• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی کے طلبا اور طالبات کسی دور میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے تھے، اب الٹی گنگا بہنے لگی ہے اور پاکستانی طلبا ترکی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ پاکستانی طلبا اور طالبات کے لئے یورپ اور امریکہ میں جیسے جیسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہو رہی ہیں اس کے نتیجے میں پاکستانی طالب علموں نے گزشتہ چند سالوں سے ترکی کی یونیورسٹیوں کا رخ کرنا شروع کردیا ہے۔
اب صدر ایردوان کی جانب سے ترکی میں غیر ملکی طلبا کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے دوران اورتعلیم مکمل کرنے کے بعد جاب کرنے کی اجازت اور موقع فراہم کرنے کی خوشخبری سنانے کے بعد اب پاکستان کے طلبا کی نظریں ترکی کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد جابز کی جانب مرکوز ہو گئی ہیں۔ پاکستانی طلبا کے لئے یورپی ممالک کے ویزے حاصل کرنے میں مشکلات اور پھر ان ممالک میں پاکستانی طلبا کے ساتھ برے رویے اور کھانے پینے کے معاملے میں حلال و حرام کے امتیاز کی بدولت اب پاکستانی طلبا یورپ اور امریکہ جانے سے کترانے لگے ہیں اور اسی وجہ سے ترکی کی یونیورسٹیوں میں پاکستانی طلبا کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ دو تین سال کے اندر اندر ترکی میں سب سے زیادہ پاکستانی طلبا ہی تعلیم حاصل کرتے دکھائی دیں گے۔ میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ حکومتِ ترکی کے مطابق پاکستانی طلبا دیگر ممالک کے طلبا کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہیں اور ترکی کی انگلش میڈیم یونیورسٹیوں میں پاکستانی طلبا پہلے ہی سے انگریزی زبان پر مہارت رکھنے کی بدولت دیگر غیرملکی طلبا پر برتری حاصل کیے ہوئے ہیں ۔
ترکی کی کسی بھی یونیورسٹی میں گریجویشن کی سطح پر داخلہ لینے کے لئے طالب علم کا ایف اے یا ایف ایس سی میں پاس ہونا ضروری ہے۔ بورڈ سے حاصل کردہ سرٹیفکیٹ اور مارکس شیٹ کو تصدیق کروانے کے بعد ترکی کی کسی بھی یونیورسٹی میں داخلے کے امتحان کے لئے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے مختلف اسکولوں سے اے لیول کا امتحان پاس کرنے والے طلبا بھی براہ راست ترک یونیورسٹیوں سے رجوع کرسکتے ہیں۔ ترکی کے ’’کونسل آف ہائر ایجوکیشن‘‘ کے ادارے "YOK" سے http://www.yok.gov.tr/en اس ویب سائٹ کے ذریعے رجوع کرتے ہوئے ترکی کی مختلف یونیورسٹیوں میں داخلے سے متعلق شرائط سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ترکی کی پرائیویٹ اور اسٹیٹ یونیورسٹیوں میں اسکالر شپ حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل ویب سائٹ سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔https://www.turkiyeburslari.gov.tr/en حکومت ترکی غیر ملکی طلبا کو اسکالر شپ دینے کے ساتھ ساتھ ان کو ہوسٹلز کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔ اسکالر شپ حاصل کرنے والے طلبا کے لئے ہر ماہ اسکالر شپ کے علاوہ سرکاری ہوسٹلوں میں قیام ، طعام کا بندو بست کیا جاتا ہے اور یونیورسٹی کے اخراجات ، طبی سہولتیں ، ایک سال کا ترک زبان کا کورس کروانے کے علاوہ پہلی بار ترکی آنے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے ملک واپس جانے کا ٹکٹ بھی دیا جاتاہے۔ اس طرح اسکالر شپ پرآئے ہوئے طلبا کسی اسٹریس کے بغیر خوشی خوشی اپنی تعلیم جاری رکھتے ہیں۔ اسکالر شپ سے محروم طلبا کے لئے بھی ترکی میں تعلیم حاصل کرنا یورپی ممالک کے مقابلے میں کافی ارزاں ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے مقابلے میں بھی سستا ہے۔ یونیورسٹی میں داخلے کی صورت میں بینک (جیسا کہ مختلف ممالک میں کیا جاتا ہے) میں ایک خاص مدت کے لئے بڑی رقم کو ڈپازٹ بھی نہیں کروانا پڑتا ہے بلکہ فیس کو بھی قسطوں میں جمع کروایا جاسکتا ہے۔ ترکی کے اسلامی ملک ہونے اور کھانے پینے میں حلال حرام کا امتیاز برتے جانے کی وجہ سے پاکستانی طلبا یورپ کے مقابلے میں اب ترکی میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ ترکی کی سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں پوسٹ گریجویشن یا پھر ڈاکٹریٹ کی تعلیم جاصل کرنے کے لئے مختلف یونیورسٹیوں نے مختلف میرٹ وضع کررکھے ہیں مثلاً سرکاری یونیورسٹیوں میں مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی، باسفورس یونیورسٹی، استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی یا پھر حاجت تپے یونیورسٹی میں پاکستانی طلبا اسکالر شپ حاصل کرتے ہوئے ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں بلکینت یونیورسٹی اور سابانجی یونیورسٹی میں اسکالر شپ سے تعلیم حاصل کرنا ان کا خواب ہوتا ہے۔ اسکالر شپ حاصل کرنے والے طلبا کو ایک سال کا لینگویج کورس بھی کروایا جاتا ہے جس کے بعد وہ اپنے شعبے میں انگریزی میڈیم میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔ ترکی میں ایم اے یا ایم ایس سی کا کورس عام طور پر دو سال کا ہوتا ہے جبکہ پی ایچ ڈی دو سال سے تین اور بعض حالات میں چار سال میں بھی مکمل کی جاسکتی ہے۔ یہاں پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ترکی کی یونیورسٹیاں اپنے معیار کےلحاظ سے امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں، ترکی کی تمام یونیورسٹیاں مغربی ممالک کے جدید نصاب کو مدِنظر رکھتے ہوئے تعلیم فراہم کرتی ہیں۔ ترکی کی یونیورسٹیوں اور امریکہ اور یورپی ممالک کی یونیورسٹیوں میں اسکالر شپ ایکسچینج پروگرام کے تحت طلبا کا تبادلہ بھی کیا جاتا ہے۔
چند روز قبل صدر ایردوان نے ترکی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے دوران اور اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری فراہم کرنے کی خوشخبری سناتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ملکی طالبعلموں کو ورکنگ پرمٹ کی اجازت دے دی گئی ہے۔ انہوں نے استنبول میں انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ترکی میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبا کو محکمہ پولیس کے امیگریشن آفس سے رجوع کرنے کی بجائے ان کی زیر تعلیم یونیورسٹیوں ہی میں اقامہ جاری کیاجائے گا اور ان سب طلبا کو جنرل ہیلتھ انشورنس پروگرام میں داخل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ترکی میں اس وقت ایک لاکھ 15 ہزار غیر ملکی طالب علم موجود ہیں جن کی تعداد بڑھاتے ہوئے تین لاکھ پچاس ہزار تک پہنچائی جائے گی تاکہ ترکی دنیا میں غیر ملکی طلبا کو تعلیم دینے والے پانچویں بڑے ملک کا اعزاز حاصل کرلے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں غیر ملکی طلبا کو ترکی میں دوران تعلیم اور تعلیم کے بعد نوکری کرنے کی اجازت نہ تھی لیکن اب قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے ترکی کے دروازے غیرملکی طلبا کے لئے پوری طرح کھول دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف یونیورسٹیوں کے دروازے ہی ان کے لئے نہیں کھول رہے بلکہ اپنے دل کے دروازے بھی ان کے لئے کھول رہے ہیں تاکہ وہ یہاں ترکوں کی مہمان نوازی سے بھی لطف اندوز ہوسکیں۔ صدر ایردوان کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ پاکستانی طالبِ علم خوش دکھائی دیتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ جیسا کہ اوپر عرض کرچکا ہوں ترکوں کی پاکستان سے گہری محبت اور پاکستانی طالبِ علموں کو دنیا کے دیگر ممالک کے طلبا پر حاصل برتری ہے۔ اب صدر ایردوان کی جانب سے اٹھائے جانے والے نئے اقدامات سے بڑی تعداد میں پاکستانی طلبا اور طالبات ترکی کا رخ کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین