پروفیسر شاداب احمد صدیقی، حیدرآباد
موجودہ دور میں ہر کوئی وقت کی تیز رفتاری کا شکار ہے، ہر شخص اس قدر مصروف اور تلاش معاش میں سرگرداں ہے کہ دنیا کے اعلیٰ عہدوں پر پہنچنے کے بعد بھی اس کی خواہشات کم نہیں ہوتیں، باوجود اس کے اسے بہترین زندگی کے تمام تر وسائل دست یاب ہیں ،پھر بھی اسے کسی پہلو سکون میسّر نہیں ہے۔ ایک فانی زندگی کے لیے انسانوں کی یہ تگ و دو اور دنیا طلبی میں اس قدر مصروف ہونا کہ اسے اپنی ابدی زندگی تک کا علم نہیں۔ ایک عظیم ماہ کی آمد جسے ہم رمضان المبارک کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ ماہِ مبارک اپنے اندر لامحدودرحمتیں سموئے ہوئے ہے۔ جس میںبے شمار رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ تمام لوگوں کی طرح بچّوں اور نوجوانوں کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس ماہ برکتوں سے بھرپور طریقے سے فیض یاب ہوا جائے۔ رمضان المبارک بچّوں اور نوجوانوں کے لیے ایک روحانی تربیتی مہینہ ہے۔ہر نوجوان کے لیے اس کا پہلا روزہ ہمیشہ ہی یاد گار رہتا ہے، روزہ کشائی کا اہتمام ، مہمانوں کی آمد، گھر میں چہل پہل، گھر کے بزرگوں کی شفقت، لاڈ پیار کبھی بھلائے نہیں بھولتا۔ہر نوجوان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس ماہ مبارک میں روزے کے ساتھ ساتھ پنج وقت نماز اور بالخصوص تراویح کا اہتمام کرے۔ یوں نسل نو رمضان میں خوب نیکیاں سمیٹنے کی کوشش کرتی ہے،مگر مشاہدے میں آیا ہے کہ چند نوجوان روزہ رکھنے کے بعد تلخی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،انتہائی معمولی باتوں پر دوسروں سے جھگڑ پڑتے ہیں۔ ان کے مزاج میں چڑچڑاہٹ کا عنصر صاف نظر آتا ہے، جب کہ روزہ تو نام ہی صبر و برداشت کا ہے۔کئی نوجوان تو پورا پورا دن سوتے ہوئے ہی گزار دیتے ہیں۔ صرف صبح سے شام تک کھانا ، پینا ترک کردینے کا نام روزہ نہیں ہوتا، بلکہ اس میں لغویات، جھوٹ اور لڑائی جھگڑوں سے بھی اجتناب برتنا چاہیے، روزہ توجسم کے ہر اعضاء کا ہوتا ہے، اپنے نفس پر قابو پانا انتہائی اہم ہوتا ہے۔رمضان کی راتوں میں نائٹ میچ کھیلنا کوئی نئی بات نہیں ہے، اس میں کوئی برائی بھی نہیں ، مگر میچ کے لیے کنڈ الگا کریا بجلی چوری کر کے بجلی کا انتظام کرنا غیر اخلاقی عمل ہے۔بعض نوجوان تو محلوں کی گلیوں اور سڑک پر کرکٹ کا اہتمام کرتے ہیں اور ساتھ شور وغل بھی برپا کرتے ہیں۔ ہمیں دوسروں کے جذبات ، آرام کا خیال کرنا چاہیے۔دیکھنے میں آیا ہےکہ رمضان المبارک میں تومساجد نوجوانوں سے بھر جاتی ہیں ، مگر بعد از رمضان کچھ نوجوان پابندی سے مسجد بھی نہیں جاتے۔ یہ ماہ ِ مبارک احتساب ِنفس کا بھی مہینہ ہے۔بعض نوجوان روزے کی حالت میں بھی ڈرامے ، فلمیں دیکھنے، موبائل فون اور سوشل میڈیا پر فضول باتوں میں اپنا وقت برباد کرنے سے باز نہیں آتے۔ اللہ تعالیٰ نے روزے کو روحانی، اخلاقی اور جسمانی تربیت کا ذریعہ بنانے کے علاوہ اجتماعی و معاشرتی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ کچھ نوجوان ایسے بھی ہوتے ہیں، جو پورا ماہ عبادت میں مشغول ر ہتے ہیں، مگر عید کا چاند نظر آتے ہی، بس دنیاوی سر گرمیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ روزے کی حالت میں کتب کا مطالعہ آپ کو دیگر فضول سرگرمیوں سے دور رکھنے میں معاون ثابت ہوگا،یہ ماہِ تربیت بھی ہے، جتنا ممکن ہو، اپنی غلطیوں، برے اخلاق و اطوار کو سدھارنے کی کوشش کریں، نوجوان دوستو،یہ ہے روزے کا فلسفہ کہ انسان بھوک کو برداشت، تحمّل کا مظاہرہ کرے، تاکہ اسے دوسروں کی بھوک، پیاس، افلاس کا احساس ہو،یہ احساس ہمیشہ آپ کے دلوں میں زندہ رہنا چاہیے ، مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر نوجوان سہولتوں کی عدم دست یابی، وسائل کے بحران کارونا، روتے نظر آتے ہیں، لیکن ہمیشہ اپنے سے غریب لوگوں کے بارے میں سوچیے، کیسے غریب بچے بنا تعلیم حاصل کیے زندگی گزار دیتے ہیں،آپ کو تو شکر ادا کرنا چاہیے کہ آپ زیورِتعلیم سے آراستہ ہیں، ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں ، جو بھی وسائل میسر ہیں، انہی سے اپنے لیے راستے بناتے جائیں۔دوستوں کے ساتھ پُر تکلف افطار پارٹیوں میں جانا یا اہتمام کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ چندہ جمع کرکے، اپنے دوستوں کے ساتھ غریبوں کے لیے افطاری کا انتظام کریں، سفید پوش افراد کو ڈھونڈیں اور ان کی جتنی ممکن ہو مدد کریں۔رمضان کے بعد بھی اچھی عادتوں کو فراموش نہ کریں، بلکہ ان میں مزید نکھار پید اکرنے کی کوشش کریں۔ عید کا چاند نظر آتے ہی، نسل نو کی اکثریت سڑکوں پر نکل آتی ہے، مہذب معاشروں میں خوشی و جشن منانے کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے، یہ نہیں کہ شور شرابا ،کرنا شروع کر دیا جائے۔کچھ من چلے نوجوان گاڑیوں میں تیز آواز میں گانے بجاتے ہیں،تو کچھ ون ویلنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔نوجوان ہی اس ملک کا اثاثہ اور ہمارے معمار ہیں۔ وہ معاشرے پر بھرپور اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں،عزم و قوّت اور نشاط و نوخیزی کا دوسرا نام ’’نوجوان‘‘ ہے۔ ان صفات کا تقاضا ہے کہ نسل نواپنی زندگی کو دانا شخص کی طرح گزارےاور اپنے نفس پر ضبط رکھے، نفس کو خیر و بھلائی کی طرف راغب کرے، یہی روزوں کا درس ہے۔