• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوشل میڈیا: محتاط رہیں موبائل فون کے کیمرے کی آنکھ آپ کو ہر وقت دیکھ رہی ہے

سوشل میڈیا: محتاط رہیں موبائل فون کے کیمرے کی آنکھ آپ کو ہر وقت دیکھ رہی ہے

ہر عام و خاص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ جدید ٹیکنالوجی کے باعث مواصلاتی نظام تیز تر ہو چکا ہے، آج دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے دوست احباب یا عزیز و اقارب سے رابطہ کرنے کے لیے ہفتوں انتظار نہیں کرنا پڑتا بلکہ اب ان سے رابطہ صرف ایک کلک کی دوری پر ہے۔ یہاں آپ نے ایک کلک کیا اور کوسوں دور بیٹھے شخص سے رابطہ ممکن ہو جاتا ہے۔ آپ اس شخص سے صرف بات ہی نہیں کرسکتے بلکہ بذریعہ وڈیو دیکھ بھی سکتے ہیں۔

بدلتے دور اور بڑھتی ہوئی سہولتوں کے باعث پیغام رسائی کے ان ذرائع کو صارفین نے تفریح مقاصد کے لیے بھی استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ ایک وقت تھا جب فی ایس ایم ایس کی قیمت تین روپے بمعہ ٹیکس ہوا کرتی تھی، مگر آج وہی ایس ایم ایس مختلف پیکچز کی بدولت ایک روپے سے بھی کم کا ہوگیا ہے۔ یہ ہی سلسلہ آن لائن پیغامات کا بھی ہے۔ پہلے مہنگے انٹرنیٹ پیکیچز کی وجہ سے صارفین اس کا استعمال محدود اور ضرورت کے تحت کیا کرتے تھے۔ 

مگر آج یہ ہی سہولت تقریباً مفت میں صارفین کے لیے دستیاب ہے، جس کا ایک اثر یہ ہوا ہے کہ بیشتر صارفین اپنا زیادہ تر وقت سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر دور بیٹھے عزیز و اقارب کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے گزارتے ہیں یا پھر اپنے دوست احباب کے ساتھ حالات حاضرہ پر بنائی گئی پوسٹس اور وڈیوز کو شئیر کر کے۔ لیکن انسانی فطرت تبدیلی پسند ہے۔ یکسانیت اسے بور کردیتی ہے، اسی وجہ سے اسے کچھ نیا کرنے کی جستجو رہتی ہے۔ کوئی نئی چیز دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے کا جنون ہوتا ہے، اور اسی جنون کو سر کرنے کی خاطر وہ اپنے ارد گرد موجود ہر عام و خاص چیزوں اور واقعات کی عکس بندی کرکے سوشل میڈیا پر ڈالتا ہے، تاکہ ان کا حلقہ احباب اسے دیکھ سکے، اور اس پر کمیٹس کریں۔ 

مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر ان تصاوی، وڈیوز یا پیغامات کی وجہ سے کسی کو جیل جانا پڑا تو کسی کی ملازمت چلی گئی یا پھر ان کے عہدے میں تنزولی کر دی گئی۔ حال ہی میں ایک خبر کردش کر رہی تھی کہ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کے پیغامات سے خوف کا شکار ہوگئے ہیں اور ایک پاکستانی سیاست دان کے مخالفین نے انہیں اڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ان کی تصویر کو ہندو دیوتا کے چہرے پر چسپاں کردیا، گوکہ اعلیٰ حکام یہ پتہ لگانے میں مصروفِ عمل ہیں کہ یہ کس کی کارستانی ہے، اس کے ساتھ جو ہو سو ہو، لیکن زیر نظر مضمون میں ہم قارئین کی دلچسپی کے لیے ایسی ہی چند مثالیں ان کے ساتھ شئیر کر رہے ہیں، جن میں وڈیوز یا تصاویر وائرل ہونے پر کسی کو گرفتار کرلیا گیا، تو کسی کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔

ایک وڈیو کے باعث فلوریڈا کی جج کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے

سوشل میڈیا: محتاط رہیں موبائل فون کے کیمرے کی آنکھ آپ کو ہر وقت دیکھ رہی ہے

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک وڈیو وائرل ہونے کے بعد فلورڈا سے تعلق رکھنے والی خاتون جج ’’میریلی اہرلک‘‘ کو ریٹارمنٹ سے ڈھائی ماہ قبل ملازمت سے فارغ کر دیا گیا، ہوا کچھ یوں تھا کہ، رواں برس15 اپریل کو وائرل ہونے والی وڈیو میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ خاتون جج، گھریلو تنازع میں ملوث خاتون کو بری طرح لعنت ملامت کر رہی ہیں۔ ملزمہ خاتون کا نام ’’سینڈرا فائے ٹویگز‘‘ تھا، جنہیں پنکھے کی بیٹری پر ہونے والے گھریلو جھگڑے میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔15 اپریل کو ان کی کورٹ میں پہلی پیشی تھی، پیشی کے دوران انہیں پولیس اہل کاروں کی جانب سے ویل چیئر پر کورٹ میں لایا گیا۔ جس سے واضح تھا کہ خاتون شدید بیمار ہیں۔ دوران پیشی سینڈرا، نے جج سے اپیل بھی کی کہ، مجھے پھیپھڑوں کا مرض لاحق ہے، میرا علاج کرایا جائے، جس پر جج برہم ہوگئیں اور کہا کہ، ’’وہ یہاں ان کے پھیپھڑوں کا مسئلہ حل کروانے نہیں آئی ہیں بلکہ گھریلو تنازعے کا حل ان کی ترجیح ہے‘‘۔ 

پیشی کے اگلے روز سینڈرا کی بہن ’’اینا ٹویگز‘‘ اسے ضمانت پر رہا کروا کر گھر لے آئیں، بعدازاں شدید ذہنی دباؤ کے باعث 18 اپریل کو سینڈرا کی موت واقع ہوگئی۔ اینا ٹویگز نے اپنی بہن کی موت کا الزام، جج میریلی اہرلک پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ، یہ جانتے ہوئے کہ سینڈرا ذیابطس، دمہ اور پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا اور شدید بیمار ہے، جج نے ان کے ساتھ غیر انسانی رویہ اختیار کیا، جس کے باعث ان کی بہن شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر دنیا سے چلی گئی۔ اس وڈیو کو لمحہ بھر میں ہزاروں بار دیکھا اور شیئر بھی کیا گیا، جس کے نتیجے میں چیف جج ’’جیک ٹوٹر‘‘ نے اس وڈیو کا نوٹس لیتے ہوئے میریلی کو ملازمت سے فارغ کر دیا اور کہا کہ، ’’تمام شہری برابر ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کن حالات میں کورٹ میں پیش ہوئے ہیں، کسی بھی جج کو ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہم نے ایسا رویہ پہلے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی ہم مستقبل میں ایسا دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

ہسپانوی سیاست دان اور میڈرڈ کمیونیٹی کی صدر کرسٹینا سیفیونٹس اپنی وڈیو لیک ہونے کے بعد عہدے سے مستعفی

سوشل میڈیا: محتاط رہیں موبائل فون کے کیمرے کی آنکھ آپ کو ہر وقت دیکھ رہی ہے

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اسپین کی میڈرڈ کمیونیٹی کی 53 سالہ صدر کرسٹینا سیفیونٹس نے، سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بُک پر2011 کی ایک وڈیو رواں برس منظر عام پر آنے کے بعد عوامی دباؤ کے پیش نظر اپنے عہدے سے 25اپریل2018 کو استعفیٰ دے دیا۔ وڈیو میں واضح طور پر انہیں شاپنگ مال سے بڑھتی عمر کے اثرات کو کم کرنے والی دو کاسمیٹک کریم چراتے دیکھا گیا۔ کرسٹینا، اسپین کی حکمراں جماعت پارٹیڈو پاپولر کی اہم رہنما ہیں، اُن پر صرف چوری ہی نہیں بلکہ جعلی ڈگری کے حوالے سے بھی خبریں گردش کر رہی تھیں۔ جس کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی جماعت اور عوام کی جانب سے ان پر مستعفی ہونے کا شدید دباؤ تھا، مگر انہوں نے استعفیٰ دینے سے انکار کردیا تھا، تاہم شاپنگ مال میں چوری کی وڈیو منظر عام پر آنے کے بعد کرسٹینا نے شرمندگی کے باعث اپنا استعفیٰ خود وزیراعظم ’’ماریانو راجوئے‘‘ کو پیش کردیا۔

کینسر کی جھوٹی خبر پھیلا کر پیسے بٹورنے والی خاتون سوشل میڈیا پر تصاویر اپ لوڈ کرنے سے گرفتار

سوشل میڈیا: محتاط رہیں موبائل فون کے کیمرے کی آنکھ آپ کو ہر وقت دیکھ رہی ہے

قارئین کو پاکستانی، ایس ایم ایس والی صبا تو یاد ہوگی ناں، جو اسپتال میں کسی ایمرجنسی کے بہانے سے موبائل کریڈٹ لوڈ کروانے کا کہتی اور وعدہ بھی کرتی تھی کہ بعد میں کریڈٹ واپس کر دے گی۔ مگر کریڈٹ ملنے کے بعد یہ جا وہ جا، ایسا ہی کچھ ہوا آسٹریلیا میں بھی، مگر آسٹریلوی صبا یعنی ’’ہینا ڈکنسن‘‘ اپنے انجام تک پہنچی۔ 24 سالہ ہینا ڈکنسن نے اپنے والدین کو بتایا کہ، ’’اسے کینسر ہے اور بیرون ملک علاج کروانے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے‘‘۔ اس کے والدین نے اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب سے عطیہ لے کر اسے علاج کے لیے 42 ہزار آسٹریلین ڈالر دیئے، نیز ایک شخص نے اپنے کینسر کے علاج کے بعد ہسپتال سے رخصت ہوتے ہوئے دس ہزار آسٹریلین ڈالر کی مدد کی۔ ایک اور شخص نے چار بار اُسے پیسے دیے، مگر ہینا نہ تو بیمار تھی اور نہ ہی علاج کے لیے بھاری رقم درکار تھی۔ 

در حقیقت اسے اپنے تفریحی مقاصد پورے کرنے کی خاطر پیسے چاہیے تھے۔ رقم ملنے پر ہینا نے اس کا بیشتر حصہ چھٹیوں اور پارٹیوں پر خرچ کیا۔ اس فریب کا پردہ اس وقت فاش ہوا جب ایک مدد کرنے والے شخص نے ہینا کی فیس بک پر تصاویر دیکھ کر پولیس سے اپنے شبے کا اظہار کیا۔ تفتیش کے بعد اسے گرفتار کر لیا گیا۔ عدالت میں پیشی کے بعد جج نے اس واقعے کو ’’قابل نفرت‘‘ قرار دیا۔ اس پر مقدمہ چلا۔ میلبرن مجسٹریٹ کی عدالت میں دھوکے سے رقم حاصل کرنے کے سات الزامات عائد کیے گئے۔ فیصلہ سناتے ہوئے جج ’’ڈیوڈ سٹارویگی‘‘ نے کہا کہ، ہینا ایسے طرز عمل کی مرتکب ہوئی ہے، جس نے ’’لوگوں کا دل توڑ دیا ہے‘‘۔ اُن کی مدد کرنے کی خواہش اور سماجی یقین کو توڑا ديا ہے اور ایسے لوگو ں کے یقین کو توڑا گیا ہے، جنہوں نے محنت سے کمائی ہوئی رقم سے اس کی مدد کی تھی۔‘‘

جھوٹی کہانی بیان کرنے پر 19 سالہ لڑکی گرفتار

سوشل میڈیا: محتاط رہیں موبائل فون کے کیمرے کی آنکھ آپ کو ہر وقت دیکھ رہی ہے

19 سالہ ’’یاسمین سوید‘‘ نے گزشتہ برس یکم دسمبر 2016 کو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی رپورٹ درج کروائی، جس کے مطابق اس کا کہنا تھا کہ، نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے نیویارک سب وے پر اسے ہراساں کیا گیا، تین آدمیوں نے دہشت گرد کہتے ہوئے ملک سے نکل جانے اور حجاب اتارنے کا کہا، مگر جب اس نے انکار کیا تو اس کا حجاب پھاڑنے کی کوشش کی۔ اس دوران وہاں پر موجود افراد نے اس معاملے میں دخل اندازی نہیں کی۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان تین آدمیوں میں سے ایک شخص نے اس کا بیگ پکڑا جس کی وجہ سے اس کی زپ ٹوٹ گئی‘‘۔ رپورٹ درج کروانے کے بعد اگلے روز یاسمین نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بُک پر ایک مشتبہ اسٹیٹس اپ ڈیٹ کیا، جس میں اس نے ایک روز قبل پیش آنے والے واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ، ’’اس واقعے نے میرا دل توڑ دیا ہے، کیوں کہ وہاں موجود بہت سے افراد مجھے ہراساں کرتے ہوئے دیکھے رہے تھے۔‘‘ اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کے ساتھ ہی یہ وائرل ہوگیا اور ٹرمپ کے حامیوں اور مخالفین کے درمیاں سوشل میڈیا پر جنگ جھڑ گئی۔ 

معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے تفتیشی اہل کاروں نے اس واقعے کا فوری نوٹس لیا اور واقعے میں ملوث ملزمان کی چھان بین شروع کر دی۔ لیکن انہیں یاسمین پر اس وقت شبہ ہوا جب انہیں واقعے کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت نہ مل سکے۔ نیز اسی سال9 دسمبر کو یاسمین کی گمشدگی کی خبریں امریکی میڈیا پر نشر ہوئیں، تاہم خبر نشر ہونے کے ایک روز بعد ہی اس کا پتہ چل گیا۔ بعدازاں یاسمین نے پولیس کے سامنے تسلیم کر لیا کہ، اس نے اس رات بہت زیادہ شراب پی رکھی تھی اور من گھڑت کہانی کو عذر کے طور پر پیش کیا۔ یاسمین کو پولیس اہل کاروں نے 14 دسمبر کو گرفتار کر کے مین ہٹن کریمنل کورٹ میں پیش کیا، جہاں یاسمین نے اعترافِ جرم کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ اپنے والدین کو پریشانی سے بچانے کے لیے اس نے غلط بیانی سے کام لیا تھا۔ کورٹ میں وہ بغیر کسی نقاب کے پیش ہوئی اور سر کے بال بھی کٹوا رکھے تھے۔ یاسمین سوید پر جھوٹی رپورٹ درج کروانے اور سرکاری انتظامیہ پر رکاوٹ ڈالنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔

پرواز کی تاخیر کی وڈیو فیس بُک پر ڈالنے والا ملازمت سے فارغ

سوشل میڈیا: محتاط رہیں موبائل فون کے کیمرے کی آنکھ آپ کو ہر وقت دیکھ رہی ہے

16 ستمبر 2014 کو کراچی سے اسلام آباد جانے والی قومی آئر لائن ’’پی آئی اے‘‘ کی پرواز تقریباً اڑھائی گھنٹے تاخیر کا شکار تھی، جس پر مسافروں نے عملے کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ اسی اثناء میں دو سیاست داں ایک کے بعد ایک جہاز میں سوار ہوئے تو وہاں موجود مسافروں نے انہیں تاخیر کا باعث سمجھتے ہوئے، تنقید کا نشانہ بنایا اور طیارے سے اُترنے پر مجبور کردیا۔ ان میں ایک مسلم لیگ (ن) کے جب کہ دوسرے پیپلز پارٹی کے سینیٹر تھے۔ اس پورے واقعے کو عکس بند کرنے اور وی آئی پی کلچر کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کرنے والوں میں مبینہ طور پر ارجمند حسین سب سے آگے تھے۔ انہوں نے اس واقعے کی وڈیو بنانے کے بعد اسے اپنے فیس بُک پیچ پر اپ لوڈ کر دیا جو تیزی سے وائرل ہوگئی۔ واضح رہے کہ، ارجمند اظہر حسین ایک نجی کوریئر کمپنی میں جنرل مینیجر کے عہدے پر فائض تھے۔ مگر اس تنازع کے سامنے آنے کے بعد انہیں نوکری سے نکال کر دیا گیا۔ جس پر انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے برطرفی کو اسی معاملے سے جوڑتے ہوئے کہا کہ، ایسا اثر و رسوخ رکھنے والوں کے خلاف احتجاج بلند کرنے کی وجہ سے ہوا۔

ارجمند حسین کی برطرفی کے بعد ان کے حامیوں اور مداحوں نے ان کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے فیس بُک پیچ تشکیل دیا، ان کا حکومت اور نجی کمپنی سے مطالبہ تھا کہ ارجمند حسین سے معافی مانگی جائے اور انہیں ملازمت پر دوبارہ فائض کیا جائے۔ اس پیچ کے گیارہ ہزار سے زائد فالورز تھے۔ بعدازاں اس ادارے کا کہنا تھا کہ ارجمند حسین کی برخاستگی کا پی آئی اے کے واقعے سے کوئی تعلق نہیں اور یہ فیصلہ میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا۔ جب کہ پی آئی نے بھی بعد میں بیان میں وضاحت کی تھی کہ پرواز تکنیکی خرابی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی تھی۔

سوشل میڈیا پر ناروا سلوک کی وڈیو ڈالنے کے بعد بھارتی بٹالین فوجی کو پلمبر بنا دیا گیا

سوشل میڈیا: محتاط رہیں موبائل فون کے کیمرے کی آنکھ آپ کو ہر وقت دیکھ رہی ہے

بھارتی فوجی اپنے افسران کے برے سلوک سے پریشان ہیں، انہیں ایکس سروس مین کا کوٹا ملتا ہے نہ کھانے کو بہتر خوارک، یہ ہی وجہ ہے کہ بھارتی فوجی یا تو خودکشی کرلیتے ہیں یا بھاگ کر پاکستان آجاتے ہیں۔ ارے یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ ان جذبات کا اظہار خود بھارتی افواج کے نوجوان وقتاً فوقتاً وڈیو پیغامات کے ذریعے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر کرتے رہتے ہیں۔ آپ کو 2016 کے وہ وڈیوز تو یاد ہوں گی جن میں بھارتی فوجی ’’تیج بہادر یادیو‘‘ نے خود کو بارڈر سکیورٹی فورس کی 29 بٹالین کا فوجی بتایا تھا، اس نے فوجی وردی پہن رکھی تھی اور وہ ایک برفیلے پہاڑ کے سامنے کھڑا تھا۔ ایک ویڈیو میں اس نے بتایا کہ، ’’ہم صبح چھ بجے سے شام پانچ بجے تک کھڑے ہو کر ڈیوٹی دیتے ہیں، کوئی ہماری حالت کے بارے میں نہیں بتاتا۔ میں حکومت کو قصور وار نہیں ٹھہراتا وہ ہمارے لیے سب کچھ کرتی ہے لیکن ہمارے افسر سب فروخت کر کے کھا جاتے ہیں اور ہمیں کچھ نہیں ملتا بعض اوقات کچھ فوجی بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔‘‘

اگلی ویڈیو میں وہ ناشتہ دکھاتا اور کہتا ہے کہ، ’’ناشتے میں جلا ہوا پراٹھا اور چائے ملتی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں‘‘۔ پھر وہ ایک اور ویڈیو میں دوپر کا کھانا دکھاتا ہے جس میں چند روٹیاں اور پتلی دال ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ، دال میں لہسن، پیاز تک نہیں ہوتا، کئی روز دال اور روٹی ہی دوپہر کے کھانے میں دی جاتی ہے۔ بھارتی فوجی جوانوں کی ویڈیوز وائرل ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انڈیا کے بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا تھا کہ، ’’میں نے بارڈر سکیورٹی فورس کے جوان کی وڈیو دیکھ کر ہوم سیکریٹری سے کہا ہے کہ اس حوالے سے بی ایس ایف سے رپورٹ لیں اور اس پر مناسب ایکشن لیں‘‘۔ بعد ازاں ناقص خوراک کی ویڈیو بنانے والے تیج بہادر یادیو کو پلمبر بنا دیا گیا تھا۔ صرف تیج بہادر یادیو ہی نہیں بلکہ ایک فوجی جوان ’’رائے میتھیو ‘‘ نے افسران کے برے سلوک کے باعث خودکشی کرلی تھی، جب کہ ’’چندو بابو لال‘‘ اپنے فوجی کمانڈرز سے تنگ آکر بھاگ گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر بھارتی جوانوں کے بڑھتے ہوئے ویڈیو پیغامات کے پیش نظر بھارتی آرمی چیف جنرل بپن نےاپنے جوانوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے سے روک دیا تھا، لیکن شکایات کا سلسلہ اس پابندی کے باوجود بھی بدستور چلتا رہا مگر طریقہ بدل گیا جس میں سکھ فوجیوں نے گروپ کی صورت میں شکایت کی ویڈیو سوشل میڈیا پرڈال دی تھی۔

تازہ ترین