• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرمپ، ایران ایٹمی معاہدے سے الگ، تہران پر سخت پابندیاں عائد کرینگے، امریکی صدر، ایران نے جوہری معاہدے پر عمل کیا، یورپی یونین، عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے، ایرانی صدر

ٹرمپ، ایران ایٹمی معاہدے سے الگ، تہران پر سخت پابندیاں عائد کرینگے، امریکی صدر، ایران نے جوہری معاہدے پر عمل کیا، یورپی یونین، عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے، ایرانی صدر

کراچی (نیوز ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کردیا،ٹرمپ نے کہا کہ ایران نیوکلیئرخطرے سے نمٹنےکیلئے اتحادیوں کے ساتھ کام کریں گے،امریکا ایرانی عوام کےساتھ ہے،ٹرمپ نے ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کردیے ، تہران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ایران سے جوہری معاہدہ نہیں ہوناچاہیے تھا، معاہدے کو جاری رکھا تو ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوجائے گی اور جیسے ہی ایران ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوگا دیگر ممالک بھی کوششیں تیز کر دیں گے،ایران سے ایٹمی تعاون کرنیوالی ریاست پر بھی پابندیاں لگائیں گے، اسرا ئیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ٹرمپ کے دلیرانہ اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی مکمل حمایت کا اعلان کیا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ٹرمپ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ٹرمپ کا فیصلہ نفسیاتی جنگ کا نتیجہ ہے ، انہوں نے کہا کہ امریکا کی جانب سے ممکنہ پابندیوں کے باوجود ایران ترقی جاری رکھے گا،انہوں نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے فیصلے کے حوالے سے یورپی رہنمائوں،روس اور چینی ہم منصبوں سے بات کرینگے، امریکی صدر کا اعلان عالمی معا ہد و ں کی خلاف ورزی ہے،ایران نے ایٹمی معاہدے پر عمل کیا اور اسے برقرار رکھے گا، امریکا کبھی جوہری معاہدے سے مخلص ہی نہیں تھا،امریکا نے ہمیشہ ایٹمی معاہدے سے متعلق جھوٹ بولا،امریکانےبغیر کسی ثبوت کے ہمیشہ ایران کی مخالفت کی،عالمی توانائی ایجنسی نے بھی تصدیق کی کہ ایران نے جوہری معاہدےپرعمل کیا، امریکی صدر ٹرمپ نے وعدہ خلافی کی ہے،یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی نے کہا ہے کہ ایران نے ایٹمی معاہد ے پر عمل کیا ہے ،ایران سے معاہد ے کے ثمرات مل رہے ہیں ،امید ہےدیگرممالک معاہدےپرعمل جاری رکھیں گے، یور پ ایران جوہری معاہدے کے تحفظ کے لیے متحد ہے ،فرا نس ،جرمنی،برطانیہ نےٹرمپ کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلا ؤ کےمعاہدےکوخطرہ ہے، تینوں ممالک نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ وہ معاہدے پر قائم رہنے کے لئے پرعزم ہیں ،امریکا کے سابق صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا فیصلہ گمراہ کن اور سنگین غلطی ہے ، روسی پارلیمنٹ میں دفاع اور سلامتی کمیٹی کے نائب سربراہ نے کہا ہے کہ ایران جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد کوریائی خطے میں امن عمل شکوک وشبہات کا شکار ہوگیاہے ، یورپی یونین کیلئے روسی سفیر نے کہا ہے کہ وہ جوہری معاہدے کے حوالے سے یورپی یونین اور ایران سے رابطے میں ہیں ، ترک صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ جوہری معاہدے سے امریکا کی علیحدگی عدم استحکام کا باعث بنے گی اور خطے میں مزید تنازعات پیدا ہوں گے ، فرانسیسی وزیر دفاع کے مطابق ایرانی جوہری معاہدے کو کمزور کرنے سے خطے کے حالات تباہ کن ہو سکتے ہیں، فلورینس پیرلے کا فرانسیسی ریڈیو آر ٹی ایل سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایرانی جوہری معاہدہ کامل نہیں ہے لیکن اس کی وجہ سے ہی ایران کی جوہری سرگرمیاں معطل ہوئی ہیں۔تفصیلات کے مطابق وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے اس بات کا اعلان کیا کہ امریکا ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے کا حصہ نہیں رہے گا۔خطاب کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکا خالی دھمکیاں نہیں دیتا، ایران سے ایٹمی تعاون کرنے والی ریاستوں پر بھی پابندیاں لگائیں گے۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایران ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے، حقیقت میں اس ڈیل کے تحت ایران کو یورینیم افزودگی کی اجازت مل گئی، ایران، شام اور یمن میں کارروائیاں کر رہا ہے۔ٹرمپ نے کہا کہ ہمارے پاس ثبوت ہے کہ ایران کا وعدہ جھوٹا تھا، ایران نیوکلیئر ڈیل یک طرفہ تھی،جوہری معاہدہ امریکا کے لئے پریشانی کا باعث رہا، ڈیل کے بعد ایران نے خراب معاشی صورتحال کے باوجود اپنے دفاعی بجٹ میں 40 فیصد اضافہ کیا۔امریکی صدر نے کہا کہ ’ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکنا ہوگا، ایران ایک دہشت گرد ملک ہے، وہ دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہے‘۔دریں اثناء امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ نے کہا ہے کہ وہ امریکی حکومت کی پالیسی کے مطابق واضح رہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے میں امریکا سمیت چین، فرانس، جرمنی ، روس، برطانیہ اور یورپی یونین حصہ تھے اور امریکی صدر کو 12 مئی کو اس معاہدے کی تجدید کرنا ہے۔

تازہ ترین