• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب عدالتوں کے باہر اور اور پارلیمنٹ کے باہر الفاظ رُسوا ہورہے ہیں۔ مفہوم منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔ لمحے بغیر استعمال ہوئے بیت رہے ہیں۔ وقت سر پر خاک ڈال کر تڑپ رہا ہے کہ اس سے کوئی بھی کام نہیں لیا جارہا ہے۔ وقت بھی ضائع ہورہا ہے۔ اور پیسہ بھی۔ گرمی بھی شدت کی پڑ رہی ہے۔ بجلی بھی عین اسی وقت جاتی ہے جب سورج سوا نیزے پر ہوتا ہے لیکن مجھے اقوام متحدہ کے ترقیاتی شعبے کی خبر نے نہال کردیا ہے کہ پاکستان میں 64فی صد آبادی نوجوان ہے۔30سال سے کم عمر یعنی ایک سال سے 29سال کے پاکستانی ہماری کُل آبادی 20کروڑ کا 64فی صد ہیں۔ اس کا مطلب ہوا پونے13کروڑ ہمارا متحرک۔جاندار۔فعال مستقبل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بہت امکانات دے رکھے ہیں۔ بہت توانائی ہے۔ ایسی قوم بہت کچھ کرسکتی ہے۔ ہمارے ہاں ضعیف۔ فرسودہ۔ بوسیدہ اور ازکار رفتہ بہت کم ہیں۔ کم ہوتے جارہے ہیںہمارے ہاں طلوع ہونے والے زیادہ ہیں۔ غروب ہونے والے کم ہیں۔ کیا یہ اس مالک حقیقی کا خصوصی کرم نہیں ہے ۔ 31سے اوپر 65سال تک 75تک 80تک ۔ زیادہ سے زیادہ 100تک یہ 36فی صد ہیں۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو مواقع بہت ہیں۔ ایسا تناسب ایسا توازن کسی بھی قوم کے لیے بہت ہی سازگار بلکہ شاندار ہے۔
یہ نسل جو اکثریت میں ہے۔ یہ انٹرنیٹ کے سامنے پرورش پارہی ہے۔ ہاتھوں میں موبائل لے کر پیدا ہورہی ہے۔ ٹی وی چینلوں کے سامنے اس کی آنکھیں کھُل رہی ہیں۔ اسے آزادیٔ اظہار گھٹی میں گھول کر پلائی جارہی ہے۔ وہ نسل قریباً معدوم ہورہی ہے۔ جس نے غلام ہندوستان میں پرورش پائی تھی۔ جس کے ذہنوں میں کشمکش تھی۔ جس کے اعصاب پر غیر ملکی استعمار سوارتھا۔ جب پاکستان معرض وجود میں آگیا تو اس کے سر پر بہت بوجھ تھے۔ اب پاکستان میں اکثریت ان ہم وطنوں کی ہے جنہوں نے آزاد فضائوں میںجنم لیا۔ جو اس پاک سر زمین میں پیدا ہوئے۔ ان کے غم بھی اپنے ہیں۔ اپنوں کے دئیے ہوئے ہیں۔ ان کی خوشیاں بھی اپنی ہیں۔ اپنوں کی دی ہوئی ہیں۔
اس نومولود۔ نوجوان۔ جوان۔ اور بالغ پاکستانی اکثریت کے اپنے مشاہدات اتنے نہیں ۔ اپنے تجربات اتنے نہیں ہیں۔ بلکہ ہماری نسلیں انہیں جو کچھ بتاتی رہی ہیں سناتی رہی ہیں۔ ہماری لکھی کتابوں نے انہیں جو بتایا ہے اس سے ان کے ذہن بنے ہیں۔ خاص طور پر نصاب کی کتابوں میں جو کچھ پڑھایا جارہا ہے۔ وہ ان کے ذہن بنارہا ہے۔ اس لیے ان سے معاملات طے کرنا۔ انہیں قائل کرنا آسان ہے۔ اس سال جو افسر ریٹائر ہوں گے وہ 60سال پہلے 1958میں پیدا ہوئے ہوں گے۔ جو پاکستان میں پہلے مارشل لاکا پہلا سال تھا۔ ان کی ذہنی نشوونما کس حال میں ہوئی ہوگی۔ وہ کن کن کیفیتوں۔ کس کس کرب سے گزر رہے ہوں گے۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے کتنی فوجی حکومتیں ۔کتنی سول حکومتیں دیکھی ہوں گی۔ سقوط مشرقی پاکستان کا المیہ بھی ان پرگزرا ہوگا۔ ریٹائر ہوتی نسل کے مقابلے میں اب جو نسل عملی زندگی میں پرائیویٹ۔ سرکاری۔ فوجی ملازمتوں میں داخل ہورہی ہوگی۔ ان کے ذہن کتنے توانا ہوں گے۔ یہ دلچسپ تحقیق ہوسکتی ہے۔
یہ تو سارے علوم۔ ساری سائنسز کہتی ہیں کہ پیدائش۔ پرورش اور درسگاہوں کا ماحول انسانی ذہن کے زیادہ حصّوں پر غالب ہوتا ہے۔ اس کی گفتگو۔ چال ڈھال۔ کردار۔ جھوٹ سچ بولنا۔ فیصلے کی قوت پر انہی برسوں کا نتیجہ خیز اثر ہوتا ہے۔ یہ باتیں سوچتے سوچتے عقل مجھے کہنے لگی کہ اس فکر میں کیوں اپنا وقت ضائع کررہے ہو۔ یہ تو انہیں سوچنا چاہئے جو قوم کی قیادت کے دعویدار ہیں۔ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔ وزیرا علیٰ بننے کے خواہاں ہیں۔ مگر برسوں کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ اس لیے میں ہندسوں کے کھیل میں پڑ گیا۔ ایک دو ماہرین سے بات کی کہ عمر کا کونسا حصّہ زیادہ فعال ہوتا ہے ۔ کس عمر کے لوگ زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔تحریکوں کی جان ہوتے ہیں۔ درسگاہوں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول سے لے کر صنعت ۔ تجارت۔ سرکاری انتظامیہ۔پولیس۔فوج۔نیم فوجی ملازمتوں میں جن کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ فیصلہ ساز تو زیادہ 40سے 55سال کی عمر کے درمیان ہوتے ہیں۔ لیکن جن کے ذریعے عملدرآمد کروایا جاتا ہے جو عملاً حرکت کرتے ہیں اور جنہیں خود قوت متحرکہ کہا جاسکتا ہے وہ 21سے 45سال تک کی عمر والے ہوتے ہیں۔ یہی عمر عشق کرنے کی ہے۔ شادیاں کرنے کی ہے۔ آئندہ نسلیں پیدا کرنے کی ہے۔ یہ نظریات قبول کرنے کی عمر بھی ہے۔ نظریات کا اطلاق کرنے کی بھی۔ یہ عمر خواب دیکھنے کی بھی ہے۔ خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی بھی۔ دُنیا کے بڑے شاعروں نے اسی عمر میں زیادہ آفاقی شاعری کی۔ ناول نگاروں نے بھی اسی عمر میں زیادہ مقبول ناول لکھے۔ قوموں کی تقدیر بدلنے والے قائدین نے بھی اسی عمر میں تحریکوں کی قیادت کی۔ انقلاب برپا کیے۔ یہی عمر شاید صدر مملکت کے لیے رکھی گئی ہے۔ کہ 45سال کی عمر کے بعد پیداواریت کم ہونے لگتی ہے۔
21سے 45سال کی عمر۔زندگی کے سنہرے سال والے پاکستانی ایک محتاط حساب کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی کا 33.7فی صد بنتے ہیں۔ بہت ہی معقول تناسب۔ اگر کسی قوم میں 100میں سے 32 جسمانی طور پر توانا۔ ذہنی طور پر طاقت ور موجود ہیں تو وہ بڑی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرسکتی ہے۔ اسی محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی 20کروڑ 77لاکھ آبادی میں سے 6کروڑ80 لاکھ پاکستانی 21سے 45سال کی عمر کے درمیان ہیں۔ میں تو اس پر اللہ تعالیٰ کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں۔ عش عش کررہا ہوں۔ اتنی ممکنہ توانائی۔ ذہانت کا گرانقدر ذخیرہ۔ 21سال والے ہوں یا 45سال والے۔ یہ دونوں پاکستان کی تاریخ کے انتہائی خوش قسمت برسوں کی پیداوار ہیں۔ 45سال والے 1973میں پیدا ہوئے ہوں گے ۔ سر زمین بے آئین کو آئین ملنے کا سنہری سال۔ 21سال والے 1997میں پیدا ہوئے ہوں گے ۔ قیام پاکستان کی گولڈن جوبلی ۔یہ بھی تاریخ پاکستان کا زرّیں برس ہے۔ ہم کتنے خوش بخت ہیں کہ ملک کے متفقہ منظور شدہ آئین جو بے شُمار جارحیتیں برداشت کرنے کے باوجود آج بھی ملک کا قانون ہے۔ اس کی منظوری کے سال پیدا ہونے والے اس وقت اعلیٰ عہدوں پر موجود ہیں۔ خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی پوزیشن میں ہیں۔ ایک سرے پر یہ آئین کے ہم عمر پاکستانی ہیں۔ دوسری طرف نقطہ آغاز پر وہ ہم وطن دوڑ کا آغاز کرنے والے ہیں جو پاکستان کی مشکلات۔ المیوں۔ سانحوں کے باوجود 50سال پورے کرنے کے سال پیدا ہوئے۔ شبھ گھڑیوں میں جنم لینے والے یہ پاکستانی پونے سات کروڑ کی تعداد میں ہیں۔ بیدار ذہن۔ توانا جسم۔ چاق و چوبند۔ ہر لمحہ جاگتے اعصاب۔ جدید علوم سے آشنا۔ ٹیکنالوجی کے دلدار۔یہ سب ووٹ کا حق بھی رکھتے ہیں۔ ایسی ایسی پوزیشنوں پر ہیں۔ اپنے کاروبار میں۔ کارِ سرکار میں۔ دربار میں۔ بازار میں کہ اگر کوئی ان کے تار آپس میں ملادے تو پاکستان یکدم روشن ہوسکتا ہے۔ خوشحال ہوسکتا ہے۔ یہ کسی اشارے کے منتظر ہیں۔ذہنی جسمانی طور پر پوری قوت سے آگے بڑھنے کے لیے تیار۔ ان میں 75لاکھ بی ایس سی ہیں۔ ایم ایس ہیں۔ ایم بی اے ہیں۔ پی ایچ ڈی ہیں۔ کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا۔
یہ قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان میں بھی ہیں۔ یہ ہر قسم کے مصائب کا سامنا کرنے والے خیبر پختونخوا میں بھی ہیں۔ یہ صدیوں سے چٹانوں میں پلتے فاٹا میں بھی ہیں۔ یہ برفانی گلیشیرئوں سے مزاحمت کرنے والے گلگت بلتستان میں بھی ہیں ۔ دشمن کی فائرنگ کی زد میں رہنے والے آزاد جموں کشمیر میں بھی۔ امکانات سے بھرپور پانچ دریائوں سے منسوب پنجاب میں بھی۔ صوفیا اور شہدا کی سرزمین سندھ میں بھی۔
وقت کی آنکھ دیکھ رہی ہے کہ کون سا قائد۔ کون سی پارٹی۔ کون سا ادارہ۔ امکانات۔ توانائیوں۔ قوتوں سے بھرپور 21سے 45سال کے پونے سات کروڑ پاکستانیوں کا ہم سفر بنتا ہے۔آپ کی کیا رائے ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین