• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کس نے جانا تھا کہ سندھ کا شہر دادو جسے تحریک بحالی جمہوریت کے دوران فوجی آمر ضیاء الحق کی آمد پر ان کا دھوتی گھیراؤ کرنے کے حوالے سے سندھ کے لوگوں اور پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالوں نے”ویتنام“ قرار دیا تھا، وہاں حکمران پیپلزپارٹی کے ایک وزیر کے قافلے کو اپنے ہی شہر اور گلیوں میں لوگ روک کر جوتے دکھائیں گے۔ اسی طرح ٹنڈو محمد خان کے قریب خواتین سندھی قوم پرست کارکن ایسی کارروائی سندھ اسمبلی کے اسپیکر نثار کھوڑو کے ساتھ کریں گی، کس نے جانا تھا!ایک مارشل لاء پیپلز پارٹی والوں کے خلاف ضیاء الحق نے لگایا تھا اب دوسرا مارشل لاء ان کے خلاف سندھ کے لوگوں نے لگایا ہے۔ لوگ پیپلز پارٹی کی حکومت اور خاص طور پر صدر زرداری کے خلاف غصے میں ہیں، پارٹی کے وزیروں، مشیروں کے گھروں پر توے اور پرانے جوتے ٹانکے جا ر ہے ہیں، صوبے میں وزیروں کا راستہ روکا جارہا ہے یہاں تک کہ جانوروں پر ان کے نام لکھ کر ان کے جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے احتجاج کے کئی طریقے سڑک چھاپ ہیں۔ یہ طریقے نہ جمہوری ہیں، نہ مہذب۔ انسانوں پر جانورں کے نام رکھنا انسانی و حیوانی حقوق دونوں کے منافی ہے۔صوبے میں یہ غم وغصہ سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس صوبائی اسمبلی سے منظور کرانے کے بعد مزید بڑھ گیا ہے۔ یوں سندھ میں ایک نیا سیاسی کلچر متعارف ہورہا ہے۔
سندھ میں پی پی پی حکومت کی اتحادی پارٹیاں جن میں پیر پگار ا کی مسلم لیگ (فنکشنل)، عوامی نیشنل پارٹی اور جتوئی گروپ کے رہنما کہتے ہیں کہ انہیں اس بل پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ وہ اب حکومت سے علیحدہ ہو کر سندھی قوم پرستوں کے (سڑکوں پر اور پریس کلبوں کے سامنے) احتجاجی جلسے جلوسوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ سندھ کے لوگ جنہوں نے بے نظیر بھٹو کو ملیر کی ماروی کا لقب دیا تھا اب سندھی قوم پرست یا قوم پرست نما لوگ ایسے القاب سندھ اسمبلی میں بل کی مخالفت میں اپنی کرسیاں چھوڑ کر فرش پر اسپیکر کے آگے دھرنا دیکر بل کی مخالفت میں احتجاج کرنے والی فنکشنل لیگ کی خواتین ارکان صوبائی اسمبلی نصرت سحر عباسی اور ماروی راشدی کو دے رہے ہیں۔ پیر پگارا شاہ مردان شاہ کے بعد مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ ان کے جانشین موجودہ پیر پگارا پیر صبغت اللہ شاہ کا نیا چہرہ ہے جو سندھی عوامی جذبات سے زیادہ قریب ہے۔ اگر وہ اپنے ماضی کے برعکس اقتدارکی سیاست سے زیادہ دن دور رہتے ہیں تو سندھ کو ایک متبادل قیادت ملنے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ سندھی قوم پرست تنظیمیں جسقم، عوامی تحریک، ترقی پسند پارٹی اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی، یہاں تک کہ سندھی ادیبوں کی تنظیم سندھی ادبی سنگت اور اس کے علاوہ بھی سندھی ادیب ،دانشور، لکھاری اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن( مرد وخواتین سب) سڑکوں پر نکل کر احتجاج کررہے ہیں۔ سندھ کے ادیبوں اور شاعروں کا احتجاج منفرد، انوکھا، پُرامن،جمہوری اور مہذب ہے جو انیس سو ساٹھ کی دہائی میں سندھی ادیبوں کے ون یونٹ کے خلاف چلائی گئی تحریک کی یاد دلاتا ہے۔ادیبوں کے اس احتجاج میں معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض بھی شامل ہیں۔
سندھی زبان تین بڑے ادیبوں میں سے ایک عطا محمد بھنبھرو نے صدارتی ایوارڈ لینے سے انکارکردیا، ممتاز محقق و اسکالر درمحمد پٹھان اور عوامی شاعر محمد خان مجیدی مرحوم کی طرف سے ان کی صاحبزادی اور شاعرہ مریم مجیدی نے بھی حکومتی ایوارڈ واپس کردیئے ہیں۔ مریم مجیدی کے خلاف ان کے شہر ٹھٹھہ میں احتجاجی مظاہرے میں شرکت کرنے پر دہشت گردی کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ ہدایت بلوچ جیسا شاعر جو ضیاء کی آمریت کے زمانے میں اس کے خلاف شعر لکھتے رہے اب پی پی پی حکومت کے خلاف پیپلز لوکل بل پر قطعے لکھنے لگے ہیں۔ ان سندھی ادیبوں کا ایک ہی” شاعرانہ نعرہ“ ہے جو اب تمام سندھ و عالم میں مشہور ہو چلا ہے کہ ”تو سندھ کھپائی زرداری یعنی زرداری تم نے سندھ فروخت کر ڈالا“۔ یاد رہے کہ سندھی زبان میں لفظ ”کھپے“ کا ایک مطلب ”فروخت کرنا“ بھی ہوتا ہے۔ سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کی لفظی بھول بھلیوں و قانونی موشگافیوں سے قطع نظر سندھ میں آگ لگی ہوئی ہے، خانہ جنگی کی سی کیفیت ہے، سندھ جل رہا ہے اور ہمارا عظیم نیرو بانسری بجا رہا ہے۔میئروں کا نظام آج کی جدید جمہوریت میں سب سے بہتر نظام ہے اگر وہ برابری اور انصاف کی بنیاد پر ہو، سب علاقوں میں یکساں طور پر لاگو ہو مگر جہاں لوگوں اور قبائل کی آپس میں صدیوں، عشروں سے دشمنیاں افریقہ کے ”ہوتو“ اور زولو قبائل کی جنگوں کا نقشہ پیش کرتی ہوں وہاں اگر کندھ کوٹ یا گھوٹکی کا میئر تیغو خان تیغانی یا کسی قبائلی سردار کو منتخب کیا جائے یا لسانی طور پر منقسم کراچی و حیدرآباد کی شہری انتظامیہ شہری وڈیروں کے حوالے کردی جائے تو سندھ بلقان کی ریاستوں کا نقشہ پیش کرنے لگے گا لیکن کیا کیجئے کہ جمہوریت میں تو کبھی پھولن دیوی بھی منتخب ہوکر آسکتی ہے تو کبھی آصف علی زرداری یا مصطفی کمال جیسے بھلے مانس۔اب تک اس متنازع بل پر جسے سندھ کے اکثر لوگ ”کالا قانون“ قرار دیتے ہیں احتجاج اور اس کی حمایت میں الگ الگ واقعات میں نو افراد قتل ہو چکے ہیں جن میں پولیس اور پی پی پی ایم پی اے فائرنگ سے جسقم، ترقی پسند پارٹی اور مسلم لیگ فنکشنل کے کارکنوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ کے جلسے پر مبینہ حملے میں ایک صحافی و کالج پروفیسر سمیت چھ افراد بھی شامل ہیں۔ اپنی پینتالیس سالہ تاریخ میں پہلی بار پیپلزپارٹی کو اپنے ہی طاقت کے مرکز سندھ میں سندھی قوم پرستوں کو اپنے لئے چیلنج سمجھتے ہوئے ملک گیر سطح کی قیادت کا جلسہ منعقد کرنا پڑا جس میں مقررین کا ہدف سندھ کے قوم پرست تھے۔ تمام مقررین نے سندھی قوم پرستوں کی بل کے خلاف ہلچل کے پیچھے نوازشریف کا ہاتھ اور پیسہ بتایا۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی لگائیے کہ حیدرآباد کے جلسے کے بارے میں پی پی پی کے ہی رکن قومی اسمبلی اور سندھ میں ایم آرڈی تحریک کے ایک رہنما سید ظفر علی شاہ نے جلسے والے دن قومی اسمبلی کے اجلاس میں کہا ”قوم پرستوں، قوم پرست نما سول سوسائٹی نے اس بار ہوا میں سائیکل نہیں چلائی۔ وہ گلیوں اور میدانوں میں سندھ کے حقیقی یا تصوراتی ایشوز پر عام سندھی عوام کو متحرک اور مشتعل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ایک منفی لیکن نامناسب مہم ہے اورکچھ قوم پرست گروپوں نے تشدد کا راستہ بھی اپنایا ہے جس میں پی پی پی وزیروں اور ایک ایم پی اے کے گھروں پر دیسی ساخت کے بموں کا پھینکا جانا بھی شامل ہے۔ انتہاپسند قوم پرستوں کی طرف سے پی پی پی کے وزیروں اور لیڈروں کی پرتشدد یا ہتک آمیز انداز میں ان کا راستہ روکنا یا ان کے گھروں کا گھیراؤ جیسے واقعات سندھ کے عوام کی نظروں میں قوم پرستوں کو ہیرو ہرگز نہیں بناسکتے، دوسری طرف پی پی پی حکومت گولی لاٹھی کی سرکار بنی نظر آتی ہے۔کل میرا ایک دوست سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی اور ڈاکو پروچانڈیو کے علاقے سے ٹیلیفون پر بتا رہا تھا کہ سندھ میں سادہ لوح دیہاتی کہہ رہے ہیں کہ نوکریاں فروخت کردیں تو کوئی بات نہیں، سیلابوں میں ڈوبے تو بھی ہم نے صبر کیا لیکن زرداری نے، سنا ہے کہ کراچی بھی بیچ ڈالی، سندھ بھی کھپا ڈالی!
پیپلزپارٹی بقول شخصے وہ لیلیٰ ہے جس نے اپنے عاشقوں کو صحرا میں بے وجہ، بے خطا رلایا و پھرایا ہے۔ اب لگتا ہے کہ اکثر سندھیوں کے دماغ سے اس کے عشق کا بھوت اترنے لگا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سندھیوں پر وہ قرض بھی اترا ہے کہ نہیں جس کو وہ بھٹو کا قرض کہتے ہیں اور ہر بار الیکشن میں اس کی قسط ادا کرتے آئے ہیں، قرض ہے کہ چڑھتا جاتا ہے کیونکہ ایک طرف لوگوں کے ووٹ ہیں اور دوسری طرف بھٹوؤں کے سر۔ سروں کی قربانیاں تو قوم پرستوں نے بھی بہت دی ہیں لیکن قوم پرست لیڈر نہیں دے سکے۔اگر یہ سب کچھ آنے والے انتخابات کے التوا کے ضمن میں میدان تیار کرنے کے ڈرامے یا آئی جے آئی کی نئی شکل نہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ سندھ کے میدانوں اور گلیوں میں پی پی پی اور زرداری کے خلاف موجود بے چینی و بیزاری آئندہ انتخابات میں ووٹوں کی شکل میں بھی بدل سکتی ہے یا نہیں؟
تازہ ترین