سلیم احمد سلیمی
10؍رمضان المبارک، اسلامی تاریخی کا ایک اہم دن، جسے ’’یوم باب الاسلام‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس اہم اور تاریخی دن سندھ میں اسلامی جھنڈا لہرا کر پورے سندھ میں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔یوم باب الاسلام ،پس منظر:۔ اسلام کی پہلی صدی ہجری کے اواخر میں ایک مشہور واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے عرب، سندھ فتح کرنے پر مجبور ہوگئے، تجارت مسلمانوں کا پرانا پیشہ اور شوق رہا ہے۔ ان کا کاروبار دُور دراز ملکوں تک مشہور تھا، اسکندریہ سے لے کر چین تک اور خلیج فارس میں بصرہ، بحیرہ عرب تک ان کی آمد و رفت رہتی۔خطے میں ایک قابل ذکر علاقہ ’’لنکا‘‘ واقع تھا جسےعرب’سیلان‘ کہا کرتے تھے۔ اس علاقے میں مسلمان تاجروں کی ایک جماعت مع اپنے اہل و عیال رہا کرتی تھی۔ ان میں ایک مسلمان تاجر وفات پا گیا، اس کی بیوہ، یتیم لڑکے اور لڑکیوں کو راجہ لنکا نے بڑے اہتمام اور تحفے و ہدایا کےساتھ ایک جہاز پر سوار کر کے خلیفہ ولید بن عبدالملک کی جانب روانہ کیا۔ جہاز جب ’’دیبل‘‘ کی بندرگاہ کے قریب پہنچا تو بحری قزاقوں نے اسے لُوٹ لیا۔ اِن قیدیوں میں ’’قبیلہ یربُوع‘‘ کی ایک عورت بے اختیار پکار اُٹھی۔ ’’فریاد… اے حجّاج۔ جب اس کی خبر حجاج کو پہنچی تو وہ غصے کے مارے بے تاب ہوگیا اور انتہائی جوش میں کہہ اُٹھا۔ ’’ہاں…! میں آیا۔‘‘
حجاج نے فوراً ایک فوج عبید اللہ بن نبہان کی زیر کمان دیبل کی طرف روانہ کی۔ دیبل پہنچ کر وہ جنگ میں مصروف ہوگئے۔ عبیداللہ اس جنگ میں شہید کر دیئے گئے۔ اس کے بعد حجاج نے فوراً بدیل بن طہفہ کو حکم دیا جو کہ اُس وقت عمان میں تھے کہ تم سندھ کے لشکر کا چارج سنبھال لو۔ ساتھ ہی مکران کے والی محمد بن ہارون کے نام حکم بھیجا کہ تین ہزار فوج تیار رکھو جو بدیل کے ساتھ مل کر جنگ آزما ہوگی۔ محمد بن ہارون خود بھی سندھ کی فتح کے خواہش مند تھے۔ بدیل تین ہزار کی فوج لے کر شہر دیبل پہنچا، دُشمنوں کی فوج سے مقابلہ ہوا، پُرزور حملے ہوئے، اس سے پہلے کہ کچھ فیصلہ ہوتا بدیل کا گھوڑا بدک گیا اور بدیل زین سے زمین پر آ گرے، دشمن نے موقع غنیمت جان کر چاروں طرف سے محصور کر کے شہید کر دیا۔ عربوں کی اِن دو ناکامیوں کے بعد حجاج اچھی طرح سمجھ گیا کہ معمولی تنبیہ سے کام نہیں چلے گا، اس کے لیے مستقل انتظام کرنا پڑے گا۔حجاج نے ان تمام اُمور پر غور اور دیگر وزراء سے مشورے کے بعد ایک فوج تیار کی اور اس کی کمانڈنگ کے لیے اپنے جواں سال (17،18 سالہ) بھتیجے محمد بن قاسم کا انتخاب کیا۔ جس وقت یہ فیصلہ کیا گیا اُس وقت محمد بن قاسم ’’رے‘‘ جانے کی تیاری کر رہا تھا، حکم ملتے ہی فیصلہ بدل کر سندھ کی طرف رُخ کرلیا۔حجاج کو اس فوج کا اس قدر خیال تھا کہ فوجی ضرورت کی کوئی شے ایسی نہیں تھی جو اس نے مہیا نہ کی ہو بلکہ روزمرہ تک کی چیزیں، یہاں تک کہ سوئی دھاگہ تک اس سامان رسد کے ساتھ بھیجا۔ اِبن قاسم نے مختصر سامان سفر تو ساتھ لے لیا مگر باقی بھاری اور تکلیف دہ چیزیں بڑے جہازوں کے ذریعہ سندھ کی مشہور بندرگاہ دیبل کی طرف روانہ کر دیں، اسی سامان رسد میں پانچ بڑی بڑی ’’منجنیقیں‘‘ بھی شامل تھیں، جن میں ایک کو ’’عروس‘‘ کہا جاتا تھا۔ ان منجنیقوں کو پانچ پانچ سو آدمی حرکت میں لاتے تھے۔
محمد بن قاسم ارمابیل سے مغربی سندھ کے سب سے مشہور شہر اور قدیم بندرگاہ ’’دیبل‘‘ پہنچا۔ یہ وہ بندرگاہ تھی جہاں عرب، ایران، عراق اور افریقہ کے جہاز لنگرانداز ہوا کرتے تھے۔ جب محمد بن قاسم دیبل پہنچا ،وہ جمعہ کا دن تھا۔ نماز کے بعد شہر کا محاصرہ کر کے چاروں طرف احتیاطاً خندقیں کھود دی گئیں، جنگ شروع ہو چکی تھی، طرفین سے شجاعت کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا، ہر طرف سے سنگ باری جارہی تھی، شہر پناہ کی دیواریں جگہ جگہ سے ٹُوٹ رہی تھیں، پھر بھی شہر کسی طرح فتح نہیں ہو پا رہا تھا، اس کوشش میں کئی ماہ لگ گئے۔ اس دوران محمدبن قاسم اور حجاج کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ اِبن قاسم جنگ کی پوری صورتحال لکھتا جس کے جواب میں حجاج کچھ مشورہ اور ہدایت دیتا۔ حجاج نے ابن قاسم کو ہدایت دی کہ منجنیق ’عروس‘ کو مشرق کی طرف نصب کر کے اس کا ایک پایہ کم کر کے اس کی سطح کچھ کم نیچے کر کے نشانہ باز کو حکم دو کہ وہ دیول کے گنبد پر سنگ باری کرے۔محمدبن قاسم نے حجاج کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے منجنیق کو مشرق کی طرف نصب کر کے سنگ باری کرائی تو وہ گنبد ٹُوٹ گیا۔ اس کے ٹوٹنے سے سارے شہر میں کہرام مچ گیا۔ داہر کے سپاہی جوش و خروش کے ساتھ باہر نکل آئے اور بہادری سے لڑنے لگے، اُدھر عرب مجاہدین نے بھی ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ خوں ریز جنگ کا منظر تھا، پھر بھی دشمن کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ جو بچ نکلے تھے شہر میں جا کر پناہ گزیں ہوگئے۔ عرب سپاہی جوش و خروش میں تھے اور فصیلوں پر چڑھنے کی کوشش میں لگ گئے۔ کوفہ کے رہائشی قبیلہ ’مراد‘ کے ایک بہادر سپاہی نے سب سے پہلے فصیل پر چڑھ کر اسلامی جھنڈا لہرا دیا۔ پوری فضا اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھی۔ اس جوش میں مسلمان فصیلوں پر پہنچ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر میں داخل ہوگئے، تھوڑی دیر میں سارا شہر مسلمانوں کے زیرِ عَلم ہوگیا۔جب حاکم شہر نے یہ حالت دیکھی تو بہتری اسی میں سمجھی کہ راہِ فرار اختیار کرلی جائے۔ تین دن بعد جب امن قائم ہوا تو سب سے پہلا کام ایک جامع مسجد کی بنیاد اور چار ہزار گھر مسلمانوں کے لیے آباد کیے گئے۔
دیبل کی جنگ سے فتحیاب محمدبن قاسم ’نیرون‘ شہر کے لیے لشکر لے کر نکلا، نیرون دیبل سے 75 میل کی مسافت پر تھا۔ چھ دن کی مسافت کے بعد جب وہ نیرون پہنچا تو وہاں سب سے بڑا مسئلہ آیا پانی کے حصول کا۔ موسم بھی گرم تھا، ندی و تالاب بھی سُوکھے پڑے تھے، برسات کے لیے نمازِ استسقاء ادا کی گئی، خدا نے رحم کیا اور برسات ہوگئی۔ تمام تالاب، ندی، جھیلیں زیر آب آ گئے۔ نیرون کا حاکم بُدھ مذہب کا پیرو کار تھا۔ اُس نے امان کے لیے حجاج سے پہلے ہی بات کرلی تھی۔ جب محمدبن قاسم نیرون پہنچا تو وہ راجہ داہر کے پاس بیٹھا تھا۔ اطلاع ملتے ہی واپس نیرون آیا۔محمدبن قاسم سے ملاقات کی، بڑا پرتپاک استقبال کیا۔ وفاداری کا یقین دلایا، ساتھ ہی سامان رسد بھی فراہم کیا۔ اس کے اس تعاون سے محمد بن قاسم کو مزید آگے بڑھنے میں بڑی آسانی پیدا ہوگئی۔ اس نے یہاں ایک مسجد تعمیر کروائی اور امام مقرر کیا جو پانچوں وقت کی باجماعت نماز پڑھایا کرتا۔ یہاں سے محمدبن قاسم نے حجاج کو اپنی فتوحات کی تفصیل لکھی اور آگے بڑھنے کی اجازت چاہی۔ حجاج نے اجازت دے کر یہ بھی واضح کیا کہ ہندوستان اور ترکستان کی سرحدیں چین پر ختم ہوتی ہیں۔تم سندھ میں اور ترکستان میں قتیبہ بن مسلم، دونوں برسرپیکار رہو۔ تم میں سے جو چین میں پہلے داخل ہوگا، وہ اپنے حریف پر حاکم ہوگا۔ یہ جواب پڑھ کر محمد بن قاسم نے مزید آگے بڑھنے کی تیاری شروع کر دی۔ محمدبن قاسم نے وہاں سے نکل کر ’’سیوستان‘‘ (سہون) کی جانب پیش قدمی کی۔ یہاں کے مقامی لوگوں کی دُور اندیشی اور تعاون کی وجہ سے مزاحمت کی ضرورت پیش نہ آئی اور یہ علاقہ بھی بآسانی فتح کرلیا۔ آرام کی غرض سے یہاں چند دن قیام کرنے کے بعد ملکی انتظامات پر توجہ دی گئی۔ مختلف مقامات پر جدید حکام کا تقرر کیا گیا۔ دیہاتوں پر خاص توجہ رکھی گئی۔
محمدبن قاسم ایک بہت بڑا مدبّر، بہترین منتظم حرب اور محب اسلام تھا۔ اس نے کئی جنگیں اپنے حسن اخلاق اور بہترین سلوک سے جیتیں، کئی مقامات پر وہاں کے مقامی لوگوں نےاس کے ساتھ جنگ میں شانہ بشانہ شامل ہو کر فتح دلائی۔یکم رمضان 93ھ کو جنگ کی ابتداء ہو چکی تھی۔ صحیح معنی میں اصل جنگ 7 رمضان سے ہوئی، جنگ کے لیے روانگی کے وقت راجہ نے نجومیوں سے وقت سعد (شگون کی گھڑی) دریافت کیا۔ نجومیوں نے حساب لگا کر بتایا کہ فتح تو عربوں کی نظر آتی ہے۔ اس خبر سے راجہ بہت پریشان ہوا۔ 7 رمضان کو راجہ داہرکے ایک افسر نے اچانک حملہ کر دیا۔ عربوں نے بڑی شجاعت سے اس کی مدافعت کی اور شام تک لڑتے رہے، دوسرے دن 8 رمضان کو ایک دوسرے افسر کے اشارے پر صبح سے شام تک لڑائی جاری رہی۔ 9 رمضان کو راجہ داہر خود جنگ کے لیے نکلا۔ عربی فوج بھی میدان جنگ میں آئی، شام تک جنگ ہوئی ،مگر کوئی فیصلہ نہ ہوا۔ 9 رمضان کو ہی سپہ سالا رمحمدبن قاسم نے وصیت کی کہ اگر میں شہید ہو جائوں تو میری جگہ محرز بن ثابت لیں گے اور اگر وہ بھی نہ رہیں تو سعید تمہارا سپہ سالار ہوگا۔10 رمضان 93ھ صبح کے وقت دونوں فوجیں میدان جنگ پہنچیں۔ داہر کا لڑکا جے سنگھ دس ہزار سواروں کے درمیان کھڑا تھا۔ راجہ داہر سفید ہاتھی پر سوار تھا۔ آس پاس جنگی ہاتھی اسے گھیرے ہوئے تھے۔اِدھر محمد بن قاسم نے اپنی فوج کو جدید طریقے سے ترتیب دیا۔ نماز فجر ادا کر کے صفوں میں سب کھڑے ہوگئے۔ سپہ سالار نے خطاب کیا، خطاب سنتے ہی پوری فوج میں ایک نیا ولولہ، نیا جوش و جذبہ جاگ اُٹھا اور ہر کوئی سب سے پہلے اپنی جان قربان کر کے جام شہادت پینے پر آمادہ ہوگیا، جنگ شروع ہوگئی۔ راجہ داہر نے وقفے وقفےسے تین مرحلوں میں فوج کو میدان میں بھیجا اور تینوں مرتبہ اس کی فوج کو منہ کی کھانی پڑی، اسی دوران چند برہمن آئے اور سپہ سالار سے امان کی درخواست کی جو منظور کرلی گئی، پھر ان ہی کے مشورے پر کہ داہر کی فوج عقب سے غیرمحفوظ ہے، ایک فوجی دستہ ساتھ کریں تو ان کو تباہ کر دیا جائے۔محمدبن قاسم نے اپنے دو سالاروں کو دستہ کے ساتھ روانہ کیا۔ ایسا شدید حملہ کیا کہ دشمنوں کے پائوں اُکھڑ گئے۔ عرب فوجی دستے مسلسل دُشمن کی فوج پر نبردآزمائی کرتے رہے۔ آفتاب غروب ہونے کو تھا کہ راجہ داہر کے مقابل ایک مجاہد پہنچا اور اس نے تلوار کا ایسا بھرپور وار کیا کہ تلوار سر سے گردن تک کاٹتی چلی گئی… ادھر آفتاب غروب ہونے لگا اور دوسری طرف راجہ داہر کے اقتدار کا آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔یوم باب الاسلام برصغیر میں اسلام کی آمد اور اشاعت دین کا تاریخ ساز باب ہے۔یہ اس خطے میں اسلام اور مسلمانوں کی آمد ،ان کی تاریخ ساز فتح اور اس خطے کو اسلام کے نور سے منور کرنے کا وہ یادگار دن ہے جو درحقیقت ہمارے لیے دین پر استقامت ،اسلام اور اسلامی شعائر پر عمل ،عزم نو اور تجدید عہد کا مظہر ہے۔