• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیسویں صدی خوش قسمت، ایک نہیں دو، علامہ اقبال (بقول سید سلمان ندوی، ’’اقبال استاذ الکل ہی نہیں بلکہ علوم اسلامیہ کی جوئے شیر کے فریاد بھی تھے‘‘) نے اسلامی فلسفہ منطق اورنور بصیرت جبکہ استاد سید مودودیؒ (بقول شبیر احمد عثمانی، ’’اسلام کی برہنہ تلوار تھے‘‘) نے تفہیم القرآن سے تفہیم الاحادیث، اسلامی بصیرت اور بھلائی میں افراط اور فراوانی کو افق تک پہنچایا۔تاریخ اسلامی پر نگاہ ڈالیں، مجتہدین، محققین، فلسفیوں کی ایک قطار، 14 سو سالوں میں شاید ہی کوئی صدی بانجھ رہی ہو،سب نے تحریک احیائے اسلام کواپنا وطیرہ بنایا۔انہی چراغوں نے اسلامی صدیوں کو منور رکھا۔
جہان نو ہو رہا ہے پیدا
چراغ اپنا جلا رہا ہے
بدقسمتی کہ سیاسی، دنیوی، ذاتی مفادات میں جہاں تدریس ِفکر اقبال جہالت اور تنقیص تک محدود وہاں فیضانِ سید مودودی کے چشمے سیاسی افراط و تفریط میں خشک ہوتے نظر آتے ہیں۔ دور خلافت راشدہ سے اسلامی ریاست کی وسعتیں لامحدود ہو ہی رہی تھیں کہ نوخیز امت مسلمہ کی اُموی ملوکیت نے چولیں ہلا دیں۔50سال کی قلیل مدت میں عقیدہ، جذبہ، اخلاق، دیانت، امانت، غرضیکہ ہر اسلامی اصول و قاعدے کا جنازہ نکلا، دور علم و ضمیر کا قاتل ثابت ہوا۔ ایسے سمجھیں کہ دین اسلام، جان بلب ہوا چاہتا تھا۔ مشیت ایزدی، حضرت عمر بن عبدالعزیز تخت نشین ہوئے تو پہلی تحریک احیائے دین کی داغ بیل ڈالی،کامل مجدد اعظم کا رتبہ پایا۔
اگرچہ عمر بن عبدالعزیز کی وفات پر سیاسی ا قتدار اسلام سے جاہلیت کی طرف پلک جھپکتے لوٹا ضرور، آپ کا برپا کیا اسلامی علمی رویہ کئی نسلوں تک جوت جگانے میں مؤثر رہا۔ علوم دین اور قرآن و حدیث کی تالیف، ترتیب، اجتہاد، تحقیق کو نئی جہتیں ملیں۔ اگلی کئی دہائیوں میں امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل جیسی اسلامی علمی ذہن عمر بن عبدالعزیز کی برپا احیائے اسلام تحریک کا شاخسانہ ہی، آئمہ اربعہ کی تحقیق اور اجتہاد نے اتباع شریعت کو آج تک زندہ رکھ چھوڑا ہے۔ انہی کے کام کی بدولت آنے والے وقتوں میں امام غزالی، ابن تیمیہ، ابن قیم، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ سے لیکر علامہ اقبال، سید ابو الاعلیٰ مودودی تک،تحریک احیائے اسلام کے درخشندہ ستاروں کی ایک کہکشاں ہے جو جگمگا رہی ہے۔
چھوٹا منہ بڑی بات، درخشندہ ستاروں پر نظر ڈالتا ہوں تو ایک تقابل ابھرتا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز اور مجدد الف ثانی میں ایک مشابہت، امام غزالی اور شاہ ولی اللہ دہلوی میں ایک مطابقت، مولانا رومی اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال میں باہمی مسابقت جبکہ امام ابن تیمیہ اور ابوالاعلیٰ مودودی میں ایک مماثلت کو ٹ کوٹ کر موجود ہے۔ بیسویں صدی علامہ محمد اقبالؒ اور سید مودودی کے ناموں سے صدیوں گونجتی رہے گی۔ پیر و مرشد اور سیدی مرشدی ایسے زمانے میں آئے کہ مغربی فلسفے اوربے ہنگم نظریات پوری دنیا کو اپنے چنگل میں لے چکے تھے۔اسلام کی شدبد رکھنے والے علماء کی اکثریت محدود علم بنا کمیونزم، کیپٹل ازم، لبرل ازم،نیشنلزم کے آگے ڈھیر ہوچکی تھی جبکہ جدیدیت سے متاثر ادھورے عالم دین، ڈارون کے نظریہ تخلیق، ہیگل نظریہ جدلیت، کارل مارکس کمیونزم سے لے کر جان لا ک کے لبرل ازم،نپولین اور ہٹلر کے نیشنلزم کی توجیہات دین اسلام اور قرآن کے اندر تلاش کرنے میں مستغرق تھے۔ ایسے میں علامہ اقبال جیسے فلسفی اور سید مودودی جیسے محقق نے ہی تو بیسویں صدی کا منہ توڑ جوابی بیانیہ دیا۔
