• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ویسے تو اس سوال پر دنیا میں بہت پہلے سے فلسفیانہ بحث ہو رہی ہے اور یہ سوال کسی حد تک معروضی بھی ہے۔سوال یہ ہے کہ آمرانہ یا مطلق العنان حکومتوں کے مقابلے میں جمہوری حکومتوں کی کارکردگی کیوں بہتر نہیں ہوتی؟ لیکن یہ سوال پاکستان سے زیادہ متعلق ہے کیونکہ پاکستان میں جمہوری حکومتیں ’’ ڈلیور ‘‘ نہیں کر سکی ہیں ۔ آمرانہ حکومتوں کی پالیسیاں یقیناً موجودہ مسائل اور بحرانوں جیسے دہشتگردی، انتہا پسندی کا سبب ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آمرانہ حکومتوں میں گورننس اور مالیاتی انتظام ( فنانشل مینجمنٹ ) جمہوری حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر تھا ، جس سے لوگوں کو ریلیف محسوس ہوتا تھا ۔ جمہوری حکومتیں اچھی حکمرانی اور بہتر مالیاتی انتظام نہیں دے سکیں ۔پاکستان میں جمہوری حکومتوں کی کارکردگی کا ترقی یافتہ اور قدیم جمہوریتوں سے مقابلہ نہیں کرنا چاہئے لیکن ترقی پذیر ممالک کی نوزائیدہ جمہوریتوں کے مقابلے میں بھی ہماری جمہوری حکومتوں کی کارکردگی ناقابل حد تک خراب ہے ۔
ہمیں اس خرابی کی وجہ تلاش کرنی چاہئے اوریہ خرابی ہمارے نظام حکومت میں ہے ۔ ہم ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام ضروری ہے کیونکہ ہمارے خیال میں پاکستان جیسے وفاق کیلئے پارلیمانی جمہوری نظام موزوں ہے ۔ ہمارا یہ بھی تصور ہے کہ اگر پارلیمانی جمہوری نظام نہیں رہا تو وفاق خطرے میں پڑ جائے گا حالانکہ دنیا میں کئی دیگر ممالک بھی ہیں ، جو وفاق ہیں لیکن وہاں پارلیمانی نظام نہیں ہے ۔ اس کی مثال روس ہے ، جو وفاق ہے لیکن وہاں زیادہ تر اختیارات وزیر اعظم کی بجائے صدر کے پاس ہیں ۔ دنیا میں مختلف نظام ہائے حکومت کام کر رہے ہیں ۔ کہیں پارلیمانی جمہوری نظام ہے ، کہیں صدارتی نظام ہے ، کہیں ایک پارٹی والا نظام ہے ، کہیں دو پارٹی والا نظام ہے اور کہیں کثیر الجماعتی نظام ہے ۔ پارلیمانی جمہوری نظام کی کامیابی کی بھی مثالیں موجود ہیں ۔ ہم برطانیہ، جرمنی یا دیگر ترقی یافتہ ملکوں کا حوالہ نہیں دیں گے بلکہ بنگلہ دیش اور بھارت ہمارے لئے بہترین مثال ہیں۔ پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام ڈلیور نہیں کر سکا ہے ۔ میرے خیال میں ہمیں اسی بات پر زیادہ گہرائی سے سوچنا چاہئے اور اس پر بحث ہونی چاہئے ۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے ہاں بحث کا کلچر نہیں ہے ۔ موجودہ پارلیمانی نظام زیادہ موثر اور عوام کیلئے مفید نہیں بن سکا ہے ۔پاکستان کے اس وقت چار صوبے یعنی چار وفاقی اکائیاں ہیں ۔ پنجاب کی آبادی تینوں وفاقی اکائیوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے ۔ صوبوں کو جتنی بھی خود مختاری دےدی جائے ، وفاق میں پنجاب کی بالادستی ہر حال میں قائم رہتی ہے ۔ اسی طرح پاکستان کے کچھ علاقے بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور کچھ علاقے بہت زیادہ پسماندہ ہیں ۔ پسماندہ علاقوں کے لوگ قرون وسطیٰ کے عہد کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ آج بھی سرداری اور جاگیردارانہ نظام موجود ہے ۔ آج بھی قبائلی جرگہ اور پنچایت میں فیصلے ہوتے ہیں ۔ آج بھی وہاں لڑکیوں کو ’’ ونی ‘‘ کیا جاتا ہے ۔ ہماری پارلیمنٹ میں جو لوگ آتے ہیں ، وہ خاندانی اثر و رسوخ یا پیسے کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں ۔ ان میں اہلیت اور قابلیت یا تجربہ نہیں ہوتا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر میاں محمد نواز شریف تک سب لوگوں نے خارجہ امور ،معیشت اور مالیات کے شعبوں میں زیادہ تر پارلیمنٹ سے باہر کے لوگوں کی خدمات حاصل کی ہیں ۔ خارجہ امور کیلئے آغا شاہی ، صاحبزادہ یعقوب علی خان اور سرتاج عزیز جیسے لوگوں کی ضرورت رہی ہے ۔ اسی طرح معیشت کے شعبوں میں ڈاکٹر محبوب الحق ، شوکت عزیز ، شوکت ترین ، ڈاکٹر حفیظ شیخ جیسے لوگوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں ۔ہماری پارلیمان جو فیصلے کرتی ہے ،ان پر عمل درآمد بھی نہیں ہوتا۔ ہماری پارلیمان تعلیم ، صحت ، ہاؤسنگ ، انفراسٹرکچر کے شعبوں میں بڑے لوگ پیدا نہیں کر سکی ہے ۔ ایڈہاک کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں ۔ نااہل لوگ اہم عہدوں پر فائز ہوتے ہیں اور کرپشن کو روکنے کا کوئی نظام نہیں ہے ۔ صوبے خود مختار ہو گئے ہیں لیکن وہ اپنے اختیارات نیچے منتقل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ ہمارے ہاں وفاقیت کا تصور صرف یہ رہ گیا ہے کہ اختیارات صوبوں میں مرکوز ہو جائیں اور وہ کوئی بھی کام نہ کریں ۔ وفاقیت یہ نہیں ہوتی اور نہ ہی وفاقی اکائیوں کے حقوق؎ پارلیمانی جمہوری نظام سے مشروط ہیں ۔ کوئی بھی نظام حکومت ہو ،وہ عوام کی بہتری کیلئے ہوتا ہے۔ قومیں اپنی ضروریات اور اپنے معروضی تقاضوں کے مطابق نظام حکومت تشکیل دیتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں مختلف نظام ہائے حکومت رائج ہیں۔ میرے خیال میںپاکستان کے معروضی حالات میں صدارتی نظام زیادہ موزوں ہے ۔ اس ضمن میں بعض لوگ ایوب خان کے صدارتی نظام کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نظام کامیاب نہیں رہا حالانکہ ایوب خان کا صدارتی نظام جمہوری نہیں تھا بلکہ فوجی آمریت والا صدارتی نظام تھا ۔اس میں اور حقیقی جمہوری صدارتی نظام میں بہت فرق ہے ۔ رشین فیڈریشن والا نظام پاکستان کے معروضی حالات میں زیادہ کارگر ہوسکتا ہے۔وہاں سارے اختیارات صدر کے پاس ہیں اورصدر ہی تمام داخلی اور خارجی امور کے فیصلے کرتا ہے۔صدر ہی اپنی کابینہ تشکیل دیتا ہے۔حالانکہ کہنے کو وہاں پارلیمانی نظام ہے لیکن صدر زیادہ بااختیار ہے۔ صدر کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے ہوتا ہے۔
پاکستان میں نئے صوبے قائم کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔ اگر کچھ وفاقی اکائیوں کے لوگ اپنی اکائیوں کی وحدت کو تقسیم نہیں کرنا چاہتے تو وہ اپنے اندر انتظامی یونٹس بنا سکتے ہیں ، جو زیادہ بااختیار ہوں ۔ پنجاب کے ارکان صوبائی اسمبلی تو آئین کے مطابق خود پنجاب میں تین صوبے بنانے کیلئے پنجاب اسمبلی میں ووٹ دے چکے ہیں ۔ پنجاب کا تین صوبوں میں تقسیم ہونا بہت ضروری ہے ۔ اس سے دوسرے صوبوں میں آبادی کم ہونے کی وجہ سے جو احساس محرومی ہے ، وہ ختم ہو جائے گا ۔دیگر صوبوں میں بااختیار انتظامی یونٹس بنائے جاسکتے ہیں ۔ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ پارلیمان اور صوبائی اسمبلیاں بشمول انتظامی یونٹس کی اسمبلیاں صرف قانون سازی تک محدود رہیں ۔ ترقیاتی کام بلدیاتی اداروں کے سپرد کر دیئے جائیں ۔مضبوط اور خود مختارمقامی حکومتوں کا نظام قائم کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ بلدیاتی ادارے زیادہ سے زیادہ بااختیار ہوں اور ان کی بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہونا چاہئے ۔ بلدیاتی ادارے مالیاتی امور میں بھی خود مختار ہوں ۔ البتہ بڑے ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں منظوری کا اختیار صوبائی اسمبلیوں یا پارلیمنٹ کو ہو لیکن ان پر عمل درآمد مقامی حکومتیں کریں ۔ یونین کونسلز اور یونین کمیٹیز کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کی طرح اوپر والے بلدیاتی اداروں کے چیئرمین اور وائس چیئرمین یا میئر اور ڈپٹی میئر کے عہدوں کیلئے بھی براہ راست انتخاب ہو ۔ یعنی انہیں بھی عوام ہی براہ راست منتخب کریں۔ اس کے علاوہ بعض دیگر فیصلے کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔ جو سیاسی جماعتیں مسلسل دو انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں10فیصد نشستیں نہ لے سکیں ، انہیں دوبارہ الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی جائے ۔ ارکان پارلیمنٹ کیلئے گریجویشن کی شرط بحال ہونی چاہئے ۔ کرپشن کے کیسز میں ملوث اور پلی بارگین کرنے والوں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ ہو ۔ تعلیم اور صحت کے اداروں کو بھی زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینا ہو گی اور انہیں سیاست سے آزاد کرنا ہو گا ۔ ان شعبوں کو چلانے کیلئے خود مختار انتظامی بورڈزتشکیل دیئے جائیں ۔ یہ بنیادی فیصلے ہمیں کر لینا چاہئیں کیونکہ جمہوریت کا مقصد صرف مدت پوری کرنا نہیں ہوتا ۔ جمہوریت عوام کو ریلیف دینے کے ساتھ ساتھ احتساب کا مضبوط نظام قائم کرتی ہے ۔ کوئی نظام عوام کو چلانے کیلئے نہیں ہوتا بلکہ عوام ہی نظام کو چلاتے ہیں ۔پاکستان کے عوام موجودہ نظام سے اکتا چکے ہیں ۔کیونکہ یہ نظام ڈلیور نہیں کرسکا ہے ۔دنیا کی دیگر وفاقی ریاستوں کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں صدارتی جمہوری نظام ،نئے صوبوں اور نئے انتظامی یونٹس کی تشکیل ،مضبوط اور بااختیار مقامی حکومتوں کے نظام، سماجی شعبوں کے معاملات میں زیادہ خود مختاری اور سخت انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ہمیں غور کرنا چاہئے اور کھلے دل سے بحث کرنی چاہئے ۔
تازہ ترین