عابد محمود عزام
کسی بھی مقصد میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے مستقل مزاجی شر ط اوّل ہے، تاریخ گواہ ہے کہ، وہی افراد اپنے خوابوں کی تکمیل حاصل کرپاتے ہیں، جو جہد مسلسل سے کام کرتے ہیں۔ اگر کسی انسان کو سفر کرکے ہزاروں میل دور منزل تک پہنچنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستقل قدم اٹھاتا جائے، اگر وہ قدم نہیں اٹھاتا یا راستے میں تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے تو کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ چین کے عظیم قائد ماؤزے تنگ نے تاریخ ساز لانگ مارچ کا آغاز کرتے ہوئے ’’انقلابیوں‘‘ سے کہا تھا’’ہزاروں میل کا فاصلہ ایک قدم آگے بڑھنے سے کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔‘‘ بہت سے نوجوان کام یاب افراد کو دیکھ کر ان کےجیسا بننے اورمشہور ہونے کی خواہش تو کرتے ہیں، لیکن یہ نہیں سوچتے کہ کسی بھی اعلیٰ مقام پر بنا محنت کیےنہیں پہنچا جا سکتا۔ اعلیٰ عہدے پہ فائز شخص یک دم کسی منزل پر نہیں پہنچتا بلکہ وہاںتک پہنچنے کے لیے طویل جدوجہد ، قربانیاں اور محنت کرنی پڑتی ہے۔ نسل نو کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اگر وہ بھی کسی شخصیت سے مرعوب اور ان کے جیسا بننا چاہتے ہیں،تو ان ہی کی طرح تسلسل سے محنت بھی کرنی پڑے گی۔ کہتے ہیں، زندگی میں آگے بڑھنے اور کام یاب ہونے کے لیےمقصد حیات کا ہونا لازمی ہے،مگر کسی بھی کام میںفتح یاب ہونے کے لیے شوق اور ہمت کے ساتھساتھ یکسوئی اور محنت میں تسلسل کا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ،ہمارے نوجوان کسی بھی کام کے آغاز میں تو جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ یہ مدہم ہوتا جاتا ہے، کسی بھی کام کی ابتدا ہی میں کام یابیاں مقدر نہیں بنتیں، کام کو پائے تکمیل تک پہنچانے اور کام یاب ہونے کے لیے ان تھک محنت کرنی پڑتی ہے، مگر نسل نو کا المیہ ہے کہ ،وہ فی الفور مثبت نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں ، جب انہیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے تو وہ ہمت ہار کر مایوسیوں کی تاریکی میں گم ہو جاتے ہیں۔ یاد رکھیے! خواب پورےکرنے اور ان کی تعبیر حاصل کرنے کے لیےنیندیں وارنی پڑتی ہیں، کئی مرتبہ ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اگر راستے میں آنے والی پریشانیوںاورناکامیوں کی پروا کیے بغیر آگے بڑھتے جائیں گے توآپ کو منزل مقصود پرپہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔آج کل میڈیا کی مقبولیت اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے کئی نوجوان لکھاری بننا چاہتے اور بڑے کالم نگاروں کی طرح مقبولیت حاصل کرنےکی خواہش کا بھی اظہار کرتے ہیں لیکن دو ،چار تحریریں مسترد ہونے کے بعد ہی ہمت ہار جاتے ہیں اور لکھنا چھوڑ دیتے ہیں، حالاں کہ جب تک آپ کا مطالعہ اچھا نہیں ہوگا،تب تک تحریر میں نکھار نہیں آسکتا، مگر اس طرف تو کسی کا دھیان ہی نہیں ہے ۔ ایک اچھا لکھاری بننے کے لیے باقاعدگی سے مطالعہ کرناانتہائی ضروری ہے۔اسی طرح بہت سے طالب علم، امتحان سے چند روز قبل ہی پڑھائی شروع کرکے یہ سوچتے ہیں کہ وہ نمایاں نمبرز سے کام یابی حاصل کرلیں گے، جب رزلٹ آنے پر ان کے مطلوبہ نمبرز نہیں آتے تو شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری محنت رنگ نہیں لائی، حالاں کہ سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ، جب تک پورا سال مسلسل محنت نہیں کی جائے گی تو امتحان سے چند دن قبل دن، رات پڑھنا بھی کسی کام نہیں آسکتا۔ کام یابی کا راز ہمت اور شوق کے ساتھ مستقل مزاجی میں پوشیدہ ہے۔
اس بات کا اندازہ ایسا لگایا جا سکتا ہے کہ ، جب کسی پتھر پرایک ہی جگہ مسلسل پانی گرتا رہتا ہے، تواس میں شگاف پیدا ہوجاتا ہے، بالکل اسی طرح اگر کسی کام کو کرنے کا پختہ ارادہ کرلیںاور جاں فشانی سے اسے مکمل کرنے کی تگ و دو میں لگ جائیں تو ایک نہ ایک دن کام یابی ضرور مقدر بنتی ہے۔عصر حاضر میں دیکھا گیا ہے کہ، نوجوان ذرا سی ناکامی پر مایوس ہو کر ہمت ہار جاتے ہیں،کوئی کام تسلسل سے نہیں کرتے، مگر یہ حقیقت ہے کہ،جوافراد مستقل مزاج نہیں ہوتے، وہ کبھی منزل نہیں پاتے۔ ان کے ارادے بدلتے رہتے ہیں،اگرچہ انسانی فطرت میں متبادلات کا عنصر ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے اور ہونا بھی چاہیے، لیکن بعض اوقات باربار متبادل راستے ڈھونڈنا منزل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ تکلیف یا مصیبت میں متبادل راستہ کام آسکتا ہے۔
یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ قدرت مستقل مزاج اور محنتی انسان پر ضرور مہربان ہوتی ہے۔ذرا سوچیں کہ اگر سائنس دان پہلا تجربہ ناکام ہونے پر ہی ہمت ہار جائیں اور محنت کرنا چھوڑ دیں تو کیا دنیا میں نت نئی ایجادات ہو سکیں گی؟ آج ہم جب ایجادات کے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے ان کے موجدوں نے ان گنت بار ناکامیوں کا سامنا کیا ہوگا، ہزارہا تجربات کیے ہوں تب کہیں جا کے کام یابی ان کے نصیب میں آئی ۔صرف جہد مسلسل ہی کا ثمر ہے کہ آج ہم ایک آزاد مملکت میں سانس لے رہے ہیں۔ آج کا انسان زمین ، آسمان، کوہسار و صحرا اور ہوا و پانی غرض ہر شے کو تسخیر کرچکا ہے اور یہ سب کچھ مستقل مزاجی اور عزمِ مصمم کی بہ دولت ممکن ہو پایاہے۔دنیا میں کوئی کام ناممکن نہیں۔ مستقل محنت سے ہر ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اگر کسی موڑ پر اس کی محنت اور ہمت کا شیرازہ بکھربھی جائے، تب بھی ناامیدی کے اندھیر ے کو جہدِ مسلسل سے روشن رکھیں ۔اس طرح ترقی اور کام یابی آپ کے قدم ضرور چومے گی۔