• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

شادی کے 10 برس بعد ہی بیوہ ہوگئیں، بچوں کو باپ بن کر پالا

شادی کے 10 برس بعد ہی بیوہ ہوگئیں، بچوں کو باپ بن کر پالا

امّی جی کی قبر پر رکھے پھولوں پر خُوب صورت تتلیاں اٹکھیلیاں کر رہی تھیں، جیسے لحد کا کوئی دریچہ جنّت کے باغوں میں کُھل گیا ہو اور فردوس کی مسحورکُن خوش بُو تتلیوں کو بے خود کر رہی ہو۔ امّی نے 1957ء میں تحصیل دیپال پور کے ایک خوش حال زمین دار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نانا جی نہایت وجیہہ شخصیت کے مالک تھے، جب کہ نانی اماں بھی ایک باوقار خاتون ہیں، جو اسّی سال کی عُمر میں بھی تہجّد گزار ہیں۔ امّی نے گائوں کے اسکول سے پرائمری کی اور پھر ضلع پاکپتن کی تحصیل، عارف والا کے ایک اسکول میں داخلہ لے لیا، جہاں اُن کی دادی کی رہائش تھی۔ 

اُنھیں پڑھنے کا بہت شوق تھا، لیکن نانا لڑکیوں کو زیادہ پڑھانے کے حق میں نہ تھے، اس لیے چھٹی جماعت کے بعد گھر بٹھا دیا گیا۔ چوں کہ ہمارے نانا، ملک محمّد عارف، برادری کے بڑے زمین دار تھے، تو امّی جی کے چھوٹی عُمر ہی سے رشتے آنا شروع ہوگئے اور اُن کی نسبت، سوتیلی پھوپھو اور سوتیلے ماموں کے بیٹے، محمّد حسن سے طے ہوگئی، جو اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ پھر جلد ہی بڑی بہن کے ساتھ امّی کی بھی شادی کردی گئی، اُس وقت اُن کی عُمر محض سولہ برس تھی، جب کہ ہمارے والد اٹھارہ سال کے تھے۔ دس سالہ ازدواجی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے اُنھیں چار بیٹوں سے نوازا، جن میں سے چھوٹا تو پیدائش کے ایک ہفتے بعد ہی فوت ہوگیا‘ باقی ہم تینوں بھائی حیات ہیں۔

ہمارے والد اٹھائیس سال کی عُمر میں انتقال کر گئے تھے، جس کے بعد امّی جی ہی نے ہمیں ماں اور باپ دونوں بن کر پالا اور کبھی والد صاحب کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ حد تو یہ ہے کہ ہم نے اُنھیں کبھی شکوہ شکایت کرتے بھی نہیں دیکھا۔ وہ خود تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق پورا نہ کرسکی تھیں، لیکن ہمیں خُوب پڑھایا۔ تعلیمی مقاصد ہی کے لیے ہم رکن پورہ سے سمن آباد، لاہور میں واقع نانا جی کی کوٹھی میں منتقل ہو گئے تھے۔

امّی صفائی ستھرائی کا بہت خیال رکھتی تھیں اور اُنہیں سونے کا زیور پہننے کا بھی بے حد شوق تھا۔ نانا جی نے اُنہیں شادی کے موقعے پر جو زیور دیا تھا، وہ گلشنِ راوی، لاہور میں اپنا گھر خریدنے میں استعمال ہوگیا، تو اُنہوں نے کافی عرصے بعد سونے کی چوڑیاں خریدیں۔ اُس وقت خوشی اُن کے چہرے سے عیاں تھی۔ وہ نئے کپڑے اور خُوب صورت چپل خاص اہتمام سے پہنتی تھیں۔ 

ایک بار مَیں اُنہیں بازار ساتھ لے گیا اور خُوب صورت جوتوں کا جوڑا دلوایا‘ تو بہت خوش ہوئیں۔ دودھ اور آلو گوشت اُن کی مرغوب غذا تھی۔ سردیوں میں صبح پراٹھا، انڈا اور چائے، جب کہ گرمیوں میں پراٹھے کے ساتھ میٹھا دہی پسند تھا۔ ساگ میں پالک‘ میتھی اور ہری مرچیں شامل کرکے بہت مزے دار سالن تیار کرتی تھیں۔ 

گزشتہ برس ماہِ نومبر کی بات ہے۔ اُن دنوں وہ بہت سُست اور خاموش سی رہنے لگی تھیں۔ ہم سمجھے، شاید موسم کی تبدیلی کے ساتھ امّی جی کی طبیعت میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔ بہت زیادہ سردی نہیں تھی، لیکن پھر بھی ہر وقت سوئیٹر پہنے‘ شال اوڑھے رہتیں اور دوپہر کے وقت بھی جرابیں نہ اتارتیں۔ کچھ دنوں بعد اُنھیں تنہائی میں خوف محسوس ہونے لگا، جس کی وجہ سے وہ چاہتی تھیں کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی اُن کے پاس بیٹھا رہے۔ پہلے اکیلے کھانا کھاتی تھیں، لیکن اب ہمارے ساتھ ناشتا کرتیں اور رات کا کھانا بھی ساتھ ہی کھاتیں۔ 

اُن کا سارا دن عبادت ہی میں گزرتا۔ باتیں کرتے ہوئے اچانک ہاتھ اٹھا کر دُعا مانگنے لگتیں۔ ہم کہتے’’ امّی جی وظیفے کم پڑھا کریں، کچھ دیگر معاملات بھی دیکھ لیا کریں‘‘،مگر اُن کی دنیاوی معاملات میں دِل چسپی ختم ہو چکی تھی۔ شاید نیک بندوں کی طرح اُنہیں بھی ’’ہونی‘‘ کی خبر ہوگئی تھی۔

جمعے کے دن امّی جی نے اپنی خاموشی کچھ توڑی۔ وہ لان میں کرسی پر بیٹھی تھیں۔ ملازمہ نے پیالے میں مہندی گھولتے ہوئے کہا’’ باجی! آپ کے بھتیجے کی شادی میں پورا ہفتہ باقی ہے، ابھی مہندی نہ لگوائیں‘‘، وہ بولیں’’ نہیں، بال سفید ہوگئے ہیں‘ بُرے لگتے ہیں‘ آج ہی مہندی لگادو۔‘‘ اتوار کے روز نسبتاً زیادہ باتیں کیں، دھوپ میں بیٹھ کر ہمارے ساتھ فروٹ چاٹ کھائی۔ پھر نہانے کے بعد پِیچ کلر کا سوٹ پہنا‘ شام کو اکھٹے چائے پی، رات تک ہمارے ساتھ بیٹھی رہیں اور میرا ہاتھ پکڑے رکھا۔ 

اگلے روز، یعنی پیر 20 نومبر کو ہم نے اکٹھے ناشتا کیا، جس کے بعد مَیں دفتر روانہ ہوگیا۔ تقریباً تین بجے کے قریب بڑے بھائی کا فون آیا کہ امّی جی بے ہوش ہوگئی ہیں۔ تیزی سے گھر پہنچا، تو وہ بے ہوش پڑی تھیں۔ فوری طور پر نزدیکی اسپتال لے گئے، جہاں ڈاکٹرز نے موت کی تصدیق کردی۔ بیگم نے بتایا کہ’’ آپ کے دفتر جانے کے بعد، امّی جی وہیں بیٹھی’’ منزل‘‘ پڑھتی رہیں‘ پھر قرآن مجید کی تلاوت کی اور بعد میں تسبیح پڑھتی رہیں‘ کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ آج ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ جائیں گی، پھر اُنہیں کمرے میں ڈر لگنے لگا‘ تو چھوٹے بھائی نے باہر ٹی وی لائونج میں صوفے پر بِٹھا دیا، جہاں بیٹھے بیٹھے نیچے گرگئیں۔ 

ہم سمجھے شاید شوگر لیول کم ہوگیا ہے، تو امّی جی کے منہ میں پانی کے ساتھ چینی ڈال دی، لیکن وہ بڑے بھائی کے ہاتھوں میں دو ہچکیاں لینے کے بعد دنیا سے رخصت ہوگئیں۔‘‘ امّی جی نے جس خاموشی سے زندگی گزاری تھی، ویسے ہی اطمینان سے رخصت ہوگئیں۔؎ اتنے چُپ چاپ کہ رَستے بھی رہیں گے لاعلم… چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر، شام کے بعد۔ ایمبولینس سڑک پر دھول اڑاتی گائوں کی طرف جارہی تھی‘ وہی رکن پورہ، جہاں اُن کی پیدائش ہوئی تھی۔

( عدنان حسن پھلروان،ازمیر سوسائٹی، لاہور)

تازہ ترین
تازہ ترین