• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علم و آگہی کی دنیا

ڈاکٹر شیرشاہ سید

ایشیا میں تعلیم کا سراغ چار ہزار سال قبل مسیح لکھی جانے والی تحریروں اور ایسی تہذیبوں کی نشان دہی سے ہوا ہے ،جہاں مٹی کے کتبوں پر کتابیں لکھی جاتی اور انہیں محفوظ کیا جاتا تھا۔ عراق، شام اور ایران کے علاقوں میں میسوپوٹمیا کی تہذیبوں کی لائبریریاں ملی ہیں۔ میسوپوٹمیا کے بعد بابل اور اسمارین تہذیبوں کی دریافت سے پتہ چلا ہے کہ اس زمانے میں بھی لکھنے پڑھنے کو اہمیت دی جاتی تھی۔ ان تہذیبوں سے ملنے والی تحریروں میں عظیم داستانیں نثر اور نظم کی صورت میں موجود ہیں۔ ان تہذیبوں میں یقینی طور پر تعلیم کا رواج تھا اور شاید درس و تدریس کے منظم نظام تھے۔ شاید اساتذہ کو بھی وہی اہمیت حاصل تھی جو مذہبی رہنمائوں کی تھی بلکہ اکثر شواہد سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی رہنما ہی استاد کا درجہ بھی رکھتے تھے۔لیکن قدیم میسوپوٹیمیا اور بابل کی تہذیبوں کے کھنڈرات میں ایسے شواہد نہیں ملے ،جس سے اندازہ لگایا جائے کہ تعلیم کا حق عوام کو حاصل تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ تعلیم حاصل کرنا، لکھنا، لکھانا ایک مخصوص طبقے کی ذمےداری تھی اور وہی کتبوں، پاپائے رس کے کاغذات، چمڑے اور لکڑیوں پر اپنی تحریریں لکھتے تھے اور انہیں محفوظ کیا جاتا تھا۔

قدیم مصری تہذیب میںتعلیم صرف مراعات یافتہ طبقوں کا حق تھا۔ لکھنے پڑھنے کا نظام صرف ان ہی کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ قدیم اسرائیلی تہذیب میں مردوں کو تعلیم دی جاتی تھی ،مگر عورتوں کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ اپنے مذہب کو سمجھیں اور اپنے بچوں کو اس پر عمل کرائیں۔ یہودی مذہب میں تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے ،مگر یہودی عورت کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

قدیم ہندوستان میں تعلیم کا بہت اہم مقام تھا۔ تعلیم کی روایات کے نشانات 1500 قبل مسیح سے ملے ہیں۔ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیاں ان ہی علاقوں میں بنائی گئیں، جہاں اس زمانے کی مروجہ تعلیم دی جاتی تھی۔ طب، فلسفہ، ریاضی، زبان، مذہب، منطق، اخلاقیات، جغرافیہ اور فلکیات کے شعبوں میں بڑے عالم موجود تھے۔ یہ عام بات تھی کہ مندروں اور عبادت گاہوں کے ساتھ پاٹھ شالے بنائے جاتے تھے اور دھرم شالوں میں طلباءکے رہنے کا بھی انتظام ہوتا تھا اور پڑھنے کا بھی نظام تھا،مگروہاں تعلیم کی سہولت صرف مراعات یافتہ طبقے کے لیے تھی۔ روایتی تعلیمی اداروں میں عام طور پر مذہب کے علاوہ بہت کم مضامین کی تعلیم دی جاتی تھی۔ پاٹھ شالوں اور مندروں کی مذہبی تعلیم نے قدیم ہندوستان کی تعلیمی روایات سے بغاوت کر کے حکمرانوں کو پوجا پاٹ اور مذہبی رہنمائوں کے پیچھے ڈال دیا۔ یہ مندروں اور مذہبی رہنمائوں کی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ ہندوستان کے اصل باسیوں میں وہ قومی جذبہ پیدا نہیں ہوا ،جس کے تحت وہ بیرونی حملہ آوروں سے متحد ہوکر لڑتے۔ یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ غیر ہندوستانی حملہ آور ہندوستان پر حملہ کر کے کیوں قابض ہوتے رہے۔ قدیم ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں ہر قسم کی تعلیم کا نظام تھا۔ وہاں طب، سپاہ گری، زراعت، تعمیرات، قانون، معاشیات کے مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ ریاضی پر بہت توجہ دی جاتی۔ اس زمانے میں کئی معروف ریاضی دان بھی پیدا ہوئے، جن کے نظریات کو سیکڑوں برسوں بعد بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا گیا۔انگریزوں کی وجہ سے ہندوستان کے تعلیمی نظام میں واضح تبدیلیاں آئیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہندوستان میں جدید نظام تعلیم اور یورپی طرز تعلیم انگریزوں کی حکومت کا نتیجہ ہے۔ انگریزوں نے اپنے تعلیمی نظام کی بنیاد اس لیے رکھی کہ وہ ایسے تعلیم یافتہ طبقے کو جنم دینا چاہ رہے تھے ،جو ان کی حکومت چلا سکے اور شاید وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ آنے والے زمانے میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہوگی ،جو تعلیم یافتہ ہوں۔ ایک حیرت انگیزبات یہ ہے کہ ہندوستان کے قدیم حکمرانوں کے برعکس مقامی ہندو راجہ، مہاراجہ، چوہدری، سرداروں، مغل اور ترک حکمرانوں نے ہندوستان میں کوئی منظم تعلیمی نظام نہیں بنایا۔ مغل دربار میں ایسے تعمیراتی ماہر تھے ،جنہوں نے تاج محل اور اس جیسی کئی عمارات اور باغات بنوائے، مغلوں نے اُردو زبان روشناس کی اور غالب جیسے شاعر پیدا کیے، مگر وہ ہندوستان میں ایک مربوط تعلیمی نظام نہیں بناسکے یا شاید بنانا ہی نہیں چاہتے تھے۔ مغلوں کی یہ عادت برصغیر کے دوسرے حکمرانوں تک بھی پہنچی اور یہ دیکھنے میں آیا کہ انگریزوں کی آمد سے قبل یہاں کوئی منظم تعلیمی نظام نہیں بن سکا۔

چین میں 1000 سال قبل مسیح میں تعلیمی اداروں کے نشانات ملے ہیں۔ ہزار سال قبل مسیح زائو بادشاہت کے زمانے میں دارالحکومت میں پانچ اسکول قائم تھے، جہاں موسیقی، ریاضی، منطق اور سپاہ گری کی تعلیم دی جاتی تھی۔

پانچ سو سال قبل مسیح چینی فلسفہ پروان چڑھا اور کنفیوشش ازم بڑی تیزی کے ساتھ چھا گیا، جس کا چینی سماج پر گہرا اثر ہوا۔ چین کی مختلف شاہی حکومتوں کے ادوار میں تعلیم پر خاصی توجہ دی گئی۔ زبان کو ترقی ملی، کاغذ ایجاد ہوا، کتابیں تحریر کی گئیں، ذاتی کتابوں کو جمع کر کے لائبریریاں بنائی گئیں، گو کہ قدیم چین میں تعلیم حاصل کرنا اشرافیہ کا حق تھا، لیکن بدھ ازم اور کنفیوشزم میں طلباء کو پڑھانے کا رواج تھا۔ انقلاب کے بعد چین میں تعلیم پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ، دنیا بھر سے چینی عالموں کو بلاکر چین کے نظام تعلیم کو جدید بنایا گیا۔ زبان کی ترقی و ترویج پر زور دیا گیا، علاقائی زبانوں کو مضبوط بنایا گیا اور ہر قومیت کے عام شہریوں کو ان کی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی گئی اور حکومت کی طرف سے حوصلہ افزائی بھی کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں بے شمار بنیادی تعلیمی ادارے کھولے گئے ، پرانی یونیورسٹیوں کو سہولتیں مہیا کی گئیں اور پورے ملک میں لائبریریوں کا جال بچھا دیا گیا۔ آزادی کے وقت چین میں 248 لائبریریاں تھیں، اب ان کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہوگئی ہے۔

زر تشتیوں کی حکومت کے دوران ایران میں علم و دانش کے مرکز کھولے گئے تھے، گنڈشاپور میں بادشاہِ وقت نے نہ صرف عالموں کو جمع کیا بلکہ کتابیں جمع کرکے لائبریریاں قائم کیں۔ زرتشتیوں نے اپنے دور حکومت میں جہاں جنگیں لڑیں اور علاقے فتح کیے، ان کے چند حکمرانوں نے علم و فن پر بھی توجہ دی، گو کہ ایک باضابطہ نظام تعلیم عوام کے لیے تو نہیں بنایا گیا، مگر علم و دانش کی قدر کی گئی۔ انہوں نے یورپ اور عرب دنیا سے نکالے گئے پڑھے لکھے یہودیوں کو پناہ دی اور یونان کے عالموں کے ذریعے یونانی فلسفے کو فروغ دیا۔

اسلامی دنیا میں طویل عرصہ تک علم و آگہی کا دور دورہ رہا۔ مسجدوں کے ساتھ تعلیمی ادارے بنائے گئے ،جو یونیورسٹیوں کی ابتدائی شکل تھے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ یورپ میں بننے والی یونیورسٹیاں درحقیقت ان ہی مدرسوں سے متاثر ہوکر بنائی گئیں۔

مسلمانوں نے بغداد میں دارالحکومت بنایا ،جہاں لائبریری کے ساتھ ترجمے کا شعبہ بھی بنایا گیا۔ ہندوستان اور یونان کے علوم کی بے شمار کتابیں جن کا تعلق فلکیات، ریاضی، زراعت، طب اور فلسفے سے تھا، کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔

اسلامی دنیا میں چند یونیورسٹیاں اور کچھ تعلیمی مراکز بنائے گئے ،جہاں اپنے وقت کے عظیم عالم اور دانشوروں نے نئے سائنسی حقائق کا انکشاف کیا۔ کئی مسلمان بادشاہوں نے عیش و عشرت میں وقت گزارا یا اپنی بقا کے لیے جنگوں میں حصہ لیتے رہے، یہی وجہ ہے کہ آج کی اسلامی دنیا میں ایسے قابل ذکر تعلیمی ادارے نہیں ہیں ،جن کا مقابلہ یورپ اور امریکا کا جدید یونیورسٹیوں سے کیا جاسکے۔

جاپان میں تعلیمی روایات بہت پرانی نہیں ہیں، چھٹی صدی میں چینی طرز تعلیم کو جاپان میں روشناس کرایا گیا، لیکن گزشتہ دو سو سال میں جاپان میں تعلیم پر بے حد توجہ دی گئی ہے۔ 1870ء کے بعد سے مغربی تعلیمی نظام کو بہت تیزی سے اپنایا گیا اور اسے جاپانی تہذیب و ثقافت اور تعلیمی روایات سے ہم آہنگ کیا گیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے آج جاپان میں تعلیم کا معیار بہت بلند ہے۔

کلکتہ یونیورسٹی 1875ء میں بنائی گئی، گورنر جنرل لارڈ کیننگ پہلے چانسلر جب کہ سر جیمس ولیم کو پہلے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز کیا گیا۔

مدراس یونیورسٹی تامل ناڈو میں 1875ء میں ’’فطری احساسات کے ساتھ‘‘ نعرے کو اپناتے ہوئے بنائی گئی۔ مدراس کے گورنر لارڈ جان ایلفنسٹن نے اس یونیورسٹی کے قیام میں ذاتی دل چسپی لی۔ مدراس کے عوام نے بھی یونیورسٹی کے قیام کو سراہا اور یونیورسٹی میں طلباءکی تعداد تیزی سے بڑھتی چلی گئی۔

ممبئی یونیورسٹی 1875ء میں ’’سیکھنے سے کردار اور سچائی آتی ہے‘‘ کے نعرے کو اپناتے ہوئے بنائی گئی۔ اس کے بانی ڈاکٹر جان ولسن تھے، جو انگلستان کے طرز پر اس یونیورسٹی کو چلانا چاہتے تھے۔

1875ء میں ہی ’’وہ پڑھائو جو انسان کو پتہ نہیں‘‘ کے نعرے سے مدرسہ علوم مسلمانان ہند کے نام سے ایک ادارہ سرسید احمد خان نے شروع کیا جو 1920ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بن گئی۔ سرسید احمد خان یہ ادارہ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کی طرز پر بنانا چاہتے تھے۔ شروع میں یہ ادارہ کلکتہ اور الہٰ آبادیونیورسٹی سے ملحق رہا۔ یونیورسٹی کی پہلی چانسلر سلطان شاہجہان بیگم تھیں، وہ ریاست بھوپال کی حکمراں تھیں۔

دارالعلوم دیو بند کا قیام سہارن پور میں 31مئی 1866ء میں مولانا محمد قاسم ناناتوی کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ ایک اور عالم دین مولانا رشید احمد گنگوہی نے ادارے کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ مولانا ناناتوی نے ایک انار کے درخت کے نیچے اس ادارے کا آغاز کیا۔اس ادارے کا مقصد مسلمان بچوں میں اسلامی تعلیمات اور اسلامی سائنس کو فروغ دینا تھا۔ شروع دن سے ہی ادارے کو جدید طریقے سے چلانے کی کوشش کی گئی۔ کلاس روم، اسناد، میرٹ پر انعامات جیسے سلسلوں کو اپنایا گیا۔

آزادی کے بعد کے گزشتہ چند برسوں میں ہندوستان میں 573 یونیورسٹیاں بنائی گئیں ۔مولانا ابوالکلام آزاد نے بہ حیثیت اوّل وزیر تعلیم ہندوستان اس بات پر زور دیا کہ سائنسی علوم کو فروغ دیا جائے ،مگر ساتھ ساتھ روایتی علوم، موسیقی اور فنون لطیفہ کی تعلیم کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ ہندوستان کی تعلیمی پالیسی بنانے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ تعلیمی اداروں اور تعلیمی روا داری کا فروغ ان کی پالیسیوں کی ہی وجہ سے ہوا ہے۔

متوجہ ہوں

 قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ہمیںاپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھناچاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیے۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔

ہمارا پتا ہے: انچارج ’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ،

میگزین سیکشن، اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

nujawan.magazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین