• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صد شکر کہ وطن عزیز کی مغربی سرحدوں کے محافظ قبائلیوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے تمام آئینی تقاضے بخیر و خوبی سرانجام پاچکے ہیں، میں سلام پیش کرتاہوں فاٹا کے بہادر اور غیورباشندوں کو جنہوں نے مخالفین کے پروپیگنڈے کو رد کرتے ہوئے حب الوطنی اور سمجھداری کا ثبوت دیا،یہ ایک حقیقت ہے کہ فاٹا انضمام کیلئے قانون سازی کوئی آسان عمل نہ تھا لیکن تمام تر سیاسی مخالفت کے باوجود ملکی قیادت نے جس احسن انداز میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا، ایسی تابناک مثال ہماری تاریخ میں شازونادر ہی ملتی ہے۔تاریخی تناظر میں اٹھارویں اور انیسویں صدی کو برطانوی سامراج کے عروج کی صدی قرار دیا جاتا ہے لیکن ایسے دور میں بھی اگر کسی خطے نے برطانوی تسلط قبول نہیں کیا تو وہ ہمارے قبائلی علاقہ جات تھے جنہیں علاقہ غیر کا نام بھی دیا گیا ، قبائلی حریت پسندوں کی قیام پاکستان 1947ء تک انگریز سامراج کے خلاف انتھک جدوجہد کی ایک طویل داستان ہے جس میں شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے حاجی مرزا علی خان المعروف فقیر آف ایپی کو منفرد مقام حاصل ہے، آج بھی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں فقیر ایپی کے نام سے منسوب سڑک قبائلیوں کی جدوجہد آزادی کی یاد دلاتی ہے۔قبائلی عوام کی خواہش آزادی کو نشانہ عبرت بنانے کیلئے انگریزوں کی جانب سےجوانتقامی اقدامات کئے گئے اس میں سرفہرست 1901ء میں فرینٹئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر)کے ظالمانہ قانون کانفاذ تھا جسکے تحت کسی انفرادی شخص کی غلطی کی سزا پورے خاندان اور قبیلے کو دی جاسکتی ہے، سادہ الفاظ میں ایف سی آر قانون فاٹا عوام کو اپیل، دلیل اور وکیل سے محروم رکھنے کیلئے انگریز سامراج نے نافذ کیا۔کہا جاتا ہے کہ جب قائداعظم کی زیرصدارت آل انڈیا مسلم لیگ نے 23مارچ 1940ء کو لاہور میں جلسہ منعقد کیا تو اس زمانے میں انگریزسرکار کی طرف سے قبائلی حریت پسندوں کے رہنماء مولانا فضل الہٰی وزیر آبادی پر ہندوستان میں داخلے پر پابندی تھی لیکن وہ قائداعظم محمد علی جناح کاتاریخی خطاب سننے کیلئے ایک ملنگ کا بھیس بدل کر شریک ہوئے۔ قبائلی عوام کی قائداعظم سے عقیدت کا اظہار اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم نے 1945ء میں لنڈی کوتل کا دورہ کیا توقبائلیوں کی بڑی تعداد اپنے لیڈر کا خیرمقدم کرنے سڑکوں پر نکل آئی تھی اور فضاء قائداعظم زندہ باد اور پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی، اس موقع پر قبائلی عوام نے اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کرتے ہوئے اپنی بھرپور حمایت کی یقین دہانی کرائی، قائداعظم نے مشہور درہ خیبر کا بھی دورہ کیا۔اسی طرح قیام پاکستان کے بعد اپریل 1948میں قائداعظم نے بطور گورنر جنرل پشاور میں گرینڈ جرگہ منعقد کیا تو قبائلی عمائدین کی بڑی تعداد نے شرکت کی، قائداعظم نے جدوجہد آزادی میں انکی قربانیوں کو سراہتے ہوئے پاکستان کی مضبوطی اور سربلندی کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی تلقین کی، قائداعظم نے محب وطن قبائلی عوام کو پاکستان کی مغربی سرحدوں کا محافظ قرار دیتے ہوئے انکے علاقوں سے فوج واپس بلانے کا بھی اعلان کیا، اسی طرح آزاد کشمیرکو پاکستان کاحصہ بنانے کیلئے قبائلیوں کا نمایاں کردار ہے۔ افسوس، قائداعظم کی وفات کے بعد قبائلیوں کے دیگرپاکستانیوں کے شانہ بشانہ ترقی و خوشحالی کے خواب پورے نہ ہوسکے۔
میری نظر میں فاٹا کو قومی دھارے میں شامل نہ کرنے کی بڑی وجہ قیام پاکستان کے فوراََ بعد افغانستان کی طرف سے پختونستان کابلاجواز شوشہ چھوڑا جانا تھا، افغان قیادت کی جانب سے فاٹا کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی گئی تو دوسری طرف جنرل ایوب کی آمریت نے ملک بھر میںاحساسِ محرومی میں اضافہ کیا جسکاافسوسناک نتیجہ پاکستان دولخت ہونے کی صورت میں نکلا۔تہتر کے آئین کے تحت فاٹا کو پاکستان کا حصہ تو قرار دیا گیا لیکن آرٹیکل 247اور248کے تحت پارلیمنٹ ، سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹاسے دور رکھا گیا۔ تین سال بعد وزیراعظم ذولفقار علی بھٹونے فاٹا کیلئے باقاعدہ کمیٹی جنرل نصیر اللہ بابر کی سر براہی میں تشکیل دی جس میں حفیظ پیرزادہ،رفیع رضا اور ڈاکٹر مبشرحسن بھی شامل تھے، کمیٹی کے اہداف میں آئندہ قومی انتخابات کا دائرہ کار فاٹا تک پھیلانے کیلئے اسے موجودہ پختونخوا کا حصہ بنانا تھا لیکن جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے باعث معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا بلکہ سویت یونین کے خلاف افغان جہاد کیلئے فاٹا کو دنیا بھر کے جنگجوؤں کی آماجگاہ بنا دیا گیا۔ بیس سال بعد 1996ء میں فاٹا کے عوام کو اپنے حقیقی پارلیمانی نمائندے ڈائریکٹ منتخب کرنے کیلئے اڈلٹ فرنچائز ایکٹ متعارف کرایا گیاجو اس بناء پر ناکام ہوا کہ فاٹا نہ تو آئینی لحاظ سے ایک صوبہ تھا اور نہ کسی صوبے کا حصہ۔ اسی طرح 2002ء میں فاٹامیں لوکل گورنمنٹ کے ذریعے گراس روٹ لیول پر اپنے نمائندے منتخب کرنے کا تجربہ افغانستان میں امریکی جارحیت کے اثرات کی وجہ سے ناکام ہوگیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ نے فاٹا کے تمام علاقوں کو شدید متاثر کیا، فاٹاکے عوام حب الوطنی اور امن پسندی میں کسی سے کم نہیں لیکن بدقسمتی سے وہاں کا ہر شہری مشکوک اور شدت پسند سمجھا جانے لگا ۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں 2006ء میں صاحبزادہ امتیاز احمد کی سربراہی میں فاٹا ریفارمز کمیٹی نے اپنی سفارشات میں فاٹا کوموجودہ صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ بنانے پر زور دیا لیکن اصلاحی عمل کوغیرضروری طور پر افغانستان میں قیام امن سے مشروط کردیا گیا، آرمی پبلک اسکول پشاور پر بزدلانہ حملے کے نتیجے میں قومی ایکشن پلان مرتب کیا گیا تو ایک بار پھر فاٹا ریفارمزکا معاملہ زور پکڑ گیا ۔مشیرخارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی نے فاٹا بھر سے تعلق رکھنے والے ساڑھے تین ہزار سے زائدمختلف قبائلی عمائدین ، سیاسی جماعتوں کے نمائندگان، کاروباری شخصیات، وکلاء، نوجوانوں اور سول سوسائٹی سے تبادلہ خیال کیا، کمیٹی نے فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے، ایف سی آر قوانین کا خاتمہ ، لوکل باڈی الیکشن کے انعقاد، ترقیاتی بجٹ میں اضافہ، سپریم کورٹ ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے، اسٹیٹ بینک کو فاٹا میں بینک کی شاخیں کھولنے، فاٹا کے طالب علموں کیلئے ایجوکیشن اور ہیلتھ کے شعبوں میں کوٹہ ڈبل کرنے جیسی مثبت سفارشات پیش کیں۔ میری نظر میں انسانی حقوق سے متصادم ایف سی آر کے ظالمانہ قانون کو ختم کرکے انضمام کا فیصلہ بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا۔خیر، دیرآید درست آیدکے مصداق قومی اسمبلی، سینیٹ کے بعد آخرکار خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی نے بھاری اکثریت سے فاٹا انضمام کی منظوری دیکر قائداعظم کے وژن کے مطابق فاٹا کے محب وطن عوام کو یکساں حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے عملی قدم اٹھا دیا ہے، میری نظر میں فاٹا انضمام کی راہ ہموار کرنے میں پاک فوج کے کامیاب آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد کا نمایاں کردار ہے، اس سلسلے میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی فاٹا عوام کے ساتھ کمٹمنٹ اورحکومت خیبرپختونخوا اورووٹنگ میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی نمائندے مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے قومی فریضہ سمجھ کر قائداعظم کا قبائلیوں سے وعدہ پورا کیا،میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کو بھی مخالفت نہیں کرنی چاہئے تھی۔ میں فاٹا میں بسنے والے محب وطن پاکستانیوں سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ وہ صوبہ خیبرپختونخوا میں شمولیت کا خیرمقدم کرکے ان تمام قوتوں کو مسترد کردیں جو انہیں ترقی کی راہ سے دور رکھتے ہوئے شدت پسندی کی جانب مائل رکھنا چاہتی ہیں۔ فاٹا انضمام کی بلاجواز مخالفت کرنے والے افغانستان کوبھی سمجھنا چاہئے کہ ایک پرامن ترقی یافتہ فاٹا پورے خطے کیلئے باعث امن ثابت ہوگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین