اپریل کے آغاز میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام سے قائم ہونے والے پریشر گروپ نے چند روز پہلے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد کا اعلان کر دیا۔ آنے والے انتخابات میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذکے رہنما پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑیں گے۔ تحریک انصاف کے ساتھ اس اتحاد کی وجہ بیان کرتے ہوئے جنوبی صوبہ محاذ کے نوجوان رہنما مخدوم خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اور انکے مابین ایک معاہدہ تحریر پا گیا ہے جس کے مطابق، اقتدار میں آنے کے سو دن کے اندر پی ٹی آئی پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کے عمل کا آغاز کر دے گی۔ جنوبی پنجاب محاذ اور پی ٹی آئی کے مابین کسی قسم کی ڈیل کی افواہیں تو پہلے ہی روز سے گردش کر رہی تھیں،، عمران خان کے لاہور میں ہونے والے انتیس اپریل کے جلسے نے دونوں جماعتوں کو وہ موقع فراہم کر دیا جس کی بنیاد پر ان کا سیاسی الحاق ہو سکتا تھا،، لاہور کے جلسے میں عمران خان نے اپنے گیارہ نکات میں انتظامی بنیادوں پر نئے یونٹس بنانے کی جو بات کی تھی وہی اس اتحاد کی بنیاد بن گئی۔
بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ جنوبی پنجاب محاذ کو ایک قومی سیاسی جماعت سے الیکشن میں اتحاد کرنے کی ضرورت اس لئے بھی پیش آئی کہ اس اتحاد میں شامل کئی سیاسی شخصیات ایسی ہیں جو شاید کسی سیاسی جماعت کی سپورٹ کے بغیر اپنے حلقے میں کامیاب ہونے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ ن لیگ سے علیحدہ ہونے کے بعد ان سیاسی شخصیات کے لئے کسی نہ کسی صورت میں پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ حاصل کرنا ہی آنے والے انتخابات میں جیتنے کا واحدراستہ تھا۔ میرے نزدیک اسکے علاوہ بھی ایک بہت اہم وجہ نئے صوبوں کی تشکیل کے لئے آئین میں وضح کیا گیا طریقہ کار ہے جسکے باعث جنوبی صوبہ محاذ کو کسی بڑی سیاسی جماعت سے سیاسی الحاق کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 239(4)کے تحت کسی بھی صوبہ کی انتظامی حدود میں تبدیلی کے لئے پیش کئے جانے والے بل کو اس صوبے کی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت سے پاس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسکے بغیر قومی اسمبلی یا سینیٹ کی جانب سے پاس کئے جانے والے کسی بل کو صدر مملکت کے سامنے منظوری کے لئے پیش نہیں کیا جاسکتا۔ایک نئے صوبے کا مطالبہ کرنے والا جنوبی پنجاب محاذ اگر جنوبی پنجاب سے صوبائی اسمبلی کی تمام تر نشستیں بھی جیت لیتا تو بھی اسی صوبائی اسمبلی میں مطلوبہ تعداد حاصل نہ ہو پاتی۔ اسی لئے اس محاذ کے لئے یہ بہت ضروری تھا کہ اسے کسی بڑی سیاسی جماعت کی حمایت بھی حاصل ہو جائے جو کہ انتخابات کے بعد اقتدار میں آ کر جنوبی پنجاب صوبے کی تشکیل میں محاذ کی مدد کرے۔ اس سیاسی اتحاد سے جہاں جنوبی پنجاب محاذ والوں کو فائدہ ہوتا نظر آرہا ہے وہیں پاکستان تحریک انصاف بھی جنوبی پنجاب کے اضلاع میں مسلم لیگ نون کی نشستیںچھیننے کی پوزیشن میں آ گئی ہے،اب پی ٹی آئی کو امید ہے کہ اس اتحاد کے بعد وہ جنوبی پنجاب سے پچیس سے تیس سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
اس سب کے دوران ریاست بہاولپور کی بحالی کی باتیں بھی چل نکلی ہیں۔ پچھلے دنوں نواب آف بہاولپور نے بہاولپور صوبہ کی بحالی کا مطالبہ بھی کر دیا ۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو یہ مطالبہ جنوبی پنجاب صوبہ کے مطالبے سے بہت پہلے کا ہے۔مجھے یاد ہے کہ انیس سو ستر کے انتخابات میں بھی بہاولپور صوبہ بحالی موومنٹ نے اس وقت کافی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی،، صوبہ بحالی کا مطالبہ اس قدر مقبول تھا کہ اسکے سامنے پیپلز پارٹی کا روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بھی بے بس نظر آیا۔ بہاولپور صوبہ بحالی والوں نے ماضی میں چلنے والی سرائیکی صوبےکی تحریکوں سے بھی خود کو الگ رکھا ہے، بلکہ بہت سے بہاولپور کے رہنما تو اپنی زبان کو سرائیکی کی بجائے ریاستی کہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی لئے ماضی میں انہوں نے سرائیکی زبان کی بنیاد پر نئے صوبے کی تشکیل کی کبھی سپورٹ نہیں کی۔ اگرچہ اس با ر جنوبی پنجاب کے لئے ایک علیحدہ صوبے کی ڈیمانڈ زبان کی بجائے انتظامی امور کوبنیاد بنا کر کی جا رہی ہے لیکن پھر بھی ایسا لگتا ہے کہ بہاولپور کی سیاسی اشرافیہ اس بار بھی جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی سپورٹ کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔بلکہ وہ ون یو نٹ سے قبل موجو د بہا ولپو ر صو بہ کی بحا لی چاہتے ہیںاور یہ ان دونو ں فر یقین میں بنیا دی اختلا ف ہے پی ٹی آئی کا یہ دعو یٰ کہ 100دنو ں میں نئے صو بو ں کے معا ملا ت حل کر لیں گے ایسا دعو یٰ ہے جس کی فی الو قت مضبو ط بنیاد نظر نہیں آتی ۔
میں خود اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا حامی ہوں۔ لیکن کیا نئے صوبے بنانے سے ہم اختیارات کو عوامی نمائندوں تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ کیا صوبائی دارالحکومت لاہور کی بجائے ملتان لے جانے سے لیہ کے کسان کے لئے زندگی آسان ہو جائے گی؟ ایک نئے صوبے کے لئے جس انتظامی ڈھانچے کی ضرور ت درپیش آئے گی اسکے اخراجات کیسے برداشت کئے جائیں گے؟ ایک نیا چیف منسٹر، ایک نیا گورنر،، بیوروکریسی کے لئے ایک نیا سیکرٹریٹ، ایک نئی صوبائی اسمبلی اور اسکے اخراجات۔یہ سب خرچ کرنے کے بعد کیا گارنٹی ہے کہ نئے صوبے کا تمام تر بجٹ ملتان میں ہی خرچ نہیں ہو جائے گا بلکہ بھکر میں رہنے والوں کو بھی انکا جائز حصہ ملے گا؟
میرے نزدیک ان تمام انتظامی معاملات کو بہتر انداز میں ہینڈل کرنے کے لئے لوکل باڈیز کے سسٹم کو توانا کرنے کی ضرورت ہے۔اگر صوبے اختیارات کو نچلی سطح پر لے جانے کے معاملے پر تھوڑا سا سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو انتظامی بنیادوں پر نئے یونٹس بنانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ این ایف سی کی طرز پر صوبائی ایوارڈز پر عمل درآمد کیا جائے۔ لوکل باڈیز کو نہ صرف انتظامی امور چلانے کی خودمختاری حاصل ہو بلکہ ڈسٹرکٹ کی سطح پر صوبائی ایوارڈز فنڈز کے ذریعے تقسیم کئے جائیں۔ ڈسٹرکٹ بھکر میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے بارے میں ڈسٹرکٹ بھکر کی لوکل منتخب لیڈرشپ ہی فیصلہ کرے۔ صرف اسی صورت ہی اقتدار عوام کی پہنچ میں آسکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)