ڈاکٹر شیر شاہ سید
ہمارے ملک میں تعلیمی نظام کو سائنسی بنیادوں پر منظم کرنے کی سنجیدہ کوشش مکمل جذبے کے ساتھ کبھی بھی نہیں کی گئی۔ سیاست دانوں اور منصوبہ سازوں کے بلند بانگ دعوئوں میں کوئی وزن ہوتا، تو ہمارے ملک کے گوشے گوشے میں بنیادی اور پرائمری تعلیم کےمراکز ہوتے۔ اسکولوں میں طلبہ، و طالبات کی بھرمار ہوتی، سڑکوں پر بھیک مانگنے والےبچےنظر نہیں آتےاور نہ ہی شہر کےکارخانوں، گیراجوں، دکانوں، سڑکوں، پتھاروں، گھروں اور ہوٹلوں میں بچے محنت مزدوری کرتے نظر آتے اور نہ ہی دیہی علاقوں میں کھیتوں کھلیانوں میں مشقت کرتے نظر آتے۔
مقتدر حلقوں نے پرائمری اور بنیادی تعلیم کےسلسلےمیں ہمیشہ ہی غفلت سےکام لیا ہے، جس کا خمیازہ نسل نو کو بھگتنا پڑتا ہے۔صد افسوس کہ ملک کے وسائل کا ایک بڑا حصہ بدعنوانیوں کی نظر ہوگیا، جب کہ ہمارے بچے اور بچیاں بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ ان کے زیادہ تر تعلیمی اداروں میں کرسی، ٹیبل، پانی، چھت اور بیت الخلا تک کی سہولتیں تک موجود نہیں۔ ملک کے دانش وروں،اہلِ علم کی اس سلسلے میں خاموشی بھی مایوس کن ہے۔ یہاں اعلیٰ تعلیم کی صورت حال بھی انتہائی مایوسی کن ہے۔ پورے ملک میں یونیورسٹیاں تو کئی ہیں، جن کی عمارتوں پر کثیر رقم خرچ کی گئی ہے،مگرتعلیمی معیار کے بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ سرکاری جامعات کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ نجی جامعات میں بھی فیس تو زیادہ وصول کی جا تی ہے، لیکن معیارِ تعلیم وہاں بھی بہتر نہیں، جامعات اس اخلاقیات سے بھی مبرا ہیں کہ اگر طالب علموں سے بھاری بھرکم فیس وصول کی جارہی ہے، تو کم از کم اس کے بدلےمیں انہیں سہولتیں اور تعلیم تو مہیا کی جائے۔تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں سرکاری حکم پر یا اسمبلیوں میں قانون پاس کرنے سے وجود میں نہیں آتیں۔ ان کو بنانے کے لیے جذبوں، آگاہی اور بلند نگاہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کی بہت ساری سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیاں اس طرح سے بن گئی ہیں، جن کا بنیادی مقصد صرف پیسے کمانا ہے۔ ایسے حالات میں ان یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے طالب علم سماج میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے صحیح جواب پر ہی آئندہ کا لائحہ عمل طے کیاجاسکتا ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی کادار و مدار وہاں کے شہریوں کی تعلیمی قابلیت پر ہوتا ہے۔یہ تعلیمی قابلیت ہی ہوتی ہے ،جو آگہی پیدا کرتی ہے ،جو ذمےدار ہوتی ، سماج میں رواداری کو برداشت کرتی ، عورت اور مرد کے کے ظالمانہ تفریق کو ختم کرتی ، سماج میں اقلیتوں کی حفاظت کرتی ، علم و شعور کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اگر ترقی کرنی ہے، تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ تعلیم کو عام کیا جائےاور اس بات کو ممکن بنایا جائے کہ بنیادی اور پرائمری تعلیم تک ہر بچے کی رسائی ہو۔ ملک کے قریہ قریہ، گائوں گائوں، شہر شہر بے علم رہ جانے والے لوگوں کے لیے خصوصی اسکول قائم کرکے انہیں علم سے روشناس کروایاجائے۔ اس کے ساتھ ہی کوشش کی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں صرف اور صرف قابلیت کی بنیاد پر تقرریاں ہوں۔