• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1970کےبعدسندھ کو بمشکل گڈ گورننس ملی، چاہےسول حکومت ہویا فوجی حکومت، پی پی پی یا پی پی پی مخالف، اس کےنتیجےمیں پولیس اور بیوروکریسی صرف سیاست زدہ ہی ہوئی۔ اس سب کے باعث ’سندھ‘ کا امیج بری طرح متاثر ہوا، اور بلوچستان کے سوایہ صوبہ باقی تمام صوبوں سے پیچھے رہ گیا ۔ پی پی پی گزشتہ 10سال سےاقتدارمیں ہے، موجودہ سندھ حکومت کی مدت 31مئی کو مکمل ہو گی اور وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ آج اپنی حکومت کا آخری بجٹ پیش کریں گے۔ اب ایک نظرپی پی پی حکومت کی کارکردگی یعنی مثبت اور منفی پہلوئوں پر ڈالتےہیں۔ اگر کوئی موجودہ وزیراعلیٰ کے 23ماہ کا موازنہ ان کے پیشرو سید قائم علی شاہ سے کرے تو چھوٹے شاہ نے گزشتہ 10سال کے مقابلے میں یقیناًامیج بہتر کیا ہے۔ جب پی پی پی شہری اور دیہی سندھ میں امن وامان کی صورتحال بہتربنانے کے دعوےکےساتھ آئندہ الیکشن میں حصہ لے گی تو ایک چیزجسے یہ بہتر نہ کرسکی وہ اس کی اپنی ’گورننس‘ کاامیج ہے، یہ ایسی چیز ہے جس کا اعتراف جوشیلے وزیراعلیٰ کرچکے ہیں۔ لہذا یہ کوئی من گھڑت کہانی نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے۔ انھوں نے مجھے بتایاکہ ’’ یہ سچ ہے کیونکہ ہمارے پاس بیوروکریسی میں قابل لوگ نہیں ہیں اور یہ پرانے اور جونئیرآفیسرز دونوں کیلئے سچ ہے۔ میں نے کوشش کی ہے لیکن پھر بھی ہمیں بیوروکریسی میں اچھے لوگ نہیں ملے۔ مراد علی شاہ خوش قسمت تھے کہ جب وہ وزیراعلیٰ بنے تو کراچی آپریشن کے باعث امن وامان کی صورتحال بہتر ہوچکی تھی لیکن ان کا مشکل چیلنج یہ تھا کہ کس طرح ایسی صورتحال سے نمٹا جائے جب نیب، ایف آئی اے اور رینجرز سابق صدر اور پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے چند قریبی ساتھیوں کا تعاقب کررہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب سندھ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ ہوچکے تھےبالخصوص آصف زرداری کے متنازع بیان، ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری اور پی پی پی کے چند رہنمائوں پردہشت گردوں کی مالی مدداورمنی لانڈرنگ کے شبہات کا اظہار کیاجارہاتھا۔ شاہ نے مزید بتایا،’’ آج مجھ پر کم دبائو ہے کیونکہ گزشتہ ایک سال میں وزراء اور افسران کے خلاف اس طرح سے موصول نہیں ہوئیں جس طرح 2014 اور2015میں ہوتا تھا۔ تاہم انھوں نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ الیشکن سے قبل تاحال نیب کی جانب سے دبائو آسکتا ہے۔ چند ہفتے قبل انھیں خود ایک انکوائری سے متعلق نیب کے کراچی آفس کی جانب سے طلب کیاگیاتھا اور ان سے تقریباً90منٹ تک سوالات کیےگئے۔ جب انھوں نے عہدہ سنبھالا تھا تو انھیں یہ کام بھی سونپا گیاتھاکہ وہ حکومت کے امیج کو بہتر کریں، جو کرپشن اور بیڈگورننس کے سنگین الزامات کاسامنا کررہی تھی۔ انھوں نے اپنی دورکا آغاز اس سوچ کو بدلنے سے کیا جو ان کے پیشرو کے دورمیں بنی تھی کہ وہ بڑی عمر کے باعث زیادہ سرگرم نہیں ہیں۔ مراد علی شاہ نے سیکریٹریٹ صبح 9بجے پہنچ کر امیج کو بہتر کرنا شروع کیا۔ اس کا مقصد سست بیو ر و کریسی کو الرٹ کرنا تھا۔ جب وہ جلدی جاتے تھے اور 9بجے کام شروع کرتے تھے تو انٹلیجنس نے انھیں مشورہ دیا کہ اپنا وقت تبدیل کرتے رہیں۔ دوئم، انھوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کا طریقہ اختیار کیا یعنی سڑکوں، ٹرانسپورٹ، سٹریٹ لائٹس، فلائےاوور، انڈرپاس وغیرہ کو بہتر کیا۔ لیکن ان کی حکومت ہیلتھ سیکٹر میں بھی بہتری لائی اور ایس آئی یوٹی اور ایدھی سنٹرجیسے اداروں کی بھی مدد کی، سپشلائزڈ فیلڈ میں اسپتال اور ٹراما سنٹر تعمیر کیے۔ لیکن سندھ میں سرکاری اسپتالوں کی حالت تاحال قابلِ رحم ہے۔ ہیلتھ اور بنیادی تعلیم کے میدان میں انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے زیادہ کچھ نہیں کیاگیا۔ 2013 میں جب سے پی پی پی اقتدار میں آئی ہے تواس کی قیادت کے ذہین میں جو ایک چیز تھی وہ ہی تھی کہ کراچی کو کس طرح حاصل کرنا ہے۔ اس کے لیے سندھ لوگل گورنمنٹ ایکٹ میں بڑی تبدیلیاں لائی گئیں، شہری حکومت کے اختیارات کم کیے گئے اور پھر ترقیاتی پراجیکٹس شروع کردیئےگئے۔ سندھ حکومت میں ایم کیوایم کو نہ شامل کرنے کا فیصلہ بھی کیاگیا۔ مرکزی سٹیک ہولڈرز کی جانب سے اسے زیادہ مزاحمت کاسامنا بھی نہیں کرنا پڑا، کیونکہ کراچی آپریشن کے باعث پارٹی کو خود کئی مشکلات کا سامنا تھا۔ گزشتہ 23ماہ میں مرادعلی شاہ کے ماتحت کئی ترقیاتی پراجیکٹس شروع کیے گئے ہیں، کچھ مکمل ہوچکے ہیں اور بہت سے نامکمل ہیں۔ اب ان کی مدت ختم ہورہی ہےتو میں ان سے وزیرِ اعلیٰ ہائوس میں یہ معلوم کرنے کیلئےملا کہ وہ اپنے دورِ حکومت کا دفاع کیسے کرتے ہیں اور 2018 میں ہونے والے الیکشن میں ان کی توقعات کیا ہیں۔ یہ ’آن دی ریکارڈ‘اور ’آف دی ریکارڈ‘ دونوں طرح کی گفتگوتھی اور میں یہاں صرف ’آن دی ریکارد‘ گفتگو دے رہاہوں۔ شاہ نے بتایا کہ ،’’ ہم نے کافی ترقیاتی کام کیے ہیں لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ ہم میڈیامیں اپنی ساکھ اس طرح بہتر نہیں کرسکے جس طرح پی ایم ایل نے پنجاب میں کی۔‘‘ دیگر وجوہات جو وزیراعلیٰ نے نہیں بتائی لیکن جو سندھ کی سیاست کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں،اس میں اندرونی اور بیرونی سیاسی مداخلت، میرٹ کے خلاف تقرریاں اور ترقیاں اور سب سے بڑھ کر ’ کرپشن‘ شامل ہے۔ حتیٰ کہ چند محکموں میں ریٹائرڈ افسران کئی سالوں سےکنٹریکٹ پرکام کررہے ہیں۔ شاہ نے خود مثال دی۔ انھوں نے کہا،’’میں پیشے کے اعتبار سے ایک انجینئرہوں لیکن سرکاری محکموں میں انجینئرز کے ساتھ کام کرنے کا میراتجربہ کافی مایوس کن ہے۔‘‘ ان کے پشرو سید قائم علی شاہ جو 1968 سے پارٹی میں ہیں اور غالباً 1970 کی اسلبمی سے چند زندہ ارکان میں سے ہیں، وہ بدقسمت رہے کیونکہ انھیں دوبار ہٹادیاگیا۔ 1989 میں انھیں آفتاب شہباز میرانی سے بدل دیاگیا۔ جبکہ 2015 میں سید قائم علی شاہ سے بدل دیاگیا۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آئندہ الیکشن کے بعد اگر پی پی پی نے اپنی پوزیشن دوبارہ حاصل کرتی ہے تو کیااس کی قیادت مراد علی شاہ پر اعتماد برقراررکھے گی یا کسی اور شاہ کی جانب دیکھے گی۔

تازہ ترین