• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عراق میں انتخابات

صدام حسین کے اقتدار کے خاتمے کے بعد عراق میں ۱۲ مئی کو چوتھے پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کیا گیا تھا۔ یہ انتخابات کثیر جماعتی انتخابی عمل کی بنیاد پر منعقد ہوئے تھے۔ عراق کے بعد تیونس اور لبنان میں بھی اسی نوعیت کے کثیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوتے ہیں، باقی عرب دنیا تو جمہوریت سے کٹی رکھتی ہے اس لیے وہاں رائے عامہ کی حیثیت نام نہاد زیادہ نہیں ۔ عراق کے انتخابات میں یہ امر نہایت اہم تھا کہ یہ عراق میں گزشتہ دسمبر میں ہونے والی داعش کی شکست کے بعد ہو رہے تھے ۔ اب وزیر اعظم حیدر العبادی داعش کے خلاف اپنی حکومت کی کامیابی کی تمغے کے ساتھ انتخابی معرکہ واضح طور پر جیتنا چاہتے تھے مگر انتخابی نتائج نے ان کی سب سے بڑی پارلیمانی طاقت بننے کے خواب کو چکنا چور کر ڈالا۔ مقتدٰی الصدر کی قیادت میں ان کے مذہبی پیروکاروں ، کیمونسٹوں اور سیکولر سنی افراد کے اتحادسائرون جو اصلاحات کے سفر کے نام سے انتخابی میدان میں اُترا تھا میں کامیابی حاصل کر لی مقتدیٰ الصدر ایک سکہ بند عالم دین اور عرب کے ممتاز دینی گھرانے کے فرد ان کے کزن موسیٰ الصدر نے لبنان میں امل تحریک جو اسرائیل کے خلاف ہے کی بنیاد رکھی تھی اور وہ ایک سازش کے نتیجے میں 1978میں لیبیا سے اغواء ہو گئے اور پھر کبھی نہ مل سکے ۔ مقتدی ٰ الصدرکے والد کے کزن باقر الصدر کو صدام حسین کے خلاف خیالات رکھنے اور برملا اظہار کرنے کے جرم میں 1980میں قتل کر وادیا گیا تھا جب کہ الصدر تحریک کے بانی مقتدیٰ الصدر کے والد صادق الصدر نے 1990میں الصدر تحریک کی بنیادرکھی تھی اور ان کو بھی صدام حسین نے قتل کروادیا ۔ آیت اﷲ صادق الصدر ممتاز شیعہ عالم دین ہونے کے باوجود عرب شناخت کی اہمیت برقرار رکھنے کے بہت حامی تھے اور وہ ایران کی جانب سے آنے والی مذہبی قیادت کو صرف ایران تک محدود رکھنے کے حامی تھے وہ شیعہ عالم ہونے کے باوجود سنی عربوں میں بھی نہایت قابل احترام تھے کیونکہ ان کے متعلق یہ خیال تھا کہ وہ مسلمانوں کے باہمی تفرقوں کے سخت خلاف ہیں ۔ مقتدی الصد ر کا نام پہلی بار دنیا نے صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد عراق نے امریکہ کے خلاف شروع ہونے والی مسلح جدوجہد کے قائد کے طور پر سُنا تھا ان کی ملیشیا ء نے امریکہ سے لڑتے ہوئے زبردست جانی ومالی قربانیاں دیں مگر وہ امریکہ کو عراق سے نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ 2008میں انہوں نے ملیشیا کو ختم کرکے امن بریگیڈ تشکیل دی وہ داعش کے خلاف بھی لڑے کیونکہ عراق میں داعش کے خلاف شیعہ ، سنی ، کرد اور سیکولر چاروں طبقات نے اپنی اپنی جگہ پر مشترکہ یا علیحدہ علیحدہ مقابلہ کیا تھا کیونکہ داعش کے نظریات ان چاروں گروہوں سے مختلف تھے اور یہ چاروں گروہ داعش سے بجا طور پر خطرہ محسوس کر رہے تھے عراق کے حالیہ انتخابات میں مقتدیٰ الصد ر کے اتحاد میں 54ایران کے حامی حادی الامیری کے اتحاد میں 47جب کہ امریکی حمایت یافتہ وزیر اعظم حیدر العبادی کے اتحاد میں 42نشستیں حاصل کیں ۔ جب کہ سابق وزیر اعظم نوری المالکی کے اتحاد نے 26مسعود بارزانی کی کردستان جمہوری پارٹی نے 25سابق وزیر اعظم ایاد علاوی کے اتحاد نے 21معروف شیعہ عالم دین عمار الحکیم نے 19عراق کے مرحوم صدر جلال طلبانی کی کر د جماعت نے 18 جب کہ سابق سپیکر اُسامہ النجفی کے اتحاد نے 14نشستیں حاصل کیں ۔ ایوان کی کل نشستیں 329ہیں ۔ مقتدیٰ الصدر کے اتحاد کی سب سے زیادہ نشستیں ہونے کے باوجود یہ واضح ہے کہ ان کو سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے دیگر جماعتوں سے اتحاد کرنا ہو گا وہ عراق میں معاشی طور پر بدحال لوگوں کے نمائندے کے طور پر سامنے آئے اور جو عراق میں امریکی اور تہران کی مداخلت کے خلاف ہے ۔ اپنے آپ کو تہران سے دور ثابت کرنے کے لیے انہوں نے سعودی عرب سے بھی قریبی تعلقات کا آغازکیا اور پچھلے سال جولائی میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان سے جدہ میں ملاقات ہوئی ۔ امریکہ عراق میں حیدر العبادی کو اپنا آدمی سمجھتا ہے اور اس نے یہ کوششیں شروع کر دی ہیں کہ ایران کے حامی حادی الامیری اور مقتدیٰ الصدر کو عراق کے اقتدار سے دور کرے ۔ خیال رہے کہ حادی الامیری کو 1لاکھ پر مشتمل مسلح ملیشیا کی حمایت بھی حاصل ہے ۔ امریکہ نے اس مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے سے حیدر العبادی کے لیے کردسیاسی جماعتوںکی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دیں کرد سیاسی جماعتیں امریکہ کی حامی تصور کی جاتی ہیں ۔ امریکہ کوشش کر رہا ہے حیدر العبادی کی قیادت میں ایک مخلوط حکومت کا قیام عمل میں لایا جا سکے ۔ امریکہ کی یہ بھی کوشش ہے کہ مقتدیٰ الصدر اور الحادی الامیری کے درمیان اختلافات کو باہمی تشدد تک لے کر آجائے کیونکہ اگر یہ دونوں لڑ پڑے تو عراق میں امریکہ کے دونوں مخالفین کمزور ہو جائیں ان حالات میں مقتدیٰ الصدر نے سیاسی روابط کو بڑھانا شروع کر دیا اور انہوں نے انتخابی مہم کی تلخیوں کے اثرات سے باہر آکر پارلیمانی سیاست کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا انہوں نے وزیر اعظم حیدر العبادی اور حادی الامیری سے ملاقاتیں کی ہیں ۔ اور اس کے بعد یہ معنی خیز بیان دیا ہے کہ حکومت سب کی ہو ۔ یعنی وہ وسیع البنیاد حکومت کے قیام کی خاطر آگے بڑھنا چاہتے ہیں ایسا کرنے کی صورت میں ان کے اصطلاحاتی ایجنڈے پر ضرب پڑے گی مگر سادہ اکثریت نہ ہونے کے سبب سے ان کو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔ خیال ہے کہ بغداد میں حکومت سازی کے لیے مذاکرات پر کئی مہینے خرچ ہو سکتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود وہ جمہوری عمل سے ہی وابستہ رہیں گے کیونکہ انہوں نے آمریت کی وحشت کو جھیلا ہے سبق ہمارے لیے بھی اس میں موجود ہے ۔

تازہ ترین