• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے بد خواہوں نے ہمیں گمراہ کیا۔ ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ نور کی تلیا باجو کی گلی میں بہہ رہی ہے۔ یکبارگی ایسا تڑاقا ہوا کہ چودہ طبق روشن ہو گئے۔ رات بھر ٹیلی ویژن اسکرین پر اور پھر سویرے کے اخبار میں صفحہٴ اول پر اعلان ہوا کہ اہل پاکستان نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ گنیز ریکارڈ بک والے انگشت بدنداں ہیں۔ اپنے اگلے ایڈیشن میں ایک خصوصی پاکستان نمبر نکالنا چاہتے ہیں تاکہ یہ محیرالعقول کارنامے کاغذ کی زینت بنائے جا سکیں۔ ایک نوجوان نے تین منٹ سترہ سیکنڈ میں گیارہ چپاتیاں تنور میں لگائیں۔ ایک منچلے گھنٹوں فٹ بال کو ٹھوکریں لگاتے رہے تا وقت یہ کہ عالمی ریکارڈ چکنا چور ہو گیا۔ ایک صاحب جنوں نے مونچھوں میں رسی باندھ کر سترہ ٹن وزنی ٹرک گھسیٹا۔ اسکول کے ستر ہزار بچوں اور ایک صوبائی وزیر اعلیٰ نے مل کر قومی ترانہ گایاجس میں سوائے ایک حرف جار کے، قسم ہے جو ایک بھی لفظ اردو زبان کا ہو۔ دھوپ میں کھڑے ہزاروں بھوکے پیاسے بچوں نے جھنڈیاں پکڑ کر تصویر بنائی۔ یہ سب لاہور میں ہوا تو اہل کراچی کیوں پیچھے رہتے۔ کرکٹ کے درجن بھر ریٹائرڈ کھلاڑیوں کی ٹھوڑی میں ہاتھ دیا، زر خطیر ادا کیا، انہیں دو روز کے لیے پاکستان بلایا اور اعلان کیا کہ پاکستان پر عالمی کرکٹ کے دروازے کھل گئے ہیں۔ اسلام آباد سے حوالدار ریٹائرڈ اسداللہ تمکین کا فون آیا کہ تم ہمیشہ اہل وطن کی پسماندگی کا رونا روتے ہو۔ فتوحات کی اس شبھ گھڑی میں قوم کو مبارک کیوں نہیں دیتے۔ اگر ترقی کے سر میں سینگ ہوتے تو واللہ لاہور کا قذافی اسٹیڈیم بارہ سنگھوں کی جولاں گاہ قرار پاتا۔ حوالدار صاحب سے کیا بحث کرتا، آپ سے عرض کرتا ہوں کہ ترقی ان خوش فہمیوں کا نام نہیں۔ اینٹ پتھر کی عمارتیں کھڑی کرنے کو ترقی نہیں کہتے۔ زیر زمین معدنیات اور قدرتی وسائل کی موجودگی ترقی کی ضامن ہوتی تو سونے اور ہیرے جواہرات کی کانوں سے مالامال بہت سے افریقی ممالک قحط، افلاس اور خانہ جنگی کا شکار نہ ہوتے۔ ترقی تو اپنے انسانی وسائل کو بروئے کار لانے کی صلاحیت کا نام ہے۔ اپنے معاشرے کو درپیش مشکلات کو سمجھنے، آئندہ مسائل کی پیش بینی کرنے اور ان کا حل تجویز کرنے کی صلاحیت ترقی کہلاتی ہے۔ کسی قوم کی ترقی کی بنیاد اس کی درس گاہوں میں رکھی جاتی ہے۔ کارخانوں کی دھواں اگلتی چمنیاں ، بازاروں کی چہل پہل اور توپ تفنگ سے لیس افواج تو محض کسی قوم کی ذہنی توانائی کی خارجی شہادتیں ہیں۔ اس پیمانے پر جانچیں تو ہماری صورت حال ناقابل رشک ہے۔
