• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام نے رزق حلال کمانے بشمول مسکین، نادار، بیمار ومعذور افراد کی حالت بہتر بنانے اور ناخواندگی پر قابو پانے جیسے عظیم مقاصد کےحصول کے لئے زکوٰۃ کا عظیم الشان نظام پیش کیا ہے جو صرف مسلمانوں کو ہی دی جاسکتی ہے۔ نماز کے بعد اسلام کا دوسرا سب سے بڑا رکن زکوٰۃ ہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اللہ کو نیک اور ( خلوص نیت سے) قرض دیتے رہو ‘‘۔ 73:20ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ’’ اگر تم اللہ کو ( اخلاص اور نیت نیک سے) قرض دوگے تو وہ اس کو تمہارے لئے بڑھاتا چلا جائے گا‘‘ 64:17نظام زکوٰۃ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے جو بنیادی شرائط ہیں ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
1۔ زکوٰۃ کے ایک بڑے حصے کو رزق حلال کمانے کے لئے استعمال کیا جائے ۔
2۔ زکوٰۃ اکٹھی کرنے اور تقسیم کرنے کے لئے اجتماعی نظام قائم کیا جائے۔
3۔ معاشرے کی اصلاح کا عمل مسلسل جاری رکھا جائے ، معیشت کو اسلامی خطوط پر استوار کیا جائے بشمول سودی نظام بینکاری سے پیچھا چھڑا کر نفع ونقصان میں شراکت کی بنیاد پر اسلامی نظام بینکاری کا نفاذ اور ملکی قوانین کو قرآن وسنت کے تابع کیا جائے۔
اسلام نے رزق حلال کمانا ہر مسلمان کے لئے فرض قرار دیا ہے چنانچہ زکوٰۃ کے ایک بڑے حصے کو مسلمان مستحقین کو رزق حلال کمانے میں مدد دینے کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔اسلام میں اجتماعیت کا تصور ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ ان کے اموال میں سے زکوٰۃ وصول کرکے ان کو پاک اور صاف کردو ‘‘۔ 9: 103اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے نبی کریمﷺ سے فرمایا ہے کہ آپ ان سے زکوٰۃ وصول کریں یعنی مسلمانوں کو یہ حکم نہیں دیا کہ وہ زکوٰۃ کی رقوم کو الگ الگ خرچ کریں۔ اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صاحب نصاب مسلمانوں بشمول اداروں سے زکوٰۃ وصول کرے اور اس کو مستحقین تک پہنچانے کا ایک باقاعدہ نظام وضع کرے ۔ ایک تخمینے کے مطابق وطن عزیز میں لوگ ازخود تقریباً450ارب روپے سالانہ زکوٰۃ ، صدقات، خیرات وعطیات کی مد میں ادا کرتے ہیں جبکہ اعتماد کے بحران کی وجہ سے حکومت کو زکوٰۃ کی مد میں صرف تقریباً8ارب روپے سالانہ ہی ملتے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کی مد میں450ارب روپے سالانہ کی ادائیگی کے نتائج نظر نہیں آرہے ۔ اس کی ایک وجہ عدم اجتماعیت کے علاوہ یہ بھی ہے کہ وفاق اور چاروں صو بے سماجی شعبے سے متعلق آئین کی شقوں مثلاً 25( الف) اور38(د)پر عمل نہیں کرتے جبکہ صرف تعلیم وصحت کے شعبوں میں اوسطاً تقریباً 2600ارب روپے سالانہ کم مختص کرتے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ وفاق اور چاروں صوبے ٹیکسوں کی مد میں استعداد سے تقریباً 4500ارب روپے سالانہ کم ٹیکس وسول کرتے ہیں جس میں کئی ہزار ارب روپے سالانہ ٹیکس کی چوری بھی شامل ہے۔ صا ف ظاہر ہے کہ زکوٰۃ وخیرات وغیرہ کی مد میں دی جانے والی رقوم سے ان نقصانات کا صرف ایک حصہ ہی پورا ہوتا ہے۔ اس صورت حال کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں معیشت دستاویزی نہیں ہے مگر جو کچھ اعدادو شمار دستیاب ہیں ان کی روشنی میں اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ وہ اثاثے جو نصاب کی تعریف میں آتے ہیں ان کا مجموعی حجم50ہزار ارب روپے ہے تو ان اثاثوں پر دی جانے والی زکوٰۃ کا حجم1250ارب روپے سالانہ بنتا ہے۔ اس رقم کا ایک بڑا حصہ اگر مستحقین کو رزق حلال کمانے کے قابل بنانے کے لئے استعمال کیا جائے تو چند برسوں میں وطن عزیز میں خوشحالی نظر آے گی ۔ موجودہ حالات میں یہ تصور کرنا کہ عوام حکومت کو زکوٰۃ کا بڑا حصہ ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے قطعی غیر حقیقت پسندانہ ہوگا چنانچہ زکوٰۃ کے حقیقی فیوض وبرکات حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل اضافی تجاویز پیش ہیں:
پاکستان میں30جون2017کو صرف24ہزار اداروں نے بینکوں سے تقریباً 5ہزار ارب روپے کے قرضے لئے ہوئے تھےجوکہ بینکوں کے مجوعی قرضوں کا تقریباً83فیصد تھے۔ اگر اس رقم کا صرف15فیصد یعنی750ارب روپے کا سرمایہ اسلامی بینکوں کے ذریعے چند برسوں میں الیکڑیشن، پلمبر، کارپینٹر، مکینک درزی، چھوٹی گھریلو صنعتیں قائم کرنے کے خواہش مند خواتین وحضرات اور چھوٹے کسانوں وغیرہ کو خصوصی طور پر وضع کردہ مائیکرو فنانس اسکیم کے تحت فراہم کیا جائے تو لاکھوں افراد رزق حلال کما سکیں گے ۔ اس اسکیم میں مندرجہ ذیل نکات بھی لازماً اسٹیٹ بینک کو شامل کرنا ہونگے۔
1۔اس اسکیم کے تحت سرمایہ صرف اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کاروبار کرنے والے بینک ہی فراہم کرسکیں گے جبکہ بینکوں سے سرمایہ صرف زکوٰۃ کے مستحق افراد ہی حاصل کرسکیں گے ۔
2۔ 750ارب روپے کے سرمائے کی فراہمی کے لئے بینک ’’ ایکوٹی‘‘ کی مد میں جو رقم لگانے کی شرط عائد کرتے ہیں وہ زکوٰۃ کی250ارب روپے کی رقم سے پوری کی جائے گی ۔ اس طرح ان افراد کو مجموعی طور پر ایک ہزار ارب روپے کا سر مایہ اور چند برسوں میں کئی ملین افراد کو روزگار مل جائے گا۔
3۔ اس اسکیم کو کامیاب بنانے میں علما، مفتیان کرام،سیاسی جماعتوں کے فلاحی شعبے اور دوسرے فلاحی وتعلیمی اداروں وتنظیموں وغیرہ کا کردار بھی انتہائی اہم ہوگا۔
4۔ اس اسکیم کی کامیابی کے لئے معاشرے کے مختلف طبقوں بشمول اساتذہ، وکلا، ڈاکٹرز ،انجینئرز، چارئرڈ اکاونٹس، ریٹائرڈ سول وملٹری بیوروکریسی وعدلیہ کے اراکین ،صحافی، تاجر ، صنعتکار اور گھریلو خواتین وغیرہ کوبھی اپنے حلقہ احباب کے الگ الگ گروپ بناکر زکوٰۃ کی رقم اکٹھا کرنا ہوگی۔ یہ رقم اسلامی بینکوں کے سرمائے کی فراہمی کے لئے ’’ ایکوٹی‘‘ کی مد میں استعمال کی جائے گی ۔ سرمائے کی فراہمی کی حتمی منظوری کا اختیار اسٹیٹ بینک کے قواعد وضوابط کی روشنی میں صرف بینک کو حاصل ہوگا ۔
5۔ بینکوں کی جانب سے فراہم کی جانے والی رقوم کے غلط استعمال کوروکنے کے لئے اسٹیٹ کو اسکیم میں ہدایات شامل کرنا ہونگی جبکہ بینکوں کے سرمائے کی بروقت واپسی کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کو انتہائی سخت قوانین بنانا ہونگے ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بجٹ میں مختص کی گئی رقوم میں سے کم ازکم 100ارب روپے مائیکروفنانس اسکیم کے تحت قرضوں کی فراہمی کے لئے ’’ایکوٹی‘‘ کی مد میں استعمال کیے جائیں۔ اس طرح ضرورت مندوں کو100ارب روپے کی بجائے 300ارب روپے مل جائیں گے ۔ اس سے غیر مسلم بھی فائدہ اٹھاسکیں گے ۔
ملک میں مختلف صنعتی ادارے مثلاً آٹو موبائل انڈسٹری اپنے استعمال کے لئے پرزہ جات دوسری فیکٹریوں سے بنواتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوان صنعتوں کےمالکان زکوٰۃ کی رقم سے ان پرزوں کو بنوانے کے لئے فیکٹریاں قائم کریں۔ ان اداروں میں جہاں تک ممکن ہو ملازمت بھی ان مستحق ملازمین کو ہی دینا ہوگی ۔
کرہ ارض پر مسلمانوں کی آبادی1.8ارب ہے۔ مالدار اسلامی ملکوں کی آبادی بہت کم ہے۔ اگر یہ مالدار ممالک زکوٰۃ کی رقم سے کم ترقی یافتہ کم فی کس آمدنی والے مسلمان ملکوں میں صنعتی ادارے قائم کریں تواسلامی دنیا میں غربت وبے روزگاری میں زبردست کمی ہوگی ، اسلامی ممالک کی آپس میں تجارت میں اضافہ ہوگا اور عالمی جی دی پی میں اسلامی دنیا کا حصہ بڑھ جائے گا ۔ یہ اس وقت ممکن ہوگا جب آبادی کے لحاظ سے دوسرےسب سے بڑے اسلامی ملک پاکستان میں زکوٰۃ کا نظام مندرجہ بالا خطوط پر کامیابی سے چل رہا ہو جسے ایک کامیاب ماڈل کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین