• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم کہاں کھڑے ہیں؟

فضل محمود ناولی،میرپور خاص

ملکی منظرنامے پر گہری نگاہ رکھنے والے اس بات سے کبھی انکار نہیں کرسکتے کہ وطن عزیز میں تعلیم کبھی بھی حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی ۔اگر ہمارے تعلیمی نظام کا بھرپور جائزہ لیا جائے ،تو پتا چلتا ہے کہ ہماری ابتدائی درس گاہوں سے لے کر جامعات تک کےطالب علموں کو معیاری تعلیم کی وہ سہولتیں حاصل نہیں ،جو دنیا کےکئی ترقی پزیر ممالک کو حاصل ہیں،مگر اس کے باوجود والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے جو کچھ کرسکتے ہیں وہ ضرور کرتے ہیں۔ کسی بھی قوم اور ملک کی ترقی اور خوش حالی میں اس کے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کاکردار بنیادی ہوتا ہے، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا ،کہ کسی بھی قوم کی ترقی کاراز اس کےنظام تعلیم میں پوشیدہ ہوتا ہے،فروغ ِتعلیم کے ذریعے ہی افراد علم وآگہی کی دولت سے مالامال ہوجاتے ہیں۔ علم ایک ایسی دولت ہے جو استعمال کرنے سے بڑھتی ہے۔جس ملک کا تعلیمی نظام وہاں کی اپنی قومی زبان میں ہوگا وہ ملک بہت جلد ترقی کی جانب سفر کرے گا۔ ہمارے وطن عزیز کو روزاوّل ہی سے تعلیمی مسائل کا سامنا ہے، مگر آج تک اسے حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں،بلکہ دن بہ دن مزید بگاڑ پیدا ہوتا جا رہاہےاس طبقاتی نظام تعلیم نے معاشرے کو کئی حصوں میں تقسیم کررکھا ہے ۔بنیادی طور پر 2حصوں میں تقسیم ہونے والا نظام تعلیم آگے چل کر درجنوں طبقاتی تقسیم میںمنقسم ہوجاتا ہے ۔چین، جرمنی اور فرانس کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح ان ممالک نے اپنی زبان کو فوقیت دی اور ترقی کی دوڑ میں آگے نکل گئے ۔یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیگر ممالک کی نسبت ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ذہانت اور ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں اور ہمارے ملک کے جن نوجوانوں کو اندرون یا بیرون ملک اعلیٰ تعلیم میں اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملتا ہے، وہ دنیا کے دیگر نوجوانوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مختلف ادوار میں اصلاحات کے نام پر کیے جانے والے اقدامات کے باوجودہمارے ملک کے نظام ِتعلیم میں ابھی تک بہتری نہیں آسکی ہے۔ ہم آج بھی شرح خواندگی کے اعتبار سےکئی ترقی پزیر ممالک سے بہت پیچھے کھڑے ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ عربی ، فارسی، اور اُردو کو ہمارے معاشرے میں ترجیح دی جاتی تھی ،انہی زبانوں کی بہ دولت غالب، شبلی، حالی، سرسید ،اقبال اور فیض احمد فیض جیسی نابغہ روزگار شخصیات پیدا کیں۔اس کے برعکس ہم نے پہلے عربی کو ختم کیا ،پھر فارسی اور اب اُردوزبان کو بھی وہ حیثیت نہیں دی جاتی ، جو انگریزی زبان کو حاصل ہے اور اس کی بنیادی وجہ ہمارا دُہرا تعلیمی نظام ہے،جوکہ اُردو میڈیم اور انگریزی میڈیم میں بٹا ہوا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام ترقی کرے، تو سب سے پہلے پرائمری کی سطح پر تعلیم کو یکساں طور پر رائج کرنے کی ضرورت ہے،کیوں کہ 11سے12 سال کی عمر میں بچے ابتدائی نشوونما اور سیکھنے کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ اگر اسی عمر میں انہیں معیاری تعلیم نہیں دی جائے گی ، تواس کا اثر ان کی شخصیت پر پڑے گا، ان میں خود اعتمادی کی کمی صاف جھلکے گی ۔اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ ایک زمانے میںکتابوں، تقریروں اورمباحثوں کے ذریعے نسل نو کے ذہنوں کی آب یاری کی جاتی تھی، لیکن اب تعلیمی اداروں میں یہ ایسے پروگرامز بھی کم ہی منعقد کیے جاتے ہیں۔ اب تو بس اساتذہ بھی کلاس میں لیکچرز دے کر اپنی جان چھڑانے کو ترجیح دیتے ہیں، دوسری جانب طالب علم بھی سیکھنے کے متحمل نہیں، بس وہی رٹا ،رٹایا نصاب پڑھ کر امتحان میں کام یاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ نوجوانوں کی اکثریت پڑھنا ہی نہیں چاہتی، بس پچاس سال پرانے نوٹس کی فوٹو کاپی کرواکر اپنا فرض پورا کرتی ہے۔اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ جلد سے جلد تعلیم کے بنیادی نظام میں تبدیلیاں کی جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت کابھی نظام رائج کیا جائے،تاکہ آگے چل کر ہمارےنوجوان اپنی زبان کے ساتھ ساتھ دیگر مضامین میں بھی مہارت حاصل کرکے ملک اور معاشرے کے لیے معاون اور مددگار ثابت ہوسکیں۔

تازہ ترین