ارشادِ ربانی ہے:اور روزہ رکھ لینا تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تمہیں سمجھ ہو۔(سورۃ البقرہ184 )
پہلی حکمت:۔ روزے کی پہلی حکمت تقویٰ ہے ۔ گویا روزے کا مقصدِ عظمیٰ انسانی سیرت کے اندر تقویٰ کا جوہر پیدا کرکے اس کے قلب و باطن کو روحانیت و نورانیت سے منور کرنا ہے۔ اگر روزے سے حاصل شدہ تقویٰ کے تقاضوں پر عمل کیا جائے تو انسان کی باطنی کائنات میں ایسا ہمہ گیر انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ جس سے اس کی زندگی کے شب و روز یکسر بدل کر رہ جائیں۔تقویٰ ظاہری نظر میں انسان کو حرام چیزوں سے اجتناب کی تعلیم دیتا ہے،لیکن اگر گہری نگاہ سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ روزے کی بدولت حاصل شدہ تقویٰ حرام چیزیں تو درکنار ان حلال و طیب چیزوں کے قریب بھی بحالت روزہ آنے نہیںدیتا،جن سے فائدہ حاصل کرنا عام حالت میں بالکل درست ہے۔ ہر سال ایک ماہ کے اس ضبطِ نفس کی لازمی تربیت کااہتمام،اس مقصد کے حصول کے لیے ہے کہ انسان کے قلب و باطن میں سال کے باقی گیارہ مہینوں میں حرام و حلال کا فرق وامتیاز روا رکھنے کا جذبہ اس درجہ فروغ پائے کہ اس کی باقی زندگی ان خطوط پر استوار ہوجائے کہ وہ ہر معاملے میں حکمِ خداوندی کے آگے سر تسلم خم کرتے ہوئے حرام چیزوں کے سائے سے بھی بچ جائے۔اگر تقویٰ کا صحیح مفہوم ہم سمجھ جائیں تو ہماری زندگیاں سراسر خوف و خشیت الٰہی سے عبارت ہوجائیں۔
دوسری حکمت:۔ روزے کی ایک حکمت صبر و شکر کا حصول ہے۔ اس حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کسی نعمت سے محرومی پر شکوہ کے بجائے صبر سے کام لے۔ روزہ ایک مسلمان سے صرف صبر ہی نہیں،بلکہ اس سے بھی بلند تر مقام، مقام شکر پر پہنچنے کا تقاضا کرتا ہے۔ روزہ انسان کے اندر یہ جوہر پیدا کرنا چاہتا ہے کہ نعمت کے چھن جانے پر اور ہر قسم کی مصیبت،ابتلا اور آزمائش کا سامنا کرتے وقت اس کی طبیعت میں ملال اور پیشانی پر شکن کے آثار پید انہ ہونے پائیں، بلکہ وہ ہر تنگی و ترشی کا خندہ پیشانی سے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا رہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آیت صوم میں لَعَلَّکُمْ تشکُرُؤنَ کے ذریعے تشکر کی اہمیت و ضرورت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
تیسری حکمت:۔ روزے کی حالت میں انسان بھوک اور پیاس کے کرب سے گزرتا ہے تو لامحالہ اس کے دِل میں ایثار، اور قربانی کا جذبہ ابھرتا ہے۔ وہ عملاً اس کیفیت سے گزرتا ہے جس کا سامنا معاشرے کے مفلوک الحال اور کھانے پینے سے محروم لوگ روزانہ کرتے ہیں۔ گویا روزے کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے آسودہ حال بندوں کو ان شکستہ اور بے سرو سامان لوگوں کی زبوں حالی سے آگاہ کرنا چاہتا ہے،جو اپنے تن و جان کا رشتہ بمشکل برقرار رکھے ہوئے ہیں،تاکہ ان کے دل میں دکھی اور پریشان حال انسانیت کی خدمت کا جذبہ فروغ پائے اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ وجود میںآسکے جس کی اساس باہمی محبت و مروّت،انسان دوستی، درد مندی و غم خواری کی لافانی اقدار پر ہو۔ اس احساس کا بیدار ہونا روزے کی روح کا لازمی تقاضا ہے۔
چوتھی حکمت:۔ روزے کی چوتھی حکمت تزکیۂ نفس ہے۔ روزہ انسان کے نفس اور قلب و باطن کو ہر قسم کی آلودگی اور کثافت سے پاک و صاف کردیتا ہے۔مسلسل روزے کے عمل اور مجاہدے سے تزکیۂ نفس کا عمل تیز تر ہونے لگتا ہے، جس کی وجہ سے رُوح کثافتوں سے پاک ہوکر لطیف تر اور قوی تر ہوجاتی ہے۔
پانچویں حکمت:۔روزے کی پانچویں حکمت رضائے خداوندی کا حصول ہے۔ روزے کا منتہائے مقصود یہی ہے کہ وہ بندے کو تمام روحانی مراتب و مدارج طے کرانے کے بعد مقام رضا پر فائز دیکھنا چاہتا ہے۔ مقام رضا یہ ہے کہ رب اپنے بندے سے راضی ہوجائے۔ یہ مقام انسان کو روزے کے توسط سے ملتا ہے۔یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کے مقابلے میں باقی تمام نعمتیں،ہیچ دکھائی دیتی ہیں۔ روزہ وہ منفرد عمل ہے جس کے اجرو جزاء کا معاملہ رب اور بندے کے درمیان چھوڑ دیا گیا، کیوںکہ اس کی رضا حدو حساب کے تعین سے ماوراء ہے۔