ماہِ رمضان المبارک کا پہلاعشرہ، عشرئہ رحمت ہم سے جدا ہوا۔ اب دوسرا عشرہ، عشرئہ ’’بخشش و مغفرت‘‘ اپنی تمام تر فیّوض و برکات، رحمت و مغفرت کےساتھ سایہ فگن ہے۔ پہلےعشرے میں اہلِ ایمان نے روزے کے ساتھ زکوٰۃ، صدقات و خیرات، تراویح و تہجّد اور عبادات و اذکار خوب کیا۔ قیامِ لیل میں گریہ وزاری، مناجات کے ساتھ اس کی رحمتوں کے طلب گار رہے، تو ان شاء اللہ ربِ کریم نے رحمتوں کا نزول بھی فرمایا ہوگا۔ آئیے، اب مغفرت کے اس دوسرے عشرے میں شب کی تنہائیوں میں اشکِ ندامت بہا کر اپنے گناہوں پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے توبہ و استغفار کریں اور اپنے رب کو راضی کرلیں کہ کون جانے، اگلے سال برکتوں والا یہ مہینہ، رحمت، مغفرت اور نجات کے یہ عشرے میسّر بھی آتے ہیں یا نہیں؟ ماہِ صیام کے دوسرے عشرے میں ہمیں اپنی ،اپنے والدین اور جملہ اہلِ ایمان کی بخشش و مغفرت کے لیے پہلے سے زیادہ خشوع و خضوع سے دعائیں، التجائیں کرنی ہیں۔ حضرت کعب بن عجرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ جبرائیلِ امین میرے پاس آئے اور جب میں نے منبر کے پہلے درجے پر قدم رکھا، تو انہوں نے کہا کہ ہلاک ہو جائے، وہ شخص، جس نے رمضان المبار ک کا مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔ میں نے ا ُس پر آمین کہا ۔‘‘ (الترغیب والترہیب)
دوسرے عشرےکا سب سے اہم واقعہ: رمضان المبارک کے دوسرے عشرے میں جو سب سے اہم واقعہ پیش آیا، وہ حق و باطل کے درمیان ایک عظیم معرکہ تھا،جو بدر کے مقام پر پیش آیا اور جس نے مجموعی طور پر مسلمانوں کے حالات پر بڑے مثبت اثرات مرتب کیے۔ ایک طرف انہیں سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی برتری نصیب ہوئی، دوسری طرف ان کی بہادری، شجاعت اور جواں مردی نے مدینے اور اس کے آس پاس موجود یہودی اور عیسائی قبائل کی شورشوں کو بھی دبادیا۔ اس کے ساتھ ہی ابو جہل سمیت نام ور روسائے قریش اور سردار اسلامی تیغِ جہاد کا لقمہ بن کر عبرت کا نشان بن گئے اور کفارِ مکّہ کا غرور و تکبّر خاک میں مل گیا۔ کفرواسلام کی اس پہلی باقاعدہ جنگ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن نے اس فتحِ عظیم کو ’’یومِ فرقان‘‘ کے نام سے یاد کیا اور اللہ نے قرآن کی ایک سورت، سورۃ الانفال میں غزوئہ بدر کے واقعے کی تفصیل بیان کرکے اسے تمام غزوات میں امتیازی درجہ عطا فرمایا۔
یوم الفرقان ، حق و باطل میں واضح فرق کا تاریخ ساز دن’’غزوہ ٔ بدر‘‘ حق و باطل اور اسلام و کفر کے درمیان وہ پہلا باقاعدہ تاریخ ساز معرکہ تھا کہ جس میں طاقت کے گھمنڈ میں چُورکفّارِ مکّہ کی جھوٹی شان و شوکت ، غرور و تکبّر اور رعونت کو مٹھی بھر جاں نثاران ِاسلام کے ہاتھوں عبرت ناک اور ذلت آمیز شکست میں بدل گئی۔ محض چند گھنٹوں میں تائیدِ خداوندی کی بدولت کفر و جہالت اور ظلم و بربریت کے بڑے بڑے قدر آور سورما زمیں بوس ہو گئے۔ غزوہ ٔ بدر کی عظیم الشّان فتح نے رہتی دنیا تک کے لیے انسانوں کو عزم و ہمّت، عمل و بے داری کا ایک لازوال پیغام دے دیا ہے۔ عددی برتری، جدید اسلحہ، تجربہ کار جنگجو، جنگی چالوں کے ماہر خوں خوار سردار، جھوٹی شان و شوکت اور دولت کی فراوانی کے باوجود کفارانِ اسلام، قوتِ ایمانی کے جذبے سے سرشار، مٹھی بھر جاں نثاروں کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور فتح، حق کے متوالوں کا مقدر بنی۔ ’’غزوہ ٔ بدر‘‘ اللہ کی نصرت اور دعائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجاہدین کے ایثار و قربانی، جرأت و استقامت، دلیری و جاں بازی کا وہ حیرت انگیز معرکہ تھا کہ جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے ایک وسیع خطّے پر کلمہ حق کا اسلامی پرچم سربلند ہو گیا اور کرۂ ارض کے ہر ہر گوشے میں توحید کے جاںنثار پیدا ہو گئے۔ مسلمانوں اور قریشِ مکّہ کے درمیان یہ عظیم معرکہ رمضان کریم کے دوسرے عشرے میں 17؍ رمضان المبارک 2ہجری کو مدینے سے 129کلو میٹر کے فاصلے پرواقع، بدرکے میدان میں پیش آیا۔
غزوہ ٔ بدر کے اسباب و تفصیل:ہجرت کا ابھی دوسرا ہی سال تھا۔ مدینہ میں انصار سمیت مسلمانوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی، ان میں ضعیف بھی تھے اور بیمار بھی، کم زور و لاغر بھی تھے اور بچّے بھی، انصارِ مدینہ کے بے پناہ ایثار و قربانی کے باوجود مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اصحابِ صفّہؓ‘‘ میں شامل تھی۔ دن رات حبِّ الٰہی اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے سرشار یہ جاں نثارانِ اسلام، تبلیغِ دین میں مصروف تھے، کچھ مل گیا، تو کھالیا، ورنہ صبر و شکر تو ہے ہی… امام الانبیاء، شاہِ عرب و عجم، تاج دارِ مدینہ، سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اپنے جاں نثار رفقاء کے ساتھ مدینے کو اسلامی ریاست بنانے میں ہمہ تن مصروف تھے۔ دوسری طرف کفارِ مکّہ، حضور ؐ اور ان کے ساتھیوں کے ہجرت کرجانے پر سخت چراغ پاتھے۔ سردارانِ قریش کو یہ گوارا نہیں تھا کہ جو مسلمان تیرہ برس تک ان کے مصائب و آلام، ظلم و بربریت اور کذب و افتراء کو برداشت کرتے رہے، وہ ایک اسلامی ریاست قائم کرلیں؟ ابوجہل، ابولہب، ابوسفیان سمیت سردارانِ مکّہ مسلمان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے تھے۔ مکّے میں مقیم مسلمان ان کے روح فرسا مظالم کا نشانہ بنتے رہے۔ ہجرت کرنے والوں کے مال و اسباب اور جائیدادوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ مسلمانوں کے قافلوں کو راستے میں روک کر لوٹ لینا روز کا معمول تھا۔ حالات روز بہ روز بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے تھے۔ حضور نبی کریمﷺ کو مسلسل اطلاعات موصول ہورہی تھیں کہ ابوجہل اور اس کے رفقاء مدینے پر ایک بھر پور حملے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ان ہی دنوں ابوسفیان ایک بڑا تجارتی قافلہ لے کر شام سے مکّے کی جانب روانہ ہوا۔ اس قافلے کی حفاظت کے بہانے ابوجہل بھی قریش کے جنگجو سرداروں کی ایک بڑی فوج لے کر شاہانہ انداز میں مدینے کی جانب روانہ ہوگیا۔ غرور و رعونت سے سرشار، ابوجہل کو کامل یقین تھا کہ بے سرو سامانی کے شکار مدینے کے یہ چند سو نہتّے مسلمان اس کے اسلحے سے لیس زرہ پوش جنگجو شہ سواروں کا مقابلہ نہ کرپائیں گے اور ایک ہی وار میں ان سب کا خاتمہ ہوجائے گا۔ حضور نبی کریمﷺ کو جب ابوجہل کے اس جنگی جنون کی خبر ملی، تو آپؐ نے فوری طور پر مجلسِ شوریٰ طلب کرلی اور صحابہ کرامؓ کو صورتِ حال سے آگاہ فرماتے ہوئے رائے طلب فرمائی۔ اس موقعے پر انصار و مہاجرین کے نمائندوں نے یک زبان ہوکر اپنے جان و مال کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا عزم کیا۔ سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیقؓ اٹھے اور والہانہ انداز میں حقِ جاں نثاری ادا فرمایا۔ پھر حضرت عمر فاروقؓ جوشِ ایمانی میں اٹھے اور دین پر مَرمٹنے کے عزم کا اظہار کیا۔ پھر حضرت مقداد بن عمروؓ نے جرأت و استقامت کااظہار کرتے ہوئے فرمایا ’’اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں، جنہوں نے حضرت موسیٰ سے کہہ دیا تھا کہ تم اور تمہارا رب لڑو ،ہم تو یہاں بیٹھے تماشا دیکھیں گے۔‘‘ جس کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارِ مدینہ کی رائے معلوم کرنا چاہی۔اس موقعے پر حضرت سعد بن معاذ ؓ نے جو ایمان افروز کلمات ادا کیے، وہ تاریخ کا حصّہ ہیں ۔
آپ نے فرمایا ’’اے اللہ کے رسولﷺ !یہ کیسےممکن ہے کہ اللہ کا رسول ﷺ تو کفار کے مقابلے کو جائیں اور ہم گھر بیٹھے رہیں۔ یہ کفارِ مکّہ تو خاک کا ڈھیر ہیں، ہم ان سے کیا ڈریں؟ آپ اگر حکم دیں گے کہ’’سمندر میں کود پڑو، تو ہم سب بلادریغ آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔‘‘ ان اصحاب باوفا کے ایمان افروز کلمات نے حضور ؐ سمیت اہلِ مجلس کو خوش کردیا۔ پھر آپﷺ نے دعا فرمائی اور جنگ کی تیاری کا حکم دیا۔
12 رمضان المبارک 2ہجری کو سرکارِ دو عالم ﷺ 313 صحابۂ کرامؓ کو لے کر مدینے سے چلے۔ بے سروسامانی کا عالم یہ تھا کہ پورے لشکر میں صرف 2 گھوڑے تھے، جن پر حضرت زبیر ؓ اور حضرت مقدادؓ سوار تھے۔ 70اونٹ تھے اور ہر اونٹ پر تین سے چار صحابہؓ سوار تھے۔ خود حضورﷺ کے اونٹ پر بھی آپ کے ساتھ دو صحابی تھے۔ جب کہ بعض حضرات پیدل تھے۔ صحابہ ؓ جوشِ ایمانی اور جذبۂ جہاد سے سرشار تھے۔ مسلمانوں کے سامانِ حرب کا یہ عالم تھا کہ اگر تلوار تھی، تو نیزہ اور کمان نہ تھی اور اگر نیزہ تھا، تو تلوار نہ تھی۔ ان کے مقابلے میں مشرکینِ مکّہ جدید اسلحے سے لیس تھے۔ ان میں ایک ہزار سپاہ، سامانِ حرب و ضرب کی فراوانی کے ساتھ فوجیوں کی خوش نودی کے لیے شراب کے مٹکے اور گانے بجانے والیاں بھی ساتھ تھیں۔ مختصر یہ کہ بدر کا وہ مقام ایک عجیب ہی منظر پیش کررہا تھا۔ ایک طرف، قریشِ مکّہ کے خوں خوار جنگجوئوں کا سامانِ حرب سے لیس جمِ غفیر تھا، تو دوسری طرف چند سو بے سروسامان مجاہدین کی مقدس جماعت تھی کہ جن کی ظاہری حالت کسی طور بھی جنگ کے قابل نہ تھی۔ آگ برساتی دھوپ اور ریت کے تپتے ذرّات کے درمیان، روزے کی حالت میں آیاتِ قرآنی کا ورد کرتےاللہ کے دین کی حفاظت کے لیے اس کے محبوب رسولؐ کی رہنمائی میں آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کے چہرے نور ایمانی سے روشن تھے، انہیں اپنےایمان کی صداقت اور اللہ کی نصرت پر کامل یقین تھا… اور پھراس موقعے پر اللہ رب العزت نے بادلوں کو حکم دیا کہ میرے ان محبوب بندوں پر رحمت کی برکھا برسا۔ اس قدرتی انعام کا قرآن میں یوں ذکر ہے۔ ترجمہ: ’’اور جب کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا کہ تم کو پاک کرے۔‘‘ (سورئہ انفال)
17؍ رمضان المبارک 2ہجری کو صبح سرکار ِدو عالم ﷺنے لشکر کی صف بندی فرمائی۔ 313مجاہدین میں سے 83 مہاجر، جب کہ 230انصار تھے کہ جنہیں اگرچہ جنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا، تاہم جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے سرشار تھے۔ جب دونوں فوجیں صف آراء ہوگئیں، تو اللہ کے رسولﷺ نے پرنم آنکھوں اور بھیگی پلکوں کے ساتھ اپنے رب کو پکارا ’’اے اللہ! تو اچھی طرح واقف ہے کہ اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت بھی ہلاک ہو گئی، تو پھر قیامت تک اس دنیا میں کوئی تیرا نام لینے والا نہ رہے گا۔‘‘ رسول اللہ ؐ کے ان آنسوئوں نے زمین و آسمان کو ہلا دیا۔ اللہ کے محبوبؐ کی ایسی رقّت آفریں دعا سے رحمتِ الٰہی بھی جوش میں آگئی اور اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی۔ ’’اے میرے حبیب ؐ ! میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تم اہلِ ایمان کے قدم جمائو، میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا۔ اے نبی ؐ ! تم پریشان نہ ہو، ہم ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کریں گے، جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے جائیں گے۔‘‘ (سورہ ٔانفال) اللہ کے اس پیغام کے بعد حضورؐ کے چہرئہ انور پر مسکراہٹ آگئی۔ آپ نے ایک مٹھی مٹّی اٹھائی اور مشرکین کی جانب اچھال دی۔ مٹّی کے ذرّات کا کفار کے چہروں پر پڑنا تھا کہ وہ درد و تکلیف سے بلبلا اٹھے۔ جس پر اللہ نے فرمایا ’’(اے نبی ؐ ) جب آپ ؐ نے (مٹّی کو) پھینکا، تو در حقیقت آپ ؐ نے نہیں پھینکا، بلکہ اللہ نے پھینکا۔‘‘(انفال) حضورؐ نے حملے کا حکم فرمایا اور حق و باطل کے درمیان وہ عظم معرکہ ہوا کہ جس نے عقل ِ انسانی کو حیران کر دیاکہ ایک طرف حضرت ابو بکر صدیقؓہیں، تو دوسری طرف ان کے صاحب زادے، عبدالرحمن، ایک طرف سیّدنا علی مرتضیٰ ؓ ہیں، تو دوسری طرف بھائی، عقیل ، ایک طرف حضرت حذیفہؓ ہیں، تو صفِ مخالف میں باپ عقبہ۔ ایک طرف حضرت عمر فاروقؓ ہیں، تو کفّار کے ساتھ آپ کے ماموں، عاص بن ہشام، اورپھر مجاہدین کی قیادت، امام الانبیاء سرکارِ دوعالم ؐ فرما رہے ہیں، تو مشرکین کی صفوں میں آپ کے چچا، عباس اور داماد ابو العاص ہیں۔ بلاشبہ، اسلام کا یہی وہ حقیقی رشتہ تھا کہ جس میں حبش کا بدو تو پیارا تھا، لیکن حقیقی چچا غیر، روم کا صہیب تو اپنا تھا، لیکن حقیقی بیٹا اجنبی اور پھر جلد ہی چشمِ فلک نے یہ حیران کن منظر دیکھا کہ کفارانِ قریش، بدحواسی اور سراسیمگی کے عالم میں ابو جہل اور گیارہ نام ور سرداروں سمیت 70 جنگ جوئوں کی لاشوں اور اتنے ہی زخمیوں کو تڑپتا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جزیرۃ العرب کی تاریخ، میں یہ پہلا موقع تھا کہ کفارِ مکّہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور مسلمانوں کو ان کی طویل جدوجہد، لازوال قربانیوں اور بے شمار تکالیف، مصائب و آلام کا بہترین انعام، اس عظیم فتح و نصرت کی صورت میں عطا ہوا۔ یہ مسلمانوں کی قوتِ ایمانی، اللہ اور اس کے رسولؐ پر کامل یقین ہی کا ثمر تھا کہ باری تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے مدد فرمائی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس کے بعد بھی جب تک مسلمان کامل ایمان اور مکمل یقین کے ساتھ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہے، کام یابیاں ان کے قدم چومتی رہیں۔ اور آج بھی اللہ کی تائید و نصرت مسلمانوں کی پہنچ سے دور نہیں، بس ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم رب کو راضی کرلیں۔ رمضان کے عشرئہ ثانی میں کفر و اسلام اور حق و باطل کا یہ پہلا معرکہ پیش آیا، جس نے عظمتِ اسلام پر مہرِتصدیق ثبت کی۔ سو، ماہِ مبارک کا یہ دوسرا عشرہ جہاں ہمیں بخشش و مغفرت کی نوید سناتا ہے، وہیں ہمیں دین کے لیے مَر مٹنے، جرات و شجاعت، صبر واستقامت اور پامردی کا درس بھی دیتا ہے۔