سید مودودی نوجوانی سے لے کر پیرانہ سالی تک ان تھک کام کر گئے۔110سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ قرآن، حدیث کا کونسا پہلو، اسلامی ریاست، سنت کی آئینی حیثیت، مغربی تہذیب اور فلسفوں کے تنقیدی جائزے، قانون، تصوف، معاشرت، عمرانیات، اقتصادیات، سیاسیات، اخلاقیات، جس پر باریک بینی سے عرق ریزی نہ کی ہو۔ ابن تیمیہ سے مشابہت کا ذکر اجمالاً نہیں، بالتحقیق کیا۔ ابن تیمیہ کا زمانہ، تاتاریوں کی یلغار نے امت مسلمہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، دین کے معمولی نام لیوا بھی واجب القتل قرار پائے،علم و تہذیب کے تمام مراکز تباہ کر دیئے گئے۔ مسلسل شکستوں، ہزیمتوں، ذلتوں نے خوف، بدامنی،دین سے دوری کو اشتہا دیا۔ ظلم و جبر نے مسلمانوں کو دین سے برگشتہ کر دیا۔ عوام سے بڑھ کر علماء مشائخ اور فقیہان ملت کج روی اور اخلاق باختگی کی گرفت میں تھے۔ بدعت، خرافات،بگاڑ شرح صدر کے ساتھ نافذ تھی۔ اجتہاد گناہ گردانا گیا۔ کتاب و سنت کو ماخذ بنانا، مراجعت کرنا، ناقابل معافی جرم جانا گیا۔ جاہل اور گمراہ عوام، مفاد پرست تنگ نظر علماء کے سنگ ہم آہنگ، ایک اتحاد بنا چکے تھے۔ ابن تیمیہ نے جب اصلاح دین کی تحریک برپا کی تو گویا جان جان آفرین کے سپرد کی۔ قدیم یونانی منطق اور فلسفہ پر شدید تنقید کی۔ دلائل عام فہم بنائے، تقلید جامد کے خلاف آواز اٹھائی اور اجتہاد کرنے میں کنجوسی نہ دکھائی۔ بدعات، مشرکانہ رسومات، اعتقادی کجی اور اخلاق باختگی کے خلاف جدوجہد کی، صعوبتوں اور تکلیفوں سے زندگی سجائے رکھی۔ صاف گوئی اور اجتہادی سوچ پر حکومت، علماء غرضیکہ ایک دنیا کی دشمنی مول لی۔ 7سال حکومتی قید میں رہے۔ آخری دفعہ تو چاروں فقہ کے جید علماء کے بورڈ کی تجویز کردہ متفقہ سزا پر قید ملی، دوران قید ہی فوت ہوئے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ ابن تیمیہ کی برپا کردہ تحریک، اسلامی حکومت قائم نہ کر سکی۔ مگر علمی و تحقیقی محاذ پر تجدید دین کا جو کام سر انجام دیا، آج تک چشمہ فیض یابی ہے۔ ابن تیمیہ کی تحریک احیائے دین کو دیکھیں، ارضی حقائق اور معاشرتی حالات مدنظر رکھیں اور پھر سید مودودی کی تحریک تجدید احیائے دین کو پرکھیں، منطبق پائیں گے۔ سید مودودی نے دین کو درپیش جدید چیلنجز کو اپنا موضوع بنایا۔ قرآن و سنت کو عام فہم اور فصیح و بلیغ پیش کیا۔ اسکالر، معمولی تعلیم یافتہ، سبھی مستفید ہوئے۔ صعوبتیں و تکلیفیں، قید و بند بلکہ پھانسی تک کی سزا، علماء مشائخ کی دشمنی، مغرب سے متاثر اسلامی اسکالر اور لبرلز کی طعن وتشنیع، سب کا سید مودودی کے خلاف بھی ایک ہمہ گیر اشتراک و محاذ رہا۔
علامہ اقبال کی شاعری اور استاد مودودی کی نثر نے ادب برائے مقصد کو بام عروج دیا۔ سید مودودی کی ہزاروں صفحات پر پھیلی تحریروں کو پڑھ جائیں، مجال ہے کہ کوئی ایک فقرہ، ایک لفظ کسی دوسرے کے مقابل میں کمزور نظر آئے۔محسوس ہوتا ہے اتری ہوئی تحریریں ہیں۔ 33سال کی عمر میں لکھا، ایک کتابچہ شہادت حق، دیگ کے چاول کا ایک دانہ ہی سمجھیں، ’’میں آپ کا سخت بدخواہ ہوں گا اگر ہر لاگ لپیٹ کے بغیر آپ کو صاف صاف نہ بتا دوں کہ آپ کی زندگی کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ میرے علم میں آپ کا حال اور آپ کا مستقبل معلق ہے اس سوال پر کہ آپ اس ہدایت کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں جو آپ کو خدا کے رسولﷺ کی معرفت پہنچی ہے۔ جس کی نسبت سے آپ کو مسلمان کہا جاتا ہے اور جس کے تعلق سے آپ خواہ
چاہیں یا نہ چاہیں، بہرحال دنیا میں اسلام کے نمائندے قرار پاتے ہیں۔ اگر آپ اس کی صحیح پیروی کریں اور اپنے قول اور عمل سے اس کی سچی شہادت دیں اور آپ کے اجتماعی کردار میں پورے اسلام کا ٹھیک ٹھیک مظاہرہ ہونے لگے تو آپ دنیا میں سر بلند اور آخرت میں سرخرو ہوکر رہیں گے۔ خوف اور حزن، ذلت اور مسکنت، مغلوبی اور محکومی کے یہ سیاہ بادل جو آپ پر چھائے ہوئے ہیں،چند سال کے اندر چھٹ جائیں گے۔ آپ کی دعوت حق اور سیرت صالحہ دلوں اور دماغوں کو مسخر کرتی چلی جائے گی۔ آپ کی ساکھ اور دھاک دنیا پر بیٹھتی چلی جائے گی۔ انصاف کی امیدیں آپ سے وابستہ کی جائیں گی۔ بھروسہ آپ کی امانت اور دیانت پر کیا جائے گا۔ سند آپ کے قول کی لائی جائے گی۔ بھلائی کی توقعات آپ سے باندھی جائیں گی۔ آئمہ کفر کی کوئی ساکھ آپ کے مقابلے میں باقی نہ رہ جائے گی۔ ان کے تمام فلسفے اور سیاسی و معاشی نظریئے آپ کی سچائی اور راست روی کے مقابلے میں جھوٹے ملمع ثابت ہوں گے۔ اور وہ طاقتیں جو آج ان کے کیمپ میں نظر آرہی ہیں ٹوٹ ٹوٹ کر اسلام کے کیمپ میں آتی چلی جائیں گی‘‘۔ (ترجمان القرآن، 1936)
حکیم الامت کے41 سال بعد 1979میں انتقال ہوا مگر علامہ کے فلسفیانہ شاعرانہ افکار کو اگلے 41سال قرآن و حدیث کی روشنی میں نثر کے پیرائے میں جامع اور مربوط انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچاگئے۔ بقول استاد یوسف القرضاویؒ ’’آہ، مودودی، ایک عمدہ ترین شخصیت، جب رخصت ہوئے تو عالم یہ تھا کہ ہزاروں عقیدت مند، سوگوار، اس حالت میں، جوئے خوں بہنے دو کہ ہے شامِ فراق‘‘۔ استاد یوسف القرضاوی کا مولانا مودودی ؒ کی وفات پر ہدیہ تبریک، حرف آخر ہی،’’ امام احمد بن حنبل اور امام ابن تیمیہ اپنے مخالفین سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان فرق اور فیصلہ ہمارا جنازہ کر دے گا۔ مولانا مودودی کا جنازہ ایک ریفرنڈم تھا، جو سید مودودی جیت گیا‘‘۔
الخدمت فاؤنڈیشن :کل 15رمضان المبارک ہے۔ خوش آئند کے پاکستان سینیٹ نے 15 رمضان المبارک کو یتیموں کے نام رکھا ہے۔ سورۃ مامون کی پہلی تین آیات دل دہلا دینے کے لیے کافی ہیں۔ ’’کیا تم نے اس شخص کو دیکھا، جو دین (جزا و سزا) کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (کفالت نہیں کرتا)، اور غریب (مسکین) کا کھانا دینے پر (اپنے آپ)کو نہیں اکساتا‘‘۔ حکم باری تعالیٰ غیر مبہم، صاحب استطاعت و وسائل کا یتیم کی کفالت نہ کرنا، ’’دین اسلام کی تکذیب ہی‘‘۔ الحمد للہ مملکت خداداد میں درجنوں تنظیمیں یتیموں کی دیکھ بھال کیلئے تن من دھن لگا چکی ہیں۔الخدمت فاؤنڈیشن نے اپنے تئیں بھرپور انداز میں ایسے کئی پروگرام تشکیل دے رکھے ہیں، (al-khidmatfoundation.org 03000776013: نجی اللہ)۔ کرنے کا کام تندہی سے کر رہے ہیں۔ یتیموں کے کئی مراکز کامیابی سے چلا رہے ہیں۔3500روپے ماہانہ، ایک یتیم کی کفالت کا تخمینہ لگایا ہے۔ اللہ تعالیٰ! برادرم عبد الشکور، سیدنا احسان اللہ وقاص اور ان کے ساتھیوں کو اجر عظیم دے اور ان کی کوششوں و کاوشوں میں برکت ڈالے (آمین)۔

تازہ ترین