ہمارے ملک میں 1998ء کے بعد سے مردم شماری نہیں ہوئی۔ 1998ء کی مردم شماری بھی سترہ برس کی تاخیر سے ہوئی۔ وجہ یہ تھی کہ مردم شماری کے نتیجے میں مختلف لسانی اور ثقافتی اکائیوں میں اختلافات شدید ہونے کا اندیشہ تھا۔ اب خدشہ یہ ہے کہ مردم شماری ہوئی تو قبائلی ایجنسیوں، بلوچستان اور کراچی کے ان علاقوں میں کیا کریں گے جہاں ریاستی اہل کاروں کا قدم دھرنا محال ہورہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ملک کے سماجی اور معاشی حالات کے بارے میں جو اعداد و شمار بیان کیے جاتے ہیں وہ سب قیاس پر مبنی ہیں یا پھر محدود نمونے کے اعداد و شمار کو پورے ملک پر پھیلادیا جاتا ہے۔ غور فرمایئے کہ اگر مستند اعداد و شمار ہی موجود نہیں تو معاشی اور سماجی شعبوں میں حقیقت پسندانہ اور قابل عمل منصوبہ بندی کیسے کی جا سکتی ہے۔
دسمبر 2011ء میں ہماری آبادی اٹھارہ کروڑ ستر لاکھ تھی۔ ہمارا زمینی رقبہ دنیا کے کل زمینی رقبے کا 0.7فی صد ہے جس میں اضافہ ممکن نہیں۔ تیس برس پہلے ہماری آبادی دنیا کی کل آبادی کے ایک فی صد سے کم تھی اور اب عالمی آبادی کے تین فی صد سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یعنی ہمیں اپنے زمینی رقبے سے چار گنا زیادہ آبادی کو وسائل مہیا کرنا ہیں۔ 1998ء میں ہماری آبادی میں اضافے کی شرح 2.6 فی صد تھی۔ اب ہمارا دعویٰ ہے کہ آبادی میں اضافے کی شرح 1.6 فی صد ہو چکی ہے۔ ایسا ہو تو کیا ہی اچھا ہے۔ لیکن یہ نہ بھولیے کہ ہماری اوسط عمر اٹھارہ برس ہے اور نصف سے زائد آبادی بیس برس سے کم عمر ہے جو آئندہ دو چار برس میں تولیدی سرگرمیوں میں شامل ہو جائے گی۔ یقینی طور پر آئندہ دس برس میں ہماری آبادی میں اضافے کا زبردست ریلا آئے گا۔ دنیا کا کونسا ملک ہر برس پچاس لاکھ نئے شہریوں کے لیے وسائل مہیا کر سکتا ہے جب کہ اس کی اقتصادی شرح نمو 3فی صد کے قریب ہو۔ کیا ملک کی کوئی سیاسی جماعت آئندہ انتخابات میں آبادی کے مسئلے پر واضح موٴقف اختیار کرنے کی ہمت رکھتی ہے۔ نہیں بھائی، ہم تو کالعدم تنظیموں کی حمایت سمیٹنے کی فکر میں ہیں ، آپ ہمیں کانٹوں میں کیوں گھسیٹتے ہیں۔
تعلیم کے بارے میں ہمارے اعداد و شمار میں بے پناہ اونچ نیچ ہے۔ کوئی شرح خواندگی 38فی صد بتاتا ہے تو کوئی 53فی صد ۔ تاہم یہ طے ہے کہ ہم روئے زمین پر واحد ملک ہیں جہاں گزشتہ ساٹھ برس میں ان پڑھ لوگوں کی تعداد میں 300فی صد اضافہ ہوا ہے۔ 1951ء میں کل آبادی تین کروڑ چالیس لاکھ تھی اور شرح خواندگی 16فی صد۔ یعنی نا خواندہ افراد تین کروڑ تھے۔ آج اگر شرح خواندگی 50فی صد بھی ہو تو ان پڑھ شہریوں کی تعداد نو کروڑ سے زیادہ ہوئی۔ ان پڑھ شہری کا مطلب ہے غربت کا بڑھا ہوا امکان، سماجی افراتفری اور سیاسی انتشار۔ اس پر استاذی قمر عباس فرماتے ہیں کہ علم اور تعلیم میں فرق کرنا چاہیے۔ ، علم معاشرے کو آگے کی طرف لے جاتا ہے۔ تعلیم تو محض موجودہ اجتماعی ڈھانچوں کے تسلسل کی ضمانت دیتی ہے ۔ حضرت آپ تعلیم کو علم میں بدلنا چاہتے ہیں، یہاں حرف شناسی کے لالے پڑے ہیں۔ ماہرین معیشت بے حد خوش ہیں کہ ہماری ترسیلات زر