• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسکاٹ لینڈ کی آزادی؟

تحریر:ایلن کاکرین

یونینسٹ اورڈیموکریٹس رواں اختتام ہفتے اسکاٹش نیشنل پارٹی(ایس این پی)کی حمایت کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں جو اس پارٹی کی طمطراق کے ساتھ معنون ’’سسٹین ایبل گروتھ کمیشنزرپورٹ‘‘یعنی پائیدارترقی والی کمیشن رپورٹ کے نتائج سے متعلق کسی بھی سوچ کے اظہار پر مبنی ہیں،جبکہ یہ رپورٹ ان کے خیال میں اسکاٹ لینڈ کی اقتصادی معیشت کے مستقبل سے متعلق ہے۔

اینڈریو ولسن کی اس فیل پیکر(بہت بڑی) رپورٹ کے ان الفاظ اورفقروں کو بہترطورپر ترتیب دیا جاسکتا تھا بہ نسبت ان کے جو ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں،لیکن اس بارے میں دلائل،جن کے بارے میں نکولا اسٹرجن (اسکاٹ لینڈ کی موجودہ منتخب سربراہ)پرامید ہیں کہ یہ ہمیں ایک اورآزادی سے متعلق ریفرنڈم کی جانب لے جائیں گے،بنیادی طورپر وہی ہیں جن کے بارے میں ہم نے چارسال پہلے سن رکھا ہے۔

اس سے قبل ہم ایک ریفرنڈم کراچکے تھے جس میں الیکس سالمنڈ(اس وقت کے اسکاٹ لینڈکے منتخب سربراہ) نے کہا کہ ایسا عمل کسی ایک نسل کے دوران ایک بارہی ہوگا اورنکولا اسٹرجن نے یہ کہتے ہوئے انتہاکردی کہ ایساعمل زندگی بھر میں صرف ایک بارہی وقو ع پذیرہوگا۔

لیکن چونکہ انہیں شکست ہوگئی اورہمیں پھر سے اس پورے عمل کو دہرانا ہے،یا کم ازکم یہ وہ ’ہڈی‘ہے جسے اسکاٹش نیشنل پارٹی کی رہنما کواپنے لالچی سرگرم کارکنوں کے سامنے پھینک دینی چاہئے جویہ سمجھتے ہیں کہ پچھلی مرتبہ’’ان کی جیت کو دھوکے سے شکست میں بدل دیا گیا تھا۔‘‘اس طرح،انہیں (نکولااسٹرجن )اپنی شخصیت کو عزت وتوقیر کالبادہ اوڑھانے کیلئے ،انہوں نے جناب ولسن کی خدمات حاصل کیں ،جو پیشے کے لحاظ سے ایک ماہراقتصادیات اوراس کے ساتھ ساتھ اسکاٹش نیشنل پارٹی کے سابق رکن اسکاٹش پارلیمنٹ بھی ہیں،تاکہ وہ ایک رپورٹ تیارکریں۔

اسکاٹ لینڈ کے ذرائع ابلاغ کے کچھ حلقوں کے سلوک کے باوجودکیونکہ اگریہ مکمل طورپر غیر جانبداراورپتھر کی تختیوں پر لکھا گیا ہوتا توپھر یہ اس کام کاانتہائی جزوی حصہ ہے۔

لیکن اس کا الزام جناب ولسن کو نہ دیں ،انہوں نے تو صرف وہ پیش کیا ہے جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا۔میرے خیال میں وہ بے وقوف تھے،بے تکلفی سے،جواس منصوبے میں شامل ہوگئے جو کسی بھی اورچیز سے بڑھ کر لااسٹرجن کی قیادت کو سہارادینے سے متعلق تھا،لیکن اس کے بعد وہ قوم پرست ہیں اورمجھے ایسا لگتا ہے کہ یہی وہ وقت ہے جب تمام اچھے افرادکو اپنی پارٹی ،یا اس معاملے میں ان کے باس،کی مددکے لئے لازمی طورپر آگے بڑھ کر آنا چاہئے۔

اس واقعے میں ،ان کی رپورٹ کا بنیادی اصراراس کرنسی سے متعلق دکھائی دے گا جو ایک آزاداسکاٹ لینڈ استعمال کرے گا،یہ ایک انتہائی معاشی مسئلہ ہے جو چارسال قبل سالمنڈ اوراسٹرجن کے زوال کا باعث بنا تھا۔

پچھلی مرتبہ Wee Eck(ایلکس سالمنڈکی عرفیت )نے کہا تھا کہ وہ صرف باقی ماندہ برطانیہ کے ساتھ اسٹرلنگ(کرنسی) کا اشتراک کریں گے؛اس بارولسن کمیشن کہتا ہے کہ وہ صرف پاؤنڈ کا استعمال جاری رکھیں گے،یکطرفہ طورپر،جسے اگروہ ایسا چاہیں تو کرسکتےہیں۔لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لئے سونے کا ہمالہ یعنی تقریباً300ارب برطانوی پاؤنڈ کی ضرورت ہوگی،جو اسے سہارافراہم کرے۔

اورجیسا کہ اس کا بینک آف انگلینڈ کے سودکی شرح اورمالیاتی پالیسیوں کے ماتحت رہنا اس میں شامل ہے، اس آئیڈیا(خیال وفکر)کو بائیں بازوسے تعلق رکھنے والے ارکان پہلے ہی شدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ،اس کے بعداس تمام ترصورتحال میں’’آزاد‘‘کے کیا معنی ہیں۔

اسی طرح،میں یہ تصورنہیں کرسکتا کہ یہ نیشنلسٹ(قوم پرست)جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بائیں بازوکی حقیقی جماعت ہے جس پر ٹونی بلئیر(سابق برطانوی وزیراعظم)کی جدت پسندپالیسیوں کا حمایتی،حتیٰ کہ مینڈل سونین (پراسرار،مدبر،محنت کش اورانتہائی وفادار افراد)بھی، فریفتہ ہوں گے یعنی اس کی حوصلہ افزائی کریں گے،جناب ولسن کے اس آئیڈیا، جو ٹیکسوں میں وقفے اور دیگر مالیاتی ترغیبات کی پیشکش کرتاہے ،کا زوراس بات پر ہے کہ دولت مند لوگوں اور انتہائی ہنرمندتارکین وطن کو ’’اسکاٹ لینڈ آنے ‘‘کی جانب راغب کیا جائے۔

اس تمام ترصورتحال کے بعد،میں تجویز کرتا ہوں کہ جناب ولسن نے وہی کچھ پیش کردیا ہے جس کا ان سے کہا گیا تھا،جسے آزادی کے لئے بظاہرمعقول معاشی امکانات کی صف بندی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے ،جو زیادہ ترقوم پرست کارکنوں کو رات میں گرم کیے رکھے گا۔

بہر حال ،ہم سے باقی ماندہ افرادکے لئے ،یہ بیزارکرنے والے فرسودہ خیالات ہیں جو ہم بہت پہلے سے سنتے آرہے ہیں اوران سب کے دہرانے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیںآتی ۔آخر کار ہم جیت گئے ،کیا ایسا نہیں ہے؟

تازہ ترین