ڈاکٹر محمد اشرف سموں
سندھ کی سرزمین کو یہ شرف اور مقام حاصل ہے کہ برصغیر میں اسلام کا سورج سب سے پہلے اسی خطے پر طلوع ہوا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ عربوں نے 93ھ میں سندھ کو فتح کیا اور اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی، مگر اسلام کا پیغام اس سرزمین پر عہد نبوی ﷺ میں ہی آچکا تھا، چونکہ سندھ کی سرزمین جغرافیائی لحاظ سے ایک ایسے خطے پر واقع ہے جہاں لوگوں کی بحری ذریعے سے آمدو روفت اور خاص طور پر یہ مسلمان تاجر حضرات کی گزر گاہ تھی۔ یہ تجارت کے لیے برصغیر آتے تھے اور اس کے ساتھ اسلام کا پیغام بھی یہاں والوں کے لیے لائے۔
علامہ سیوطی کی ’’جمع الجوامع‘‘ کی ایک روایت سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ سندھ کے لوگوںمیں سے کچھ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔علامہ فرماتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اسلام ﷺ نے صبح کے وقت صحابہ کرام ؓ کو مبارک باد دی اور ارشاد فرمایا:’’آج میرے پاس ایک وفد سندھ سے آیا ہے، یہ پانچ افراد پر مشتمل ہے‘‘ اللہ کے فضل سے انہوں نے اسلام قبول کیا، ان میں دو صحابہؓ مدینہ پاک میں رہے اور تین واپس سندھ تشریف لائے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کا پیغام اس زمین پر عہد نبوی ﷺ میں ہی آچکا تھا۔
تقریباً تمام مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ امیر المومنین حضرت علی ؓکی ایک بیوی جن کا نام ’’حنفیہ‘‘ تھا۔ ان کا تعلق سندھ سے تھا اور ان کے صاحب زادے محمد بن حنفیہ ان کے بطن سے تھے۔ یہ نام آج بھی سندھ میں عورتوں کا عام طور پررکھا جاتا ہے،بلکہ سندھ کی لوک داستانوں میں یہ ابیات گائے جاتے ہیں۔شاید یہی وہ نسبت ہے جس سے سندھ کے لوگ اپنی عقیدت اور وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس روایت سے بھی اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ اسلام کا پیغام عہد خلفائے راشدینؓ تک اس سرزمین پرپہنچ چکا تھا۔
اسی طرح مسلم شریف کی روایت ہے کہ پیغمبر اسلامﷺ کے گھر میں ایک کنیز تھی،جن کا تعلق سندھ سے تھا۔ایک بار آپ ﷺ کے حرم پاک میں ایک بیوی کو پیٹ میں درد ہوا،اس سندھی کنیز نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہمارے ملک میں جب کسی کوپیٹ میں درد ہوتا ہے تو فلاں بوٹی کھاتے ہیں اور درد رفع ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ اس بوٹی کا نام سمجھ نہ سکے، کیونکہ وہ اپنی زبان میں نام لے رہی تھی۔ آخر کار وہ کنیز خود گئیں اور بوٹی کو لے کر آئیں اور اسے آپ ﷺ کی اہلیہ کو کھلایا گیا اور وہ شفایاب ہو گئیں۔ اسی طرح سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ امیر معاویہؓ کے دور میں جب بیمار ہوئیں تو امیر معاویہؓ نے ان کے لیے سندھ سے ایک طبیب کو بلایا تھا۔ یہ وہ تمام روابط تھے جو اہل سندھ کے عربوں سے محمد بن قاسم کے آنے سے پہلے تھے، ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشتراک اور روابط ایک اسلام کا پیغام تھا، جو مختلف ذرائع سے اہل سندھ تک پہنچ چکا تھا۔
93ھ میں باقاعدہ سندھ میں اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ عرب سندھ آئے تو وہ اپنے علم و ادب اور تقویٰ کو بھی ساتھ لائے۔انہوں نے آکر یہاں پر نہ صر ف اسلام کا پیغام دیا، بلکہ بڑے بڑے دینی مدرسے قائم کیے۔ قال اللہ و قال الرسولؐ کا درس دیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں ان کی اس تبلیغ اور دینی خدمت کا اتنا اثر ہوا،عرب مورخین مسعودی ، بشاری، مقدسی ،ابن حوقل کے بیان کے مطابق سندھ کے لوگ عربی اور سندھی دونوں زبانیں بولتے تھے۔ ابن بطوطہ نے تویہاں تک لکھا ہے کہ ’’سندھ کے چرواہے بھی عربی زبان بولتے ہیں‘‘۔
سندھ کے لوگوں نے ان عرب علماء سے اکتساب علم کیا۔ فن حدیث اور فقہ میں تو اتنی لیاقت پیدا کی کہ خود عرب آکر ان کے حلقہ ٔ درس میں شامل ہونے لگے۔ علامہ سمعانی نے اپنی مشہور کتاب ’’کتاب الانساب‘‘ میں ان سندھی علماء و محدثین کے نام لکھے ہیں جنہوں نے اس زمانے میں بڑے بڑے مدرسے کھولے، جہاں حدیث کا درس دیا جاتا تھا۔عربوں کے دور حکومت میں ’’دیبل‘‘ یعنی ٹھٹھہ کی علمی شہرت اس زمانے میں بغداد سے کم نہ تھی۔جس میں نام ور سندھی اور عرب علماء و محدثین کا شمار ہوتا تھا۔ یاقوت حموی نے اپنی مشہور کتاب ’’معجم البلدان‘‘ میں علی بن موسیٰ دیبلی کی درس گاہ کا ذکر کیا ہے۔ جو اس زمانے میں دیبل کی سب سے بڑی درس گاہ تھی۔ جہاں پر حدیث کا درس دیا جاتا تھا۔ خطیب نے ابو محمد حسن بن حامد کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ حدیث کی صحیح روایت بیان کرنے والا سب سے بڑا تاجر تھا۔
اس طرح سندھ کا دوسرا شہر منصورہ جس کی بنیاد ہی عربوں نے ڈالی اور عباسی خلیفہ منصور کی طرف منسوب کیا،یہ سندھ کا دارالحکومت بنا، یہ علمی اعتبار سے کسی طرح بھی بغداد سے کم نہ تھا۔عرب کے مشہور مورخ بشاری مقدسی اپنی کتاب ’’احسن التقاسیم‘‘ میں منصورہ کے سندھی باشندوں کے بارے میں لکھتے ہیں’’یہاں کے رہنے والے بڑے بامروت ہیں،اسلام سے ان کو بڑی عقیدت و محبت ہے۔یہاں کے لوگ اہل علم اور ذہین ہیں۔مسلک کے اعتبار سے اہل سنت ہیں۔ یہاں کے بڑے بڑے شہروں میں فقہی مسلک کے لوگ رہتے ہیں۔ البتہ مالکی،حنبلی اور معتزلی لوگ نہیںہیں‘‘۔ (احسن التقاسیم ، ص 481)
سندھ کے محدثین اور فقہاء کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے،ان میں سے بعض وہ علماء و محدثین ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے سندھ سے نقل مکانی کر کے حجاز اور بغداد چلے گئے اوروہاں جا کر آباد ہو گئے۔خطیب بغدادی نے ’’تاریخ بغداد‘‘ میں علامہ ابومعشرنجیح سندھی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ تبع تابعی اور حدیث کے مشہور راویوں میں سے تھے۔ کسی جنگ میں قید ہو کر حجاز آئے۔ حدیث، فقہ اور مغازی میں بڑی مہارت رکھتے تھے ۔ انہوں نے سہیل بن حنیف کو دیکھا تھا۔ سعید بن مسیب، محمد بن کعب، نافع مولیٰ ابن عمرؓ وغیرہ سے اس سندھی محدث نے حدیث کی روایت کی ہے۔ موصوف سے ان کے صاحب زادے محمد السندی اور حسین السندی نے روایت کی۔ خلیفہ مہدی نے ان کی علمی خدمات کی وجہ سے مدینے سے بغداد بلایا۔170ھ میں وفات پائی۔ ہارون الرشید نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ بغداد کے مشہور، مقبرہ الکبیر میں دفنائے گئے۔
غرض یہ کہ سندھ کی زمین پر سب سے پہلے اسلام کی شعاعیں پڑیں اور یہ حقیقت ہے کہ سندھ ’’باب الاسلام‘‘ ہے۔نام ور مسلم فاتح غازی محمد بن قاسمؒ کی باب الاسلام سندھ میں آمد سے پورے برصغیر میں اسلام کا پیغام حقیقی معنوں میں پہنچا۔ دوسری برکتوں کے علاوہ یہ مسلمانوں کی آزادی اور نجات کا مہینہ ہے۔