• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرنے کے بعد کی صورت حال بیان کرنے کے لیے مذہبی، نفسیاتی اور سائنسی ماہرین اپنے اپنے الگ الگ نظریات رکھتے ہیں۔ متعدد مذاہب ِعالم کے نظریات میںجوبات بکثرت اور مشترک نظر آتی ہےوہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد مرنے سے قبل کی حالت کی نسبت نئی اور زیادہ صلاحیتیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ مسکن کے بارے میں بھی جنت اور دوزخ کے علاوہ بھی دیگر مذاہب (بالخصوص غیر ابراھیمی مذاہب) میں مختلف وضاحتیں ملتی ہیں۔ اگر نفسیاتی نقطۂ نظر دیکھا جائے تو تمام تر اختلافات کے باوجود ان تمام نظریات اور وضاحتوں کا منبع ایک ہی سامنے آتا ہے یعنی بعد از موت قبل از موت کی حالت سے بہتر ہوگی یا بدتر ہوگی۔قدیم اقوام زندگی اور موت میں فرق نہیں سمجھتی تھیںبلکہ موت کو طویل نیند سے تعبیر کیا جاتا تھا اور مردے کے ہمراہ اس کی روزمرہ ضروریات کا سارا سامان دفن کر دیا جاتا تھا کہ جاگنے کے بعد اسے کھانے پینے کی تکلیف نہ ہو۔ قدیم مصر، وادئ سندھ، سومیری اور اشوری قوموں کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا سے جانے کے بعدانسان کو ملکہ ظلمات کے روبرو پیش کیا جاتا ہے وہ انسان کے اعمال کا محاسبہ کرتی ہے،اور اعمال کی بنیاد پر ہی انسان کو جنت یا جہنم میںبھیج دیا جاتا ہے۔
ہندو آواگون ’’تناسخ‘‘ کے قائل ہیں جس کے مطابق آتما امر ہوتی ہے اور اعمال کے مطابق جون بدلتی رہتی ہے،آخر کار دیوتا بن جاتی ہے۔بدھ مت حیات بعد الممات کو نہیں مانتا بلکہ نروان کا قائل ہے، جو انسان کو اپنی خواہشات اور خدمات پر قابو پانے سے حاصل ہوتا ہے۔ حیات بعد الممات اسلام کے بنیادی ارکان میں شامل ہے۔ قرآن شریف کے مطابق سب لوگ قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور خدا کے حضور پیش ہوں گے۔ خدا ان کے اعمال کے بموجب جزااور سزا دے گا۔ عیسائیوں اور یہودیوں کا بھی قریب قریب یہی عقیدہ ہے۔ اکثر فلاسفہ اور سائنس دان حیات بعد الممات کے منکر ہیں ۔
خلاصہ یہ ہےکہ دنیا کے کم و بیش تمام مذاہب میں دنیاوی موت کے بعد بھی کسی نہ کسی قسم کے تسلسل کے جاری رہنے کا تصور ملتا ہے۔مختلف اہل ِعلم کی کاوشوں سے سامنے آنے والے مذکورہ نظریات کو آپ کے سامنے رکھنے کا مقصد یہ ہے، کہ ہم موضوع پر بات سے قبل یہ جان سکیں کہ مختلف مذاہب ونظریات بعد از موت کی حیات کےمتعلق کیا کہتے ہیں اور پھر ہم بعد از موت اعضا کے عطیہ دینے کے ضمن میں اس فکر انگیز خیال کو بھی مد نظر رکھ سکیں کہ نیک کام بھی مختلف جہتوں میںموت کے بعد ایک انسان کے زندہ رہنے کا حوالہ ہے۔ بنابریں ہمارا اصل مقصد بعداز موت اعضاکے عطیات دینے کے سلسلے میں شرعی ، فکری اورسائنسی اعتبار سے اُن کوششوں میں شریک ہونا ہے جو ایک عرصہ سے انسانی جانوں کو بچانے کیلئے ایس آئی یو ٹی اور اس کے روح رواں جناب پروفیسر ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی جاری رکھے ہوئے ہیں۔اس سلسلے میں 20اپریل کو سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کراچی میں ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس میں عوام کو اعضا عطیہ کرنے کے حوالے سے آگاہی فراہم کی گئی۔
جہاں تک بعد از مرگ عطیات کا شرعی معاملہ ہے تو اس سلسلے میں علما کا کہنا ہے کہ سورہ مائدہ آیت نمبر 31میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرما تا ہے کہ جس نے کسی ایک انسان کو بلاوجہ قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا ، اور جس نے کسی انسان کی جان بچائی گویااس نے تما م انسانوں کو بچایا۔انسانی جان کو بچانے کے حوالے سے علمائے کرام نے متعدد مثالیں پیش کی ہیں،جن میں یہ بھی شامل ہے کہ گردے، ہارٹ فیل یا دیگر اعضا کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے اگر کسی کی جان خطرے میں ہے، تو اس کی مدد کرنا بھی احیائے نفس ، یعنی کسی کی زندگی بچانا ہے۔جو لوگ کہتےہیں کہ مرنے کے بعد اعضا کی پیوندکاری سے لاش کی بے حرمتی یعنی تکریم انسانی متاثر ہوتی ہے، تو علما کا کہنا ہے کہ چونکہ ائول تو یہ کام خیر ہی کے جذبے کے تحت ہوتا ہے لہذا کسی کے ذہن میں یہ خیال نہیں جاتا کہ جو شخص اس دنیا سے گیا ، یہ کام اُس کی اہانت کے طور پر ہورہا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں یا اب بھی انسان نما وحشی (کان، ناک وغیرہ کاٹ کر) لاشوں کے مثلےبناتے تھے، ظاہر ہے ایساجبر اور اہانت کے طور پر کیا جاتا تھا، لیکن جو شخص اپنے اعضا کو عطیہ کرتا ہےتو وہ جذبہ خیر کےتحت اور اس کیلئے باقاعدہ وصیت کرتا ہے، پھر یہ رقم کے عوض نہیں ہوتابلکہ فی سبیل اللہ مددہوتی ہے۔المیہ یہ ہے کہ اگرچہ بعد ازمرگ عطیات کو بڑے علمائے کرام نہ صرف یہ کہ جائز بلکہ کار خیر سمجھتے ہیں،لیکن وہ اپنی مساجد ، مدارس اور خطبات میں اس کی اہمیت وضرورت اس طرح اجاگر نہیں کرتے ، جس طرح دیگر امور میں ان کی دلچسپی ہوتی ہے،یہی وجہ ہے کہ یہ کار خیر پاکستان میں توجہ حاصل نہیں کرسکا ہے۔جبکہ دیگر اسلامی ممالک میں بعد از مرگ اعضا کے عطیات کا تناسب بڑھ رہا ہے، ان میں ایران، ترکی، کویت، سعودی عرب، قطر، لبنان اورملائشیا قابل ذکر ہیں۔ستم تو یہ ہے کہ ہماری اسلامی جمہوریہ میں پیسے کی خاطرہر ناجائز کام کیا جاتاہے یہاں تک کہ انسانی اعضا کی خرید و فروخت جیسا گھنائونا کاروبار بھی شامل ہے۔تبدیلی اعضا کی غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنا ایک مشکل کام ہے۔اسے دو تین طریقوں سے ہی روکا جاسکتاہے، جوا دارے اس سے متعلق ہیں وہ اخلاص کا مظاہرہ کریں،پیسے پر انسانیت کوفوقیت دی جائےنیز بعد از مرگ اعضا کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔بعد از مرگ جن اعضا کا عطیہ دیا جاسکتاہے، ان میں گردے، دل، جگر، پھیپھڑے، لبلبہ اور آنتیں شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ سے زائدافراد اعضا کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں، زیادہ تر اموات کی وجہ اعضا کی عدم دستیابی ہوتی ہے، ایسی قیمتی جانوں کو بچانے کیلئے بعد ازمرگ اعضا کے عطیات دینے کےلئےکار خیر کے اس کلچر کو فروغ دینا بلاشبہ وقت کی بڑی ضرورت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین