محمد ہمایوں ظفر
بلاشبہ، دینِ اسلام کا عمومی مزاج یہی ہے کہ جلدبازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے اور بردباری اللہ کی طرف سے، مگر اسلام میں پانچ باتوں میں جلدی کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔اوّل، مہمان کے سامنے کھانا پیش کرنے میں ۔دوم، مُردے کو دفنانے میں۔ سوم، قرض کی ادائیگی میں۔ چہارم، گناہ کے بعد توبہ میں اور پنجم، نکاح میں۔ ارشاد نبوی ؐ کے مطابق، مُردے کی تدفین میں ممکنہ حد تک جلدی کا حکم ہے۔
تاہم، بعض اضطراری صورتوں میں میّت کی فوری اوربروقت تدفین ممکن نہیں ہوتی،تو ایسی صورت میں چاروناچار میّت کے لواحقین اپنے پیاروں کی میّتیں ’’سردخانے‘‘ میں رکھوانے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ موجودہ ترقی یافتہ دَور، ہر شعبۂ زندگی میں باقاعدہ منصوبہ بندی کا محتاج ہے اور اسی لیے دنیا کے مختلف ممالک میں قدرتی آفات اور ناگہانی حادثات کی صورت میں موت سے ہم کنار ہونے والے افراد کی لاشوں اور میتّوں کو وقتی ضرورت کے تحت محفوظ رکھنے کے لیے باقاعدہ جدید طرز کے سردخانے قائم کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر اوقات اچانک انتقال کرجانے والوں کے ان لواحقین کی، جو بیرونِ شہر یا بیرونِ ملک مقیم ہوں، واپسی تک یا میّت کی ایک شہر سے دوسرے شہر یا دوسرے ملک منتقلی کی صورت میں، میّت کو عارضی طور پرسرد خانوں ہی میں رکھوایا جاتا ہے۔
وطنِ عزیز، پاکستان میں بھی مختلف شہروں میں سرد خانے موجود ہیں، لیکن یہ نہ تو جدید سہولتوں سے آراستہ ہیں اور نہ ہی مقامی آبادی کی ضرورت کے لحاظ سے کافی، بالخصوص کروڑوں کی آبادی کاشہر، کراچی جہاں طب و صحت سمیت بہت سی بنیادی سہولتوں سے بہت حد تک محروم ہے، وہیں سرکاری سطح پر سردخانوں اور مُردہ خانوں کی شدید قلّت کا بھی شکار ہے۔ مختلف فلاحی و سماجی تنظیموں کے ماتحت ہی شہر میں چند سرد خانے قائم ہیں، جن میں ’’ایدھی فائونڈیشن‘‘ سرِفہرست ہے۔ اس کے شہر میں تین سرد خانے سہراب گوٹھ، کورنگی اور موسیٰ لین، لیاری میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، چھیپا، خدمتِ خلق فائونڈیشن اور چند دیگر فلاحی اداروں کے سرد خانے بھی خدمات فراہم کررہے ہیں، لیکن آبادی کی ضرورت کے لحاظ سےیہ تعدادخاصی کم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ 2015ء میں جب کراچی میں گرمی کی شدید لہر آئی اور لگ بھگ 1200افراد اس ناگہانی قدرتی آفت کی نذر ہوگئے، تو متعدد افراد کے لیے مُردہ خانوں/ سرد خانوں میں جگہ ہی نہ تھی، نتیجتاً شہر بھر میں ایک ایمرجینسی کی صورت پیدا ہوگئی۔ اور اسی افسوس ناک صورت حال سے متاثر ہوکر دو افراد تصویر حسین عابدی اور حسن اختر نقوی نے رضاکارانہ بنیاد پر کراچی کے علاقے ’’امام بارگاہ، شاہ نجف مارٹن روڈ‘‘ پر ایک جدید طرزکے سردخانے کے قیام کا فیصلہ کیا۔ گزشتہ دنوں ہم نے اس ادارے ’’سفینۃ المومنین ٹرسٹ ‘‘ کا دورہ کیا اور اس کے منتظم، حفاظت حسین رضوی سے سرد خانے میں موجود سہولتوں سے متعلق گفتگو کی۔
سردخانے کے منتظم نے بتایا کہ ’’یہاں جدید قسم کے پلانٹس اٹلی سے منگوا کر نصب کیے گئے ہیں، جن میں شہر کے کسی بھی علاقے سے تعلق رکھنے والےافراد اپنے مرحومین کی میّت ضرورت کے تحت رکھ سکتے ہیں۔ فی الحال سردخانے میں گنجایش کے اعتبار سے جدیدہائیڈرولک سسٹم کے تحت پانچ پلانٹ نصب ہیں اور بیس میّتوں کی گنجایش کے ان پلانٹس میں مختلف درجہ حرارت پر میتّیں رکھی جاتی ہیں۔ ایک مہینے سے زائدرکھی جانے والی میّت کو منفی پانچ ڈگری پر رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک روز سے ایک ہفتے تک اسٹور کی جانے والی ڈیڈ باڈیز کے لیے مختلف ٹمپریچرزمقرر ہیں۔ یہاں زیادہ تر ایسی میتّیں رکھوائی جاتی ہیں، جن کے لواحقین کے بیرونِ ملک مقیم ہونے کے باعث تجہیز و تکفین اور تدفین میں شرکت میں تاخیر ہوسکتی ہے۔
