• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
’’پروفیسر‘‘ طفیل داراعمر میں مجھ سے کافی بڑے تھے اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ مجھ سے ایسے پیار کرتے ہیں جیسے بڑا بھائی چھوٹے بھائی سے کرتا ہے، چنانچہ میں بھی انکے اس پیار کے جواب میں ان سے بہت پیار کرتا تھا اور اس پیار کی لبرٹی میں لے جاتا تھا جس کا وہ عموماً برا نہیں مانتے تھے۔ داراصاحب نے مجلس نمود اردو بنائی تاکہ کالج میں ادبی سرگرمیوں کو فروغ دیا جاسکے اور مجھے اس کا جنرل سیکرٹری بنادیا۔ میرے ستم ظریف دوستوں نے اسے مجلس نمود اردو کے بجائے مجلس ’’نمرود‘‘ اردو کہنا شروع کردیا۔ ایک دفعہ ہم نے ایک مشاعرے کا انعقاد کیا اور حضرت احمد ندیم قاسمی کو صدارت کے لئے راضی کرلیا۔ وہ میری محبت میں چلے آئے ، اس روز دارا صاحب احمد ندیم قاسمی کو پروٹوکول دینے کیلئے مشاعرے کی نظامت خود کررہے تھے۔ آخر میں صاحب صدر قاسمی صاحب کو بلانے کیلئےدارا صاحب نے اعلان کیا’’اب میں گزارش کرونگا برصغیر کے مایہ ناز شاعر، افسانہ نگار، نقاد اور کالم نویس حضرت احمد ندیم قاسمی کو کہ وہ....اتنا کہہ کر انہوں نےدائیں ہاتھ کی انگلیوں کو اس طرح حرکت دی جیسے کسی عام سے شخص کو اشارے سے اپنی طرف بلایا جارہا ہو، اور پھر کہا کہ وہ اسٹیج پر تشریف لائیں‘‘۔انکی اس ادا پر سامعین کو تو ہنسی آئی لیکن احمد ندیم قاسمی سے جب کبھی ملاقات ہوتی اور میرے کالج کا ذکر ہوتا تو وہ مسکراتے ہوئے ضرور پوچھتے دارا صاحب کا کیا حال ہے؟‘‘۔زندگی میں صرف ایک دفعہ دارا صاحب مجھ سے ناراض ہوئے، میں کالج پہنچا تو دیکھا کہ وہ اپنے کمرے سے باہر کھڑے ہیں ا ور ماتھے پر پٹی باندھی ہوئی ہے جس پر خون کا ایک دھبہ بھی نظر آتا تھا۔مختلف شعبوں کے پروفیسر صاحبان ان کی عیادت اور اس حادثے پر اظہار افسوس کررہے تھے۔ اتنے میں میں بھی وہاں پہنچ گیا اور جاتے ہی کہا’’ سر خیر ہے پٹیاں بندھی ہوئیں ہیں، کہیں کوئی مشاعرہ پڑھ کر تو نہیں آئے؟‘‘۔ یہ سن کر پاس کھڑے پروفیسر صاحبان نے اپنی ہنسی روکنے کیلئے اپنے چہروں کو ہاتھوں سے چھپا لیا مگر دارا صاحب آگ بگولا ہوگئے۔ انہوں نے مجھے مارنے کیلئے ہاتھ اٹھایا مگر میں بھاگ کھڑا ہوا ، دارا صاحب بھی میرے پیچھے بھاگے مگر میں تو’’منڈا کھنڈا‘‘ تھا، وہ میری رفتار کا مقابلہ کیسے کرسکتے تھے چنانچہ تھوڑی دور تک بھاگنے کے بعد ہانپ کر کھڑے ہوگئے۔ اگلے روز میں ڈرتے ڈرتے ان کے کمرے میں گیا، انہوں نے خون آلود آنکھوں سے میری طرف دیکھا، مگر میں نے انکے پائوں پکڑ لئے اور اس وقت تک نہ چھوڑے جب تک انہوں نے پیار سے نہ کہا’’چل پرے ہٹ‘‘۔میں نے آپ کو دارا صاحب کا حلیہ ، وضع قطع اور خدوخال تو بتائے ہی نہیں، قد پانچ فٹ یا سوا پانچ فٹ، باڈی بلڈروں جیسی چھاتی، چہرہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیلا ہوا جو ان کے قد سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ سیلف میڈ انسان تھے، نامساعد حالات میں پڑھا، اس دوران بہت معمولی نوکریاں بھی کیں اور پھر ایم اے کرنے کے بعد ایم اے او کالج میں لیکچرر یعنی’’پروفیسر‘‘ لگ گئے۔ ہر وقت سوٹ اور ٹائی میں ملبوس رہتے تھے۔ شاعربھی تھے، اچھے شعر بھی کہہ لیتے تھے اور کبھی ایسے شعر جن کے معانی پوچھے جانے پر کہتے’’تم نے غالبؔ کے اشعار کو سمجھنے میں کتنا عرصہ لگایا؟‘‘ ہم چپ کر جاتے، ایک روز انہوں نے ہمیں اپنی ایک غزل سنائی جس کا ایک شعر تھا؎
