• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب کے چیئرمین کو بغیر تصدیق بیان کیوں جاری کرنا پڑا؟

نیب کے چیئرمین کو بغیر تصدیق بیان کیوں جاری کرنا پڑا ؟

غیر معمولی عجلت اور قابل اعتراض انداز سے نیب چیئرمین نے منگل کو کھل کر یہ ہدایت دی کہ میڈیا میں آنے والی ان اطلاعات کی تصدیق کی جائے کہ نواز شریف نے مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کے ذریعے 4.9؍ ارب ڈالر بھارت بھجوائے۔ توقع کے عین مطابق یہ خبر شام سے شہ سرخیوں میں آنا شروع ہوئی جس میں نواز شریف کو شرمندہ کیا جاتا رہا۔ تاہم، بعد میں اسی شام یہ اطلاع ’’جعلی‘‘ ثابت ہوئی جس سے یہ سنگین سوالات پیدا ہونا شروع ہوگئے کہ آخر وہ کیا وجہ تھی جس نے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو غیر شائستہ جلدبازی میں اُس غیر مصدقہ معاملے پر پریس ریلیز جاری کرنے پر مجبور کیا جو ملک کے سرکردہ سیاسی رہنما یعنی نواز شریف کی ساکھ اور ان کے نام سے جڑا تھا۔ نیب پریس ریلیز میں میڈیا رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ورلڈ بینک کی دستاویز کا ذکر کیا گیا تھا اور اس بات کو یقینی بنایا گیا تھا کہ نواز شریف کا نام 4.9؍ ارب ڈالرز کی منی لانڈرنگ کے ساتھ شامل ہو۔ پریس ریلیز میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ رقم بھارت بھیجی گئی تھی۔ نیب کے اقدام کے چند گھنٹوں بعد ہی، پہلے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مذکورہ رقم کی منی لانڈرنگ کے الزامات کو مسترد کیا اور بعد میں ورلڈ بینک نے بھی اسے مکمل طور پر مسترد کیا۔ ورلڈ بینک کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز، میڈیا میں ورلڈ بینک کی ترسیلات اور ہجرت رپورٹ 2016ء کے حوالے سے کچھ اطلاعات سامنے آئیں۔ یہ میڈیا رپورٹس غلط تھیں۔ ورلڈ بینک کی مذکورہ رپورٹ دنیا بھر میں ہجرت اور ترسیلات کے اندازوں پر مبنی تھی۔ رپورٹ میں منی لانڈرنگ کا ذکر تھا اور نہ ہی اس میں کسی شخص کا نام شامل کیا گیا تھا۔ نیب کے ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ کسی بھی شکایت کی تصدیق کیلئے ادارے کے اندر کے احکامات کے حوالے سے پریس ریلیز جاری کی گئی ہو۔ ایک ذریعے نے کہا کہ یہ اقدام اس طرح کے معاملات پر بحث و مباحثے کیلئے اسلام آباد میں نیب کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے ایک دن قبل کیا گیا ہے۔ ذرائع نے مزید کہا کہ بیورو کے کچھ انتہائی متعلقہ افسران کو اس پیشرفت کا علم نہیں تھا کیونکہ تصدیق سے پہلے ہی اس معاملے کو جاری کرنے کی ہدایت چیئرمین آفس سے آئی تھی۔ نیب ہیڈکوارٹرز کے کچھ اہم افسران کو اس ایشو کے بارے میں میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا، میڈیا پر نواز شریف کیخلاف یہ ’’اسکینڈل‘‘ بھرپور انداز سے چھایا رہا۔ جس دن نیب نے انتہائی متنازع پریس ریلیز جاری کی، دی نیوز نے تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی کہ نیب کس طرح احتساب کے نام پر قبل از وقت ہی لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے میں ملوث ہے۔ منگل کو نیب کے اقدام نے دی نیوز کی خبر درست ’’احتساب سے بالاتر نیب لوگوں کو مارنے کا لائسنس استعمال کر رہا ہے‘‘، اس خبر میں بتایا گیا تھا کہ ادارے میں کسی بھی طرح کی روک ٹوک کے بغیر اور سیاسی بنیادوں پر ہدف بنانے کی اپنی سابقہ ساکھ پر پورا اترتے ہوئے نیب اب بھی ایک کو چھوڑو اور دوسرے کو پکڑو کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ بیورو کو جب بھی درست لگتا ہے وہ قبل از وقت ہی اپنے ہدف، خصوصاً سیاست دان، کی تضحیک و توہین میں ملوث ہو جاتا ہے لیکن بعد میں وہ اپنی توجہ کسی اور پر مرکوز کر لیتا ہے اور اپنے سابقہ کیسز کو انجام تک پہنچانے کی زحمت تک نہیں کرتا۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ ادارہ انکوائریز اور انوسٹی گیشنز شروع کرتا ہے، پھر جب ادارے کو کنٹرول کرنے والوں کا ایجنڈا پورا ہو جاتا ہے تو یہ انکوائریاں اور انوسٹی گیشنز بند ہو جاتی ہیں، اور کسی اور کے سیاسی فوائد کیلئے یہ مقدمات پھر کھول لیے جاتے ہیں۔ ادارے کے قیام سے لے کر ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے لیکن نیب کے ایک بھی چیئرمین کا اس بات پر احتساب نہیں کیا گیا کہ کئی برسوں تک مختلف انکوائریاں اور انوسٹی گیشنز کیوں جاری رکھیں گئیں حتیٰ کہ دہائیاں پرانے کیسز بھی ہیں جو اب تک چل رہے ہیں، اور انہیں سیاسی وجوہات کی بنا پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس خبر کو نیب نے خود ہی ثابت کر دیا۔

تازہ ترین