنت حوا پر بنی آدم کے مظالم کا سلسلہ آج بھی جاری ہے آج بھی صوبے کی مظلوم بچیاں نوحہ کناں ہیں کہ ،میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں،تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے۔