• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بھکاری آپ سے زیادہ امیر ہیں

کراچی کے جناح اسپتال سے بس میں سوار ہوا، تو ایک نوجوان انتہائی دردناک آواز میں بھیک مانگ رہا تھا۔ ادھیڑ عُمر شخص نے جیب سے ایک سو روپے کا نوٹ نکالا اور اُسے تھما دیا۔ دو سیٹ پیچھے بیٹھے لڑکے نے اُسے بیس روپے دیے، تو چند خواتین نے بھی اُس نوجوان پر ترس کھاتے ہوئے کچھ مدد کی اور پھر وہ گاڑی سے اُتر گیا۔ مَیں اُس نوجوان کی’’ مہارت‘‘ پر حیران تھا کہ وہ کیسے عوام سے چند منٹوں میں ڈیڑھ سو روپے اینٹھ کر چلتا بنا۔ اس حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ وہ نوجوان، میرا پڑوسی ہے اور ایک تین منزلہ مکان کا مالک ہے۔ گزشتہ دنوں سعودی عرب کے شہر، جدّہ کی ایک خاتون بھکاری کا سوشل میڈیا پر خاصا چرچا رہا۔ اس ایک سو سال کی عُمر میں انتقال کرنے والی خاتون گداگر نے اپنے پیچھے 10 لاکھ ڈالر سے زاید کے اثاثے چھوڑے۔ یہ خاتون، پچاس برسوں سے جدّہ کی سڑکوں پر بھیک مانگ رہی تھی۔ مقامی اخبار نے اُس کے پڑوسی کے حوالے سے لکھا کہ اُنھوں نے خاتون کو کئی بار یہ پیشہ چھوڑنے کا مشورہ دیا، مگر وہ ہر بار یہی جواب دیتیں’’ بُرے وقت کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہی ہوں۔‘‘ اور پھر بھارت کے پپّو کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ پٹنہ کا یہ 33 سالہ بھکاری، سوا کروڑ سے زاید مالیت کی جائیداد کا مالک ہے اور اُس نے اب تاجروں کو سود پر قرض بھی دینا شروع کردیا ہے، مگر اس کے باوجود اُس نے اپنا ٹھیّہ نہیں چھوڑا اور اب بھی روز جھولی پھیلا کر بیٹھتا ہے۔گزشتہ ماہ دبئی پولیس نے چھاپہ مار مہم کے دَوران ایک ایسے بھکاری کو بھی پکڑا، جس کے پاس تین لاکھ درہم یعنی ایک کروڑ روپے تھے۔ اور پچھلے ہفتے لبنان کی خاتون بھکاری کی خبر تو آپ کی نظروں سے گزری ہی ہوگی کہ بیروت کی ایک سڑک پر خاتون بھکاری دِل کا دورہ پڑنے سے چل بسی، تو پتا چلا کہ اُس خاتون کا تو ایک بینک اکاؤنٹ بھی ہے، جس میں پاکستانی کرنسی کے مطابق 10 کروڑ روپے موجود ہیں۔


آپ بھی کئی ایک ایسے لوگوں کو جانتے ہوں گے کہ بھیک مانگنا جن کا پیشہ ہے، مجبوری نہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں گداگری نے ایک انتہائی منافع بخش کاروبار کی صُورت اختیار کر لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب گداگروں نے انتہائی منظّم نیٹ ورکس قائم کر لیے ہیں، جن کی سرپرستی بعض اوقات سیاسی شخصیات اور اعلیٰ افسران تک کرتے ہیں۔ بھکاری گروہوں کے درمیان اہم مقامات پر قبضے کے لیے باقاعدہ جنگیں ہوتی ہیں، جن میں پولیس اور دیگر محکموں کی بھی مدد لی جاتی ہے، جب کہ بعض اوقات ان جنگوں میں انسانی جانیں تک کام آ جاتی ہیں۔ پھر یہ تو مشہور بات ہے کہ بھکاری اپنے ٹھکانے کرائے پر بھی دیتے ہیں اور اُن کی خرید وفروخت بھی ہوتی ہے۔ وہ لطیفہ تو آپ نے سُنا ہوگا کہ ایک خاتون بھکاری کئی روز سے اپنے ٹھکانے سے غائب تھیں اور اُس کی جگہ ایک نوجوان نے ڈیرے ڈال لیے تھے۔ کسی نے خاتون سے پوچھا’’ کیا بات ہے، آج کل وہاں نظر نہیں آ رہیں،‘‘ اس پر وہ بولیں’’ مَیں نے وہ ٹھکانہ اپنی بیٹی کو جہیز میں دے دیا ہے اور اب وہاں میرا داماد بیٹھتا ہے۔‘‘ اسی طرح یہ پیشہ وَربھکاری، بچّے بھی کرائے پر لیتے ہیں اور ایسے بچّوں کا، جو جسمانی طور پر معذور ہوں، کرایہ زیادہ دیا جاتا ہے، کیوں کہ لوگ اُن پر ترس کھا کر زیادہ امداد دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھکاریوں کے بین الصوبائی گروپس تو عرصے سے فعال ہیں، لیکن اب بیرونِ مُلک جا کر بھیک مانگنے کے رُجحان میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس طرح کے عالمی بھکاریوں کے لیے سب سے پُرکشش مقام، دبئی ہے، جہاں عرب میڈیا کے مطابق ایک ماہ میں ستّر لاکھ روپے تک بھیک جمع کی جا سکتی ہے۔ پاکستانی بھکاریوں کی بھی ایک بڑی تعداد دبئی اور دیگر عرب مُمالک کا چکر لگاتی رہتی ہے۔ ان لوگوں نے وہاں باقاعدہ ڈیرے بنا رکھے ہیں، جہاں مناسب کرائے پر رہائش فراہم کی جاتی ہے، جب کہ کھانا تو مفت ہی مل جاتا ہے۔ یہ لوگ اس مقصد کے لیے ویزٹ ویزے کو استعمال کرتے ہیں، چوں کہ یہ ایک منظّم نیٹ ورک کے ذریعے وہاں جاتے ہیں، اس لیے اُنھیں حکومتی مشینری سے بچانے کا بھی پورا انتظام کیا جاتا ہے اور اگر کوئی پولیس کے ہتھے چڑھ بھی جائے، تو اُس کی رہائی کے لیے مقامی سپوٹرز مدد کو دوڑ پڑتے ہیں۔ گزشتہ سال ان بھکاریوں کے لیے ’’ چھکا مار سال‘‘ ثابت ہوا، کیوں کہ دبئی کے خلیفہ بن زید بن النہیان نے اُس سال کو’’خیرات کا سال‘‘ قرار دیا تھا، جس کے سبب شیخوں نے دِل کھول کر عطیات دیے۔ کراچی کے علاقوں مجاہد کالونی( ناظم آباد)، نصرت بھٹو کالونی( منگھو پیر) اور ناصر جمپ( کورنگی) میں ان ’’ عالمی بھکاریوں ‘‘ کی باقاعدہ بستیاں قائم ہیں۔ نیز، حیدرآباد، ملتان، چیچہ وطنی وغیرہ میں بھی ان لوگوں کے بھائی بند یہی کام کرتے ہیں۔ یہ تو باقاعدہ برادریاں ہیں، جب کہ ایسے بھکاریوں کی بھی کوئی کمی نہیں، جو اچھے خاندانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود صرف بھیک مانگنے کے لیے دبئی جاتے ہیں۔


یہ پیشہ وَر بھکاری اکثر بسز، اسپتالوں، مساجد کے باہر، معروف تجارتی مراکز اور دیگر عوامی مقامات پر منڈلاتے رہتے ہیں۔ کوئی چیز بیچنے کے بہانے بھیک مانگنا، اپنی مظلومیت کا رونا رونا، کسی جسمانی نقص کو کیش کروانا تو پرانا طریقۂ واردات ہے اور افسوس تو یہ ہے کہ ان لوگوں نے مختلف مساجد اور مدارس کی جعلی اسناد بھی بنوا رکھی ہیں، جن کے ذریعے عوام کے مذہبی جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔لیکن اب انھوں نے بدلتے دَور کے ساتھ، بھیک کے انداز بھی بدل ڈالے ہیں اور ان میں جدّت بلکہ زیادہ’’ فن کاری‘‘ لے آئے ہیں۔ مثلاً لوگ اس طرح کے بھکاریوں کو نقد رقم دیتے ہوئے جھجکتے ہیں کہ معلوم نہیں یہ اس کے حق دار بھی ہیں یا نہیں، تو اس کا توڑ یہ نکالا گیا ہے کہ اب یہ پیشہ ور بھکاری نقد رقم کی بجائے راشن دِلوانے پر اصرار کرتے ہیں، جو اُنھیں خوشی خوشی دے دیا جاتا ہے اور پھر وہ اس راشن کو مختلف دُکانوں پر فروخت کرکے دام کھرے کر لیتے ہیں۔ ایسی ایک دُکان سے تو ہم بھی واقف ہیں، جہاں بھیک کے طور پر جمع کیا گیا راشن خریدا جاتا ہے۔ جب اُس دُکان دار سے بات کی گئی، تو اُس کا کہنا تھا کہ’’ مَیں نے فتویٰ لیا ہوا ہے کہ اس طرح کا مال خریدا جا سکتا ہے‘‘ جب کہ علمائے کرام اس طرح کی تجارت کی سختی سے ممانعت کرتے ہیں۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ، کراچی کے مہتمم اور معروف عالمِ دین، مفتی محمّد نعیم نے اس طریقے کی مذمّت کرتے ہوئے کہا کہ’’ یہ کوئی تجارت نہیں، بلکہ گداگری کو فروغ دینے کا کاروبار ہے۔ عوام اس طرح کی دُکانوں سے مال خریدنے سے اجتناب کریں تاکہ اُن دُکان داروں کی حوصلہ شکنی ہو، جب کہ انتظامیہ کو بھی اس حوالے سے اپنا مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔‘‘ اسی طرح یہ بھکاری ڈاکٹری نسخے دِکھا کر ادویہ لے لیتے ہیں، جنھیں بعدازاں مخصوص میڈیکل اسٹورز پر فروخت کردیا جاتا ہے۔ محمد زبیر نامی شخص نے تو عجیب ہی بات بتائی۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ ایک روز مجھے نمازِ جمعہ کے بعد ایک نوجوان ملا، جو مسجد کے باہر بُری طرح رو رہا تھا۔ جب اُس سے رونے دھونے کا سبب پوچھا، تو اُس نے بتایا کہ’’ میرا بچّہ فلاں اسپتال میں داخل ہے اور اسپتال والوں نے فوری طور پر 20 ہزار روپے طلب کیے ہیں ، اگر پیسے نہ ملے تو بچّے کا مزید علاج نہیں ہو سکےگا، اگر آپ چاہیں تو رقم مجھے نہ دیں بلکہ میرے ساتھ چلیں اور اسپتال کے کاؤنٹر پر جمع کروادیں‘‘، بات معقول تھی، سو مَیں نے اُسے گاڑی میں بٹھایا اور بتائے گئے اسپتال پہنچ گیا، جو زیادہ دُور نہیں تھا۔ وہ مجھے کاؤنٹر پر لے گیا، جہاں ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا اور مَیں نے اُسے بیس ہزار روپے دے دیے۔ بھکاری نے میرا شُکریہ ادا کیا اور اندر چلا گیا۔ مَیں واپسی کے لیے مڑا، تو پیچھے سے کسی نے مجھے آواز دی، وہ میرا محلّے دار تھا، جو اتفاق سے اُسی اسپتال میں کام کرتا تھا۔ اُس نے وہاں آنے کی وجہ پوچھی، تو مَیں نے سارا ماجرا سُنا دیا، جس پر اُس نے مجھے وہیں ٹھہرنے کو کہا اور کچھ دیر بعد بیس ہزار روپے میرے ہاتھ پر لاکر رکھ دیے۔ مَیں ہونقوں کی طرح منہ کھولے اُسے تکے جا رہا تھا، وہ بولا’’ زبیر بھائی، کوئی علاج ولاج کا چکر نہیں، یہ بھکاری اور کاؤنٹر والا لڑکا آپس میں ملے ہوئے ہیں، جو رقم آتی ہے، آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ پہلے ایک بار پکڑنے پر اسپتال سے نکال دیا تھا، مگر دو ہفتے پہلے پھر ملازمت پر آگیا، اب دوبارہ اِس کی شکایت کرنا پڑے گی۔‘‘


بُرے وقت سے ڈرتے رہنا چاہیے کہ دولت کسی کی نہیں ہوتی۔ آج کے سیٹھ، کل کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر بھی مجبور ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ہر مدد کے طالب کو پیشہ وَر یا ڈرامے باز قرار نہیں دیا جاسکتا، تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مالی مدد کے طالب بیش تر افراد پیشہ وَر ہی ہوتے ہیں۔ خواہ اس کی وجہ اُن کی زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی ہوس ہو، یا خاندانی روایت۔ نشے کی لَت پوری کرنے کے لیے ہاتھ پھیلا رہے ہوں یا پھر اس کا سبب ہڈ حرامی ہو، بہرحال اس طرح کے لوگوں نے حق داروں کو اُن کے حق سے محروم کردیا ہے۔ اس منظّم گداگری کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوا ہے کہ ایک طرف تو معاشرے میں کام چوری کو فروغ ملا، تو دوسری طرف حقیقی ضرورت مند، امداد سے محروم رہ جاتے ہیں، حالاں کہ یہی وہ لوگ ہیں، جن تک زکوٰۃ و صدقات پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ آیت 273 میں کہا گیا ہے’’ نادان لوگ ان کی بے سوالی(نہ مانگنے )کی وجہ سے اُنہیں مال دار(امیر) خیال کرتے ہیں۔ آپ اُن کے چہرے دیکھ کر قیافے سے( اندازہ لگا کر ) اُنھیں پہچان لیں گے۔ وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے۔‘‘ چوں کہ یہ سفید پوش ضرورت مند، اپنے گھروں میں ٹِکے رہتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ اشاروں، کنایوں ہی میں اپنی مجبوریوں کا اظہار کرتے ہیں، اس لیے عموماً انھیں نظرانداز کردیا جاتا ہے، جب کہ پیشہ وَر بھکاری اپنی اداکاری کے جوہر دِکھا کر مال لے اُڑتے ہیں۔ یوں تو یہ پیشہ وَر بھکاری سال بَھر ہی متحرّک رہتے ہیں، لیکن ماہِ رمضان میں تو یہ شہریوں کو گویا یرغمال ہی بنا لیتے ہیں۔ خاص طور پر بڑے شہروں پر دھاوا بول دیا جاتا ہے اور شاید ہی کوئی چوراہا یا کوئی عوامی مقام ہو، جو ان کی پہنچ سے بچ پاتا ہو۔ ہر برس رمضان میں چَھپنے والی رپورٹس میں بتایا جاتا ہے کہ شہروں پر’’ حملہ آور‘‘ ان بھکاریوں کے فلاں گروپ کا ٹھیکے دار، فلاں شخص ہے اور فلاں مقام اتنے روپے میں فروخت ہوا ہے۔ یہاں کراچی میں خانہ بدوش بھکاریوں کے علاوہ، جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ کے کئی علاقوں سے بھی بھکاریوں کی بڑی تعداد آتی ہے، جو مضافاتی علاقوں میں اپنے’’ بیس کیمپ‘‘ قائم کر کے شہر بَھر میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ بھکاری اس لیے بھی قابلِ ذکر ہیں کہ یہ ایک منظّم نیٹ ورک کے تحت کام کرتے ہیں۔ اگر آپ کا صبح کے اوقات میں ان کے بیس کیمپس سے گزر ہو، تو وہاں بہت سے صاف ستھرے کپڑوں والے افراد بھی نظر آئیں گے، جو ٹھیکے دار ہوتے ہیں۔پھر ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ان بھکاریوں کے رُوپ میں بہت سے جرائم پیشہ افراد بھی ہوتے ہیں، جو موقع ملتے ہی گھروں کا صفایا کر ڈالتے ہیں۔

تو پھر کیا ، کیا جائے…؟؟

چوں کہ ماہِ رمضان میں ہر شخص ہی اپنی استعداد کے مطابق صدقہ خیرات کرتا ہے اور صاحبِ ثروت افراد اپنے مال کی زکوٰۃ زیادہ تر اسی مہینے میں نکالتے ہیں، اس لیے یہ بھکاریوں کی کمائی کا سیزن ہوتا ہے۔ مختلف اعداد وشمار کے مطابق، صرف کراچی ہی میں ماہِ رمضان کے دَوران کئی ارب روپے زکوٰۃ و صدقات کی مد میں دیے جاتے ہیں۔ یہ ایک اچھا اور قابلِ تقلید جذبہ ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان اربوں روپے کا ایک بڑا حصّہ پیشہ وَر بھکاریوں ہی کے حصّے میں آتا ہے۔ سو، کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم’’ اندھا دھند‘‘ زکوٰۃ و صدقات بانٹنے کی بجائے پہلے اپنے طور پر تصدیق کرلیں کہ کیا ہمارا پیسا مستحق افراد ہی تک پہنچ رہا ہے؟؟ اس کا ایک بہترین طریقہ تو یہ ہے کہ ہم اپنے قریبی رشتے داروں، دوستوں اور محلّے داروں پر نگاہ دَوڑائیں، اگر اُن میں کوئی ضرورت مند نظر آئے، تو اُس کی مدد کر دی جائے کہ قرآنِ پاک میں بھی اُن ہی افراد کو اوّلیت دینے کا حکم ہے، پھر یہ کہ ہمیں ان لوگوں کے بارے میں بنیادی باتوں تک کا بھی علم ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ رمضان میں بہت سے ادارے بھی زکوٰۃ و صدقات کے لیے سرگرم ہوتے ہیں اور اُن کی جانب سے خاصی اشتہار بازی بھی ہوتی ہے۔ ان میں بہت سے ادارے آپ کی مالی معاونت کے حق دار ہیں، تو وہیں کئی محض’’ کمائی‘‘ کرتے ہیں۔ لہٰذا، اپنے مال کو خرچ کرنے سے قبل اچھی طرح اطمینان کر لیجیے۔ پھر یہ بھی اہم ہے کہ کوئی شخص، گروہ، ادارہ یا تنظیم آپ کے دیے گئے عطیات کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہ کرسکے، اس لیے خُوب چھان پھٹک کے بعد ہی کسی کے ہاتھ میں پیسے تھمائیں۔

تازہ ترین