• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری سگھڑ ماں جی

ماں تو سب کی ایک ہی جیسی ہوتی ہے، ہم درد، غم گسار، محبّتیں، چاہتیں نچھاور کرنے والی، چناں چہ ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ اُسی کی ماں سب سے اچھی اور سب سے زیادہ پیار کرنے والی ہے۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے، کیوں کہ ہر ماں اپنے بچّے کے لیے ایک بہترین ماں ہی ہوتی ہے، لیکن میری ماں اپنے بچّوں جیسا پیار، اپنے اور شوہر کے بھتیجوں، بھتیجیوں، بھانجوں، بھانجیوں سے بھی کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ان کی معمولی سی تکلیف پر بھی پریشان ہو جاتی ہیں۔ سب اُن سے دعا کرواتے ہیں اور وہ بھی نہ صرف یہ کہ اُن کے لیے ہاتھ اٹھا دیتی ہیں، بلکہ گھریلو ٹوٹکے بھی بتاتی ہیں۔ 

امّی کھانا پکانے میں اتنی ماہر ہیں کہ ان کے ہاتھ کے پکے کھانے سارے ننھیال اور ددھیال میں مشہور ہیں۔ سلائی کڑھائی اتنی اعلیٰ کہ درزی کی بھی کیا ہوگی۔ ہم نے بچپن سے لے کر جوانی تک، شاید ایک دو مرتبہ ہی درزی سے کپڑے سلوائے۔ ہمیشہ امّی ہی نے ہمارے کپڑے سیے اور جب ہم اُن کے ہاتھ کے سِلے کپڑے پہن کر باہر نکلتے، تو سب ہی کی توجّہ کا مرکز بن جاتے، کیوں کہ بچّوں کے لیے جدید فیشن کے کپڑے سینا اُن کا شوق بھی تھا اور پیسوں کی بچت بھی۔ کسی کے ہاں نئے مہمان کی آمد کی خبر ملتی، تو امّی ننّھے ننّھے کپڑوں کی سلائی شروع کردیتیں اور پھر جیسے پَلک جَھپکتے میں خُوب صورت بچکانہ سوٹ تیار ہو جاتے۔ 

ململ کے کُرتوں پر ہاتھ سے کڑھائی بھی کرتیں اور جب معصوم بچّوں کو اپنے ہاتھ کے سِلے یہ کپڑے پہنے دیکھتیں، تو جیسے ان کی محنت وصول ہو جاتی۔ یہی نہیں، ہاتھ میں پہنانے والے کالے موتی بھی تیار کرکے پہناتیں، مگر اب بینائی پہلے جیسی نہیں رہی اور صحت بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ سلائی کرسکیں۔ گھریلو اُمور میں مہارت کے ساتھ، سلائی مشین کی خرابی دُور کرنے، نل کا واشر لگا لینے سے لے کر بجلی کا فیوز لگانے تک کا کام بھی جانتی ہیں۔ 

یہ تمام صلاحیتیں خداداد ہیں، اُنہوں نے ان کاموں کی کبھی کسی ادارے سے تربیت نہیں لی۔ ان کے پاس بہت زیادہ ڈگریز تو نہیں، مگر مطالعہ اور مشاہدہ کمال کا ہے۔ اسی لیے دین سے لے کر مُلکی سیاست تک، ہر موضوع پر گفتگو کر سکتی ہیں، لیکن معصومیت کا یہ عالم ہے کہ جو محسوس کرتی ہیں، زبان پر لے آتی ہیں، حالاں کہ آج کل سچ سُننے اور برداشت کرنے کی عادت کہاں باقی رہی ہے۔

ماں، ہمارے لیے راستوں میں لگی اُن لائٹس کی مانند ہیں، جو فاصلے تو کم نہیں کرتیں، مگر راستے روشن ضرور کر دیتی ہیں کہ جن سے منزل صاف دِکھائی دینے لگتی ہے۔ ڈھارس کے لیے یہی ایک احساس کافی ہے کہ دنیا میں کوئی ہمارا ہم درد اور خیال کرنے والا ہے۔ دُعا کرنے والے یہ ہاتھ سلامت ہیں اور اللہ انہیں تادیر صحت کے ساتھ سلامت رکھے۔( آمین)

( بلقیس متین،کراچی)

تازہ ترین
تازہ ترین