میرے بعد کن سے وہ باز آگیا ہے
بڑے شوق سے مجھ کو پیدا کیا تھا
میں ان دنوں کالج میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ نوائے وقت کے ادبی ایڈیشن کا انچارج بھی تھا بلکہ مجھے یہ کہنے دیں کہ پاکستانی اخبارات میں ادبی ایڈیشنوں کا بانی میں ہوں، میرے بعد بھی اخباروں نے ادبی ایڈیشن شائع کرنا شروع کئے، بہرحال میں نے دارا صاحب کا یہ شعر سنا تو مجھے شرارت سوجھی، مگر یہ بہت’’باریک‘‘ قسم کی شرارت تھی، ہر کسی کو سمجھ نہیں آسکتی تھی، میں نے ادبی ایڈیشن کے خبرنامے میں خبر دی کہ ان دنوں پروفیسرطفیل دارا صاحب کے ایک شعر کی بہت دھوم ہے اور میں نے نیچے یہ شعر درج کردیا؎
میرے بعد کن سے وہ باز آگیا ہے
بڑے شوق سے مجھ کو پیدا کیا تھا
ان کا خدوخال تو میں اوپر بیان کرچکا ہوں، چنانچہ اس شعر کے ساتھ ان کی تصویر بھی لگادی۔ ستم ظریفوں نے دارا صاحب کو اخبار دکھایا اور اس شعر کے ساتھ ان کی تصویر کی معنویت سمجھانے کی کوشش کی مگر دارا صاحب ان کی باتوں میں نہ آئے۔ وہ اردو ادب کے پروفیسر تھے، جانتے تھے کہ حاسد تعریف میں کئے گئے شعر کو بھی غلط معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔جیسا کہ میں شروع میں بتا چکا ہوں د ارا صاحب کو باڈی بلڈنگ کا بہت شوق تھا، ایک راوی بیان کرتا ہے کہ وہ دارا صاحب کے پاس بیٹھا تھا، دارا صاحب کسی موضوع پر اس سے بات کر رہے تھے، اتنے میں کسی نے دروازے کو ناک کیا، دارا صاحب نے کہا’’جسٹ اے ویٹ پلیز‘‘ پھر اپنے پائوں میں دھرے ڈمبل دونوںہاتھوں سے اوپر اٹھائے، چھاتی پھلائے کہا’’یس پلیز کم ان‘‘ واللہ اعلم بالصواب ۔
ایک دفعہ میں نے ایک برقعہ پوش خاتون کو دارا صاحب کے کمرے میں جاتے دیکھا، اگلے روز میں نے ایک آنکھ میچ کر پوچھا’’سر وہ کون تھی؟‘‘ اس پر دارا صاحب ایک نوخیز دوشیزہ کی طرح شرما کر بولے’’ابھی بتاتا ہوں‘‘ پھر انہوں نے میز کی دراز میں سے دس پندرہ خطوط نکالے اور ایک خط کو پورے ہاتھ سے چھپا کر اس کی صرف ایک لائن پڑھنے کی اجازت دی، لائن تھی’’آپ آئے ہی نہیں، میں سارا دن آپ کا انتظار کرتی رہی‘‘ میں نے کہا’’ واہ دارا صاحب آپ تو چھپے رستم نکلے، ہمیں اس عمر میں کوئی لفٹ نہیں کراتا اور دوشیزائیں سارا سارا دن آپ کا انتظار کرتی ہیں‘‘۔ میرے ان ریمارکس سے بےپناہ خوشی کے سبب ان کا انگوٹھا اس جملے سے ہل گیا جو انہوں نے مجھے سنایا تھا۔ آگے لکھا تھا’’آپ نے میرے لئے ہیئر کلر لے کر آنا تھا، ساٹھ سال کی ہوں، مگر بال سفید ہونے سے ستر کی لگتی ہوں‘‘ اور پھر آگے وہی لکھا تھا جو انہوں نے مجھے پڑھایا تھا’’میں سارا دن آپ کا انتظار کرتی رہی‘‘۔(جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین