ریحان احمد
نوجوانوں کاذہنی تنائو کا شکار ہونا غیر معمولی نہیں ،آج کل تو ہر دوسرا نوجوان اس کا شکار ہے،غیر حقیقی سماجی اور خاندانی توقعات بھی ذہنی تنائو کی ایک اہم وجہ بن سکتی ہیں، جن سے مایوسی کا گہرا احساس جنم لیتا ہے۔کالج یا گھر میں توقعات کا پورا نہ ہونے کے باعث نوجوان اپنا گہرا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔ بہت سے نوجوان یہ محسوس کرتے ہیںکہ زندگی بہتر نہیں ہے یا یہ درست سمت میں نہیں جارہی۔ وہ بہت زیادہ ذہنی دبائو اور ابہام کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ چیزیں اس وقت مزید پیچیدہ صورتِ حال اختیار کرجاتی ہیں، جب ان پر اہل خانہ، اساتذہ اور معاشرے کا دبائو ہو۔ عہدِ حاضر کا نوجوان ٹی وی، انٹرنیٹ اورتعلیمی اداروں میں منفی یا مثبت ماورائے زندگی تجربات سے دوچار ہوتا ہے، چناں چہ انہیںزیادہ توجہ اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ،جب ان کے جذبات میں اُتار چڑھائو روزمرہ کی زندگی پر اثرانداز ہونے لگے، تو یہ سنجیدہ نوعیت کے جذباتی اور ذہنی تنائو کا عکاس ہوتا ہے، جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے انہیں ہنگامی بنیادوں پر مدد دکار ہوتی ہے۔ والدین کو اس موقعے پرمثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ذہنی تناؤ کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ ، دن کا زیادہ وقت سوشل میڈیا اور موبائل فون کا استعمال ہے،نسل نو میں ڈپریشن کی سب سے بڑی وجہ ماہرین نے سوشل میڈیا کو قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ آج کل ہر دوسرا نوجوان اپنا موبائل فون استعمال کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔چاہے وہ فیملی کے ساتھ ہوں، دوستوں کے ساتھ ہوں یا پھر کہیں اکیلے ہی بیٹھے ہوں۔ حد سے زیادہ سوشل یا موبائل فون کا استعمال ان میں ڈپریشن پیدا کر رہا ہے، جوانتہائی خطرناک ہے۔ آسٹریلیا اور چین میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں پتا چلا ہے کہ بہت سے نوجوان انٹرنیٹ اتنا زیادہ استعمال کرتے ہیں کہ انہیں اس کی نشے کی طرح عادت ہو جاتی ہے۔ ایک تازہ سروے کے مطابق تقریبا ًہروقت آن لائن رہنے والے نوجوانوں میں ڈپریشن کا شکار ہو جانے کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ آج کے دور میں بھلا انٹرنیٹ اور موبائل ٹیلی فون کون استعمال نہیں کرنا چاہے گا؟ انٹرنیٹ تو نوجونوں میں اتنا مقبول ہے کہ ترقی یافتہ، ترقی پزیر اور غریب ریاستوں تک میں نسل نوکو’ ’نیٹ جنریشن‘ ‘کہا جاتا ہے، لیکن اس کا ایک نقصان بھی ہے۔ طبی ماہرین کسی بھی صارف کے نامناسب حد تک زیادہ آن لائن رہنے کو، جسے متعلقہ فرد خود بھی کنڑول نہ کر سکے، انٹرنیٹ کے پیتھالوجیکل استعمال کا نام دیتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین میں ماہرین نے ابھی حال ہی میں ایک سروے مکمل کیا، جس میں انٹرنیٹ کے بیماری کی حد تک زیادہ استعمال اور بعد میں پیدا ہونے والے ذہنی صحت کے مسائل کا طویل عرصے تک تفصیلی مشاہدہ کیا گیا۔ اس مطالعے میں حصہ لینے والے ایک ہزار سے زائد چینی ٹین ایجرز کی اوسط عمر پندرہ برس تھی۔ تحقیق سے ثابت یہ ہوا کہ نشے کی حد تک انٹرنیٹ استعمال کرنے والے نوجوانوں میں،ڈپریشن کا شکار ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایسے نوجوانوں کی ذہنی و جسمانی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ وہ نوجوان جو مناسب حد تک انٹرنیٹ استعمال کرتے تھے، ان میں ایسے ذہنی اور نفسیاتی حالات کا شکار ہو جانے کا امکان کئی گنا کم رہا۔ یہ مطالعہ آسٹریلیا میں سڈنی کے اسکول آف میڈیسن اور چین میں گُوانگ ژُو یونیورسٹی کے اشتراک سے مکمل کیا گیا۔ ذیل میں بیان کی گئی تجاویز کے ذریعے نوجوانوں ڈپریشن کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
نئے دوست بنائیں:
دوستوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات نوجوانوں کے لیے انتہائی اہم ہوتے ہیں اور انہیں اپنی ذات کے اظہار کا ایک سماجی ذریعہ فراہم کرتے ہیں۔
غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیں:
مصروفیت کے باعث اکثر نوجوان مثبت سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیںاور وہ منفی احساسات اور رویوں کا شکار ہونے سے بچے رہتے ہیں۔تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے نوجوان ایک سے زیادہ چیزوں میں مہارت حاصل کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ غیر نصابی سرگرمیاں شخصیات ابھارنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔
بڑوں سے مدد حاصل کریں:
نسل نو کی اکثریت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے لگتا ہے کہ وہ عقلِ کُل ہے، یہ نسل انٹرنیٹ ، موبائل فون میں اتنی مصروف ہوگئی ہے،کہ گھر والوں ، بالخصوص گھر کے بزرگوں سے بات کرنے کا وقت ہی نہیں بچا، یہی وجہ ہے کہ بہت سے مسائل سر اٹھاتے ہیں، کیوں کہ ہم ان سے بات نہیں کرتے۔ بڑے تجربہ کار ہوتے ہیں، اگر نوجوان ان سے اپنے مسائل ، اپنی تکالیف، دکھ ، درد بانٹیں تو یقینی طور پر وہ بہتر حل تجویز کر یں گے، جب معاملات پر تنہا قابو پانا مشکل ہوجائے توبزرگوں کی رہنمائی حاصل کرنے سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
نوجوانوں میں ذہنی دبائو تشویش ناک حد تک بڑھ رہا ہے، حال ہی میں ہونے والا ایک سروے یہ ظاہرکرتا ہے کہ پانچ میں سے ایک نوجوان ڈپریشن کا شکار ہے اور یہ تناسب اس سے کہیں زیادہ ہوسکتا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور فوری طور پر علاج کا متقاضی ہے۔ دوسری جانب والدین اور اساتذہ کو بھی یہ چاہیے کہ نوجوانوں کے <اسکول یا کالج میں ناقص کارکردگی <،دوستوں اور مختلف سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوجانے،مایوسی اور ناامیدی < جوش و جذبے اور تحریک کا فقدان <،طیش میں آنے،ذرا سی تنقید پر بہت زیادہ ردّعمل ظاہرکرنے کی صورت میں ان پرخصوصی توجہ دیں، ان سے بات کریں، دوستوں کی طرح انہیں سمجھائیں، ان کے مسائل اطمینان سے سنیںاور اسے حل کرنے کی ممکن کوشش کریں۔ نوجوان انتہائی حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں، ذرا سی بے پروائی اور غفلت ان کے مستقبل پر <منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