بانو قدسیہ نے ’’فٹ پاتھ کی گھاس‘‘ میں لکھا تھا،
’’خواہشات تو سبھی کے دل میں ہوتی ہیں۔ سب ان کی تکمیل چاہتے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ پڑتا ہے کہ ان تک رسائی کے لیے کون سا راستہ جاتا ہے۔ اسی راستے کے انتخاب میں تو انسان کا پتہ چلتا ہے۔ اسی انتخاب میں انسان کی بڑائی یا اس کا چھوٹا پن چھپا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ وہ سونے کا ہے یا پیتل کا۔ ہیرو بھی ہیروئن تک پہنچنا چاہتا ہے اور ولن بھی… صرف راستے کے انتخاب سے ایک ہیرو ٹھہرتا ہے اور دوسرا ولن۔‘‘
کسی بھی رائٹر کی تحریر سے اس کی شخصیت کی عکاسی ہوتی ہے، یہ کمالِ خوبی بانو قدسیہ میں بھی تھی، شاید پنگھوڑے سے ملنے والی تربیت کا اثر تھا یا اپنے شریک حیات اشفاق احمد کی رفاقت ، جس نے بانو قدسیہ کا نام ایسے مصنفین سے جوڑ دیا جو احترام ِ انسانیت کی بلندیوں پر ہیں۔
1928ء میں فیروز پور، بھارتی پنجاب میں پیدا ہونے والی بانو نے قیام پاکستان کے بعد اپنے والد اور بھائی کے ہمراہ ہجرت کی اور لاہور کو نیا گھر بنایا۔انہیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے اُنہوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا تھا۔ جب پانچویں جماعت میں تھیں تو اُن کے اسکول میں ڈراما فیسٹیول کا انعقاد ہوا جس میں ہر جماعت کو اپنا اپنا ڈرامہ پرفارم کرنا تھا۔ بہت تلاش کے باوجود بھی کلاس کو 30 منٹ کا کوئی اسکرپٹ دستیاب نہ ہوا۔ چنانچہ ہم جولیوں اور ٹیچرز نے اس مقصد کے لئے بانو قدسیہ کی طرف دیکھا جن کی پڑھنے لکھنے کی عادت کلاس میں سب سے زیادہ تھی۔ اُن سے درخواست کی گئی کہ تم ڈرامائی باتیں کرتی ہو لہٰذا یہ ڈراما تم ہی لکھ دو۔ بانو قدسیہ نے اُس چیلنج کو قبول کیا اور بقول اُن کے جتنی بھی اْردو آتی تھی اس میں ڈراما لکھ دیا۔ یہ اُن کی پہلی کاوش تھی۔اُس ڈرامے کو اسکول بھر میں فرسٹ پرائز کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اِس حوصلہ افزائی کے بعد وہ دسویں جماعت تک افسانے اور ڈرامے ہی لکھتی رہیں۔ طویل عرصے تک وہ اپنی کہانیوں کی اشاعت پر توجہ نہ دے پائیں اور ایم اے اْردو کرنے کے دوران اشفاق احمد کی حوصلہ افزائی پر اُن کا پہلا افسانہ ’’داماندگی شوق‘‘ 1950ء میں اُس وقت کے ایک سرکردہ ادبی جریدے ’’ادبِ لطیف‘‘ میں شائع ہوا۔
یہاں انہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے 1951ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے اُردو زبان میں ماسٹرز کیا۔ یہیں ان کے ایک ہم جماعت نے انہیں اپنا ہم سفر بنانے کا ارادہ ظاہر کیا اور یوں انہیں اشفاق احمد کا ساتھ ملا جو بعد میں معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نویس، مترجم اور براڈ کاسٹر کے طور پر مشہور ہوئے۔ اشفاق احمد کے بیرون ملک جانے کے بعد ان کی واپسی کا انتظار کیا، دونوں نے ایک دوسرے سے کئے وعدے کو پورا کرنے کے لئے شادی کی، جس پر اشفاق احمد کو اپنے گھر والوں کی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا ،اس کے باوجود انہوں نے اپنی نئی زندگی کا آغازکیا، اسی مزاحمت کے پیش نظربانوقدسیہ نے آئندہ کی زندگی میں آنے والے کٹھن مراحل کو برداشت کیا، سخت محنت کرتے ہوئے اشفاق احمد کا ہرلمحے ہرمنزل پر ساتھ دیا، ایک دوسرے کی بھرپورہمت بندھاتے رہے، تمام گھریلو فرائض انجام دیے، بچوں کی بہترین تربیت کی،یہاں تک کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ،ایک دوسرے کا لباس اورہر معاملے میں پردہ بھی رکھتے تھے۔حلقہ احباب میں انہیں ’’بانو آپا‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اپنے لکھنے کے حوالے سے بانو قدسیہ کہتی تھیں کہ میں نے کسی سے اصلاح نہیں لی اور نہ کبھی کچھ پوچھا تاوقتیکہ میری شادی نہیں ہوگئی۔ اُس کے بعد اشفاق احمد صاحب میرے بڑے معاون و مددگار بلکہ استاد ثابت ہوئے۔ اُنہوں نے مجھ سے کہا اگر تمہیں لکھنا ہے تو ایسا لکھو کہ کبھی مجھ سے دو قدم آگے رہو اور کبھی دو قدم پیچھے تاکہ مقابلہ پورا ہو۔ اِس کا مجھے بڑا فائدہ ہوا، اشفاق صاحب نے ہمت دلائی، حوصلہ افزائی بھی کی اور حوصلہ شکنی بھی۔ میری کئی باتوں پر خوش بھی ہوئے۔ آخر تک اُن کا رویہ استاد کا ہی رہا۔ میں انہیں شوہر کے ساتھ ساتھ اپنا استاد بھی سمجھتی ہوں۔
بانو آپا نے اُردو اورپنجابی زبانوں میں کئی مقبول ڈرامے بھی لکھے۔ بانو قدسیہ کی مشہور کتابوں میں آتش زیرپا، آدھی بات، ایک قدم، امربیل، آسے پاسے، بازگشت، چہار چمن، دست بستہ، دوسرا دروازہ، فٹ پاتھ کی گھاس، حاصل گھاٹ، ہوا کے نام، کچھ اور نہیں، موم کی گلیاں، ناقابلِ ذکر، پیا نام کا دیا، شہرِ بے مثال، سورج مکھی، تماثیل، توجہ کی طالب شامل ہیں۔ 1981ء میں انہوں نے شہرہ آفاق ناول ’’راجہ گدھ‘‘ تحریر کیا۔ اُردو ادب کی لازوال خدمات پر انہیں 2003ء میں ستارہ امتیاز اور2010ء میں ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ بانو قدسیہ کی وجہ شہرت ان کا معرکتہ الآراء ناول ’’ راجہ گدھ ‘‘ تھی۔ جس نے حرام اور حلال کے فلسفے کو کھول کر رکھ دیا تھا۔ ناول کو بانو آپا نے سادہ اور جدید وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھتے ہوئے انگریزی زبان کے الفاظ کی اردو میں آمیزش بھی کی جو آج کا رواج ہے، سو ناول میں الفاظ کا بکثرت استعمال ملتا ہے جو تعلیم یافتہ اور اپر کلاس کی نمائندگی حقیقت کا رنگ بھرنے اور کہانی میں ماحول کی آبیاری کے لئے انتہائی ضروری تصور کی جاتی ہے۔ نئے سائنسی علم کے مطابق غذا معدے تک پہنچ کر نا صرف جسمانی بلکہ ذہنی تبدیلیوں کا بھی مؤجب بنتی ہے جو انسان سے ضبطِ نفس یعنی برداشت و صبر چھین لیتی ہے۔
آپ کیلئے راجہ گدھ سے ایک اقتباس حاضر ہےــ:
’’محبت ،نفرت کا سیدھا سادہ شیطانی روپ ہے، محبت سادہ لباس میں ملبوس عمر وعیار ہے، ہمیشہ دو راہوں پر لا کھڑا کر دیتی ہے، اُس کی راہ پر ہر جگہ راستہ دکھانے کو صلیب کا نشاں گِرا ہوتا ہے، محبت کے جھمیلوں میں کبھی فیصلہ اورکچھ سزا نہیں ہوتی، ہمیشہ عمر قید ہوتی ہے، محبت کا مزاج ہوا کی طرح ہے، کہیں ٹکتا نہیں، محبت میں بیک وقت توڑنے اور جوڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے، محبت تو ہر دن کے ساتھ اعادہ چاہتی ہے، جب تک روز اُس تصویر میں رنگ نہ بھرو، تصویر فیڈ ہونے لگتی ہے، روز سورج نہ چڑھے تو دن نہیں ہوتا۔ اِسی طرح جس روز محبت کا آفتاب طلوع نہ ہو، رات رہتی ہے۔‘‘