لہٰذا سرد خانے میں میتّیں رکھنے سے قبل ڈیتھ سرٹیفکیٹ، شناختی کارڈاور دیگرکوائف دیکھ کرہی میتّوں کا اندراج کیا جاتا ہے۔ میّت، کولڈ اسٹوریج میں رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ڈیڈ باڈی کو ہائیڈرولک اسٹریچر کے اوپر سلیب پر رکھ کرسلائیڈنگ کے ذریعے اندر رکھ دیا جاتا ہے، پھر میعاد کومدِنظر رکھتے ہوئے مختلف ٹمپریچرز سیٹ کیے جاتے ہیں۔ عموماً حادثات کی شکار میّتوں میں بلیڈنگ کا امکان ہوتا ہے، اس لیے انہیں ایسے درجہ حرارت پر رکھتے ہیں کہ خون جم جائے اور میّت خراب نہ ہو۔‘‘ سردخانے میں میتّیں رکھوانے کی فیس یا معاوضے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’’یہاں ایک سو روپے فی گھنٹہ کے حساب سے چارج کیا جاتا ہے، لیکن اگر کوئی یہ فیس بھی دینے کی استطاعت نہیں رکھتا، تو ہم انہیں مفت سہولت فراہم کرنے کے ساتھ کارِ خیر کے طور پر بس سروس بھی دے دیتے ہیں۔یہاں کے لیےایڈمنسٹریٹر سمیت دس افراد پر مشتمل عملے کی ایک ٹیم ہے، جو چوبیس گھنٹے یہاں کے معاملات دیکھتی ہے۔‘‘ سردخانے کےمالی معاملات کے حوالے سے حفاظت حسین رضوی نے بتایا کہ ’’کولڈ اسٹوریج کے جوچارجز لوگ دے دیتے ہیں، وہ تو ہم لے لیتے ہیں، اس کے علاوہ کچھ افرادڈونیشنز بھی دے جاتے ہیں۔ جو رفاہی مقاصد ہی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔‘‘
یوں تو یہ سردخانہ بارہ مہینے فعال رہتا ہے، لیکن موسمِ گرما میں اس کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ حفاظت حسین رضوی نے بتایا ’’تین برس قبل شدید ترین گرمی کے باعث پانچ روز کے اندر اس سرد خانے میں 384ڈیڈ باڈیز لائی گئیں۔ اس وقت کراچی میں موجود تمام سردخانے بھرچکے تھے۔ہاتھ اٹھا کے یہی دعا مانگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ کبھی ایسا وقت نہ لائے، مگراس وقت صورتِ حال یہ تھی کہ شہر کے بیش تر سرد خانوں میں نعشیں رکھنے کی گنجائش ختم ہوچکی تھی، ایمبولینسز دست یاب تھیں، نہ میّت بسیں مل رہی تھیں، نہ قبریں دستیاب تھیں اور نہ ہی کوئی کولڈ اسٹوریج۔ بڑی افراتفری کا عالم تھا۔ قبرستان میں عموماً ایک قبر، جو تقریباً چھے سات ہزار روپے میں تیار ہوتی ہے، گورکن اس کے پچاس، ساٹھ ہزار روپے طلب کررہے تھے۔
مُردہ خانوں میں میتّیں رکھنے کی جگہ ناکافی تھی،تو قبرستان میں قبر ملنا دشوار ہوگیا تھا۔ لوگ مارے مارے پھر رہے تھے۔ ایک جانب اپنے پیاروں سے جدائی کا غم، تو دوسری جانب ان کے غسل، کفن اور تدفین میں مشکلات نے شہریوں پر زندگی تنگ کردی تھی۔ ایسے میں یہ سرد خانہ بہت کام آیاتھا۔‘‘ شہر میں موجود دیگرسرد خانوں کے حوالے سے انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ’’ایدھی فائونڈیشن کے سہراب گوٹھ اور موسیٰ لین میں سرد خانے موجودہیں۔چھیپا کا لائنز ایریا، جٹ لائن کا سرد خانہ بنیادی سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ پھرشہر کے مختلف سرکاری ونجی اسپتالوں کےبھی اپنے سرد خانے بھی ہیں۔ تاہم، اسپتالوں کے سرد خانوں میں صرف اسپتالوں ہی کی ڈیڈباڈیز رکھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ انچولی، بوتراب، رضویہ امام بارگاہ میں بھی سرد خانے موجود ہیں۔ لیکن بیش تر سردخانوں کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔
صفائی کے فقدان کے باعث ان میں اتنی بو پھیلی ہوتی ہے کہ کھڑا ہونا محال ہوتا ہے۔خصوصاً اسپتالوں کے کولڈ اسٹوریج کا یہ حال ہے کہ تمام باڈیز کو ایک ہی ہال میں رکھ دیا جاتا ہے۔اس طرح نعش شناخت کرنا مشکل ہوجاتاہے۔اس کے برعکس سفینتہ المسلمین ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام قائم شدہ، جدید طرز پر تعمیر اس سرد خانے میں ہر میّت کا باقاعدہ اندراج ہوتا ہے، جس سے ورثاء اور میّت کے لواحقین اپنے پیاروں کو آسانی سے شناخت کرتے اور اس حوالے سے ممکنہ سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘ (عکاسی:اسرائیل انصاری)