• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انفرااسٹرکچر کو جدید بنانے کی اہمیت

کسی بھی ملک کو چلانے کے لیے انفرااسٹرکچر بنیادی ضرورت ہے۔آج کے جدید دور میں ہمیں اپنے گھروں ،دفاتر،صنعتوں،سڑکوں کے لیے بجلی چاہیے۔سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے، لے آنے کے لیے سڑکیں چاہئیں،اپنی مصنوعات کو غیرملکی دوست معاشی ممالک تک پہنچانے کے لیےبری ، بحری،فضا ئی روابط کے لیےشاہراہیں،بندرگاہیں اورہوئی اڈے چاہئیں ۔

اسی طرح ایک جدید قوم کوصاف ستھرا پینے کا پانی اور نکاسی آب کا ایک ایسا سسٹم درکار ہوتا ہے جو عوام کی صحت و صفائی کا لازمی جزو ہے۔ یہ جملہ امور انفرااسٹرکچر کے زمرے میں آتے ہیں،جو کسی بھی ملک کی سماجی و معاشی ترقی و استحکام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔اسی کی مضبوطی ترقی یافتہ اقوام کا شعار رہا ہے۔اسی لیے پاکستان میں بھی قومی بجٹ کا اسی فیصد انفرااسٹرکچر کی تعمیر و توسیع پر خرچ ہوتا ہے۔

کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی اور ترقی کی حالت عام طور پر اس کے بنیادی ڈھانچے کی طاقت پر منحصر ہے، چاہے وہ توانائی، ٹیلی مواصلات، پانی اور حفظان صحت، ٹرانسپورٹ یا تعلیمی شعبے سے تعلق ہو۔


1947 میں برطانوی بھارت کی تقسیم کے بعد، پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں اضافہ ہوا اور گزشتہ پانچ دہائیوں میں مسلسل ترقی ہوئی ہے۔عالمی بینک گروپ کے مطابق یہ بہتر بنانے کی شرح عوامی بنیادی ڈھانچے کے شعبوں کی اکثریت کے لئے بھی سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، یہ بہتر بنانے کی شرح پاکستانی شہریوں کے بنیادی ڈھانچے کی صورتحال کو بڑھانے میں ناکام رہی ہےاورملک کے غریب افراد کے حالات بدتر ہوئے ہیں۔

1 9 50 کے وسط میں، بنیادی ڈھانچہ اور بھاری صنعت میں سرمایہ کاری ایک زرعی پاکستان میں زراعت کی انقلاب کے ساتھ تھے یہاں تک کہ ایک امیر ہندوستان اور ایک جدید ریاست ہونے کے باوجودبھی اس کا مقابلہ نہیںکر سکتاتھا۔ پاکستان نے اپنے ریاستی اداروں اور صنعتوں کوملبے سے اٹھاکر یک جدیدو مستحکم اداروں اور صنعتوں کی صورت میں کامیابی سے ڈھالا۔ 

یہ بھارت کے مقابل جس کے پاس شہری آبادی کا بڑا حصہ تھا اور انفراسٹرکچر قائم تھا، پاکستان کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔تاہم سیاسی تنازعات کے ساتھ مشترکہ سماجی وجوہ نے اقتصادی خوشحالی کے ان اثرات کو پختہ ہونے نہیں دیا،آمدن کےمحدود ذرائع ،عدم مساوات کے بڑھتے رجحان ،افراطِ زر کے پھیلاؤ،انفراسٹرکچر کے زوال نےملک کو غربت کی طرف دھکیل دیا۔

آج پاکستان ایک کم - درمیانی آمدنی والا ملک ہے جس میں تقریبا بائیس کروڑ افراد بستے ہیں جواقوامِ متحدہ کے انسانی ترقی کے انڈیکس میں سب سے نچلے درجے پر فائز ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ دیہی و شہری آبادی میں غربت، آمدنی اور ترقیاتی بنیادی ڈھانچے میں فرق بھی برھتا جارہاہے۔جہاں شہر ترقی کرتے جارہے ہیں وہاں دیہات کے عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ساتھ ہی روزگار ک سلسلے میں شہروں کی طرف نقل مکانی نے شہروں پر آبادیوں کا دباؤ بڑھا دیا ہے جس کے باعث مکمل انفرااسٹرکچر کو بڑھتی ضرورت کے پیشِ نظر تعمیرِ نو کے عمل سے گزرنا پڑ رہا ہے۔

اس کے علاوہ، پاکستان کی حکومت کوترقیاتی منصوبوںمیں اضافے کےضمن میںقومی و بین الاقوامی تنقید کا سامناکرنا پڑرہا ہے کہ جب پاکستان میں موجودہ بنیادی ڈھانچہ ملک کے نقل و حمل ضروریات پوری کرنے کے قابل ہےتو پھرلاہور کو اسلام آباد سے منسلک کرنے کے لیے بلین ڈالر مالت کے ایم ٹو موٹر وے جیسے بڑے منصوبوںپر اتنی خطیر رقم کیوں خرچ کی گئی جو بڑی گاڑیاں رکھنے والے امیر اور مراعات یافتہ طبقے کو سہولت مہیا کی گئی ہے اور غریبوں کو نظر اندازکیا گیا ہے،جو سراسر امتیازی سلوک ہے۔

2030 تک پاکستان میں نصف سے زائد 250 ملین افراد شہروں میں مقیم ہوں گے۔اس سے ملک کے اقتصادی اور بنیادی ڈھانچہ کی ترقی کو اہمیت دینی ہوگی تاکہ شہری ترقی کی رفتار کو برقراررکھا جاسکے۔ شہریت کے دباؤ نے بڑے پیمانے پر پیدائش کی شرح اور دیہی منتقلی میں اضافہ کیا ہے، پاکستان کے تیزی سے بڑھتےہوئے شہروں کو بنیادی عوامی خدمات فراہم کرنے اور باشندوں کے لئے ملازمت فراہم کرنے میں حکومت کو کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق ہرآٹھ شہری باشندوں میں سے ایک قومی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔جب ملک کے دیہی علاقوں سے بہتر زندگی کی امید میں کم وسائل ،بےروزگار اور مفلوک الحال لوگوں نے شہروں کی طرف نقل مکانی شروع کی تو آلودگی کے باعث انہیں موسمیاتی تبدیلی کا سامنا کرنا پڑا۔اس افتاد کا پتہ ان کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ترقی و خوشحالی کی امید میں شہروں میں آکر محبوس ہوجائیں گے۔

تازہ ترین