• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میں ہوں ہر فن مولا‘‘ سیکھنے کا عمل کبھی رُکتا نہیں

’’میں ہوں ہر فن مولا‘‘ سیکھنے کا عمل کبھی رُکتا نہیں

عابد محمود عزام

دنیا میں ہرشخص کام یابی کی منازل طے کرنا چاہتا ہے، مگر کام یابی خوابوں اور باتوں سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے طویل جدوجہد کرنا پڑتی ہے، طویل سے طویل سفر کا آغاز پہلے قدم سے ہی ہوتا ہے، لیکن اکثر نوجوان کام یابی حاصل کرنے کے لیے ، پہلا قدم اُٹھانے سے کتراتے ، محض خوابوں اور باتوں میں ہر چیز فتح کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے نوجوان دوسروں کی کام یابی کو دیکھ کر اس پر رشک تو کرتے ہیں، لیکن ان کی زندگی، محنت اور جدوجہد سے کچھ سیکھ کر ان کی طرح کام کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ کچھ نوجوان خود کو عقلِ کُل سمجھ لیتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ سیکھنے کا عمل صرف تعلیمی اداروں تک ہی محدود ہے، فارغ التحصیل ہونے کے بعد اب انہیں کچھ سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، حالاں کہ یہی سوچ ناکامی کا پہلا زینہ ثابت ہوتی ہے، زندگی مسلسل سیکھتے رہنے کا نام ہے، جب سیکھنے کا عمل رُکتا ہے، توناکامیوں کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ایک باشعورانسان کبھی یہ نہیں سوچتا کہ اب اس پر علم حاصل کرنے، معلومات اکٹھی کرنے اور سیکھنے کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔ خوابوںکی تعبیر حاصل کرنے کے لیےسب سے اہم نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی غلطیوں سے سیکھنا بھی انتہائی اہم ہے۔اکثر دفاتر میں دیکھا گیا ہے کہ کچھ نوجوانوں سے جب ان سے کوئی کام بگڑجاتاہے، توبہ جائے اس کا اعتراف کرنے یا اسے سدھارنے کے وہ اس پر ڈٹ جاتے ہیں،اپنی غلطی کا اعتراف کرنا معیوب سمجھتے ہیں،کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ اپنے کام کے نقص کا اظہار کرنے سے ان کی عزت کم ہوجائے گی۔زندگی کا مکمل ادراک جہاں خوبیوں اور خامیوں میں فرق کو واضح کرتا ہے، وہاں اپنی غلطیوں کو تسلیم بھی کرواتا ہے۔ کام یاب زندگی کے لیے اپنی غلطیوں کی اصلاح بہت ضروری ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے، جب اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے ان پر غور ورفکرکیا جائے،ایسا کرنے سے نہ صرف آپ کے کام بلکہ شخصیت میں بھی نکھار پیدا ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ نسل نو میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا، اگر انہیں کوئی صلاح ، مشورہ دیا جائےیا کام کی اصلاح کی جائے، تو بہ جائے شکر گزار ہونے کے منہ بسور لیتے ہیں، بہت کم نوجوانوں میں یہ حوصلہ ہوتا ہے کہ اپنے کام پر ہونے والی تنقید کا خوش دلی سے سامنا کرکے کوتاہیوں کو دور کریں، جب چھوٹی چھوٹی غلطیوںپر نادم ہونےکے بہ جائے ان پر ڈَٹ جانے سے بڑی غلطیاں سر زد ہوتی ہیں، جن کے سدھار کا کوئی راستہ بھی نہیں بچتا،کبھی کبھار اس وجہ سے پیچیدہ صورتِ حال جنم لیتی ہے،جس کا نتیجہ شرمندگی اورناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اگر انسان بر وقت اپنی کوتاہیوں سے سبق سیکھتا رہے، تو پھر یہی کوتاہیاں ، اس کی طاقت بن کر اوجِ ثریا تک پہنچا دیتی ہیں۔ کامیاب زندگی کے بے شمار راز ہیں، مگر اپنی غلطیوں کو قبول کر کے ان سے سیکھنے کا حوصلہ پیدا کرنا بہت ہی روشن راز ہے۔کوئی بھی نوجوان چاہے، کتنا بھی علم کیوں نہ حاصل کرلے، فنون پر گرفت مضبوط کر لے، مگر پھر بھی دوسروں سے سیکھنے کا محتاج رہتا ہے۔ زمانے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ ہرروز نت نئی چیزیں اسے کچھ نیا سکھانے کی منتظر رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو کئی صلاحیتوں سے نوازا ہے، ہو سکتا ہےم، جو علم آپ کے پاس نہیں ہے، وہ کسی اور کے پاس ہو، اس لیے کبھی کسی سے کچھ پوچھنے چاہے وہ آپ سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، سیکھنے یا معلوم کرنے میں عار یا شرمندگی محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے، کہ ہر لحظہ خودکو سیکھنے کے عمل سے گزارتے رہیں۔آپ کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اپنے شعبےکے ان لوگوں میں شمار ہو، جو کارکردگی، علم اور ہنر میں اعلیٰ ترین ہیں۔ اس کے لیے اپنے شعبہ کا تجزیہ کرنا ہوگا اور اپنے مدمقابل لوگوں کی زندگی کا بھی ۔ کام یاب لوگوں سے ذاتی طور پر مل کر بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے انہوں نے کیا کچھ کیا ہے۔ ان سے معلومات حاصل کرکے کام یاب ہونے کے لیے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم بھی وہی کچھ کر سکتے ہیں، دوسروں سے ملاقات کے ذریعے بھی بہت کچھ سیکھا جاتا ہے، اسی طرح مطالعہ کے ذریعے بھی انسان بہت کچھ حاصل کرتا ہے۔سیکھنے کے اس عمل کو جاری رکھنے کے لیے ذہنی سرگرمی کی بہت ضرورت ہوتی ہے ، مطالعہ ایک ایسی سرگرمی ہے، جو نہ صرف آپ کی معلومات میں اضافہ کرتی ہے، بلکہ آپ کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی پروان چڑھاتی ہے۔ اگر کوئی شخص کاروبار کرنا چاہتا ہے ،تو ماضی میں اپنے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی غلطیوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ ایسی سوانح ، خود نوشت تلاش کرنی چاہیے ،جس میں کسی نے اپنی ناکامیوں سے حاصل ہونے والے سبق بیان کیے ہوں، تاکہ وہ غلطیاں آپ نہ دُہرائیں۔ مطالعےکے ذریعے ہر شعبہ زندگی میں سیکھا جاسکتا ہے۔ مطالعے کی مدد سے ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ کون سا قدم ہمارے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا اور کون سی راہ منزل کی طرف نہیں جاتی۔ مطالعے سے ہم دوسروں کے تجربوں میں شریک ہوتے ہیں اور اپنی زندگی کی وسعتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔مسلسل سیکھنا ہی کام یابی کی ضمانت ہے۔

تازہ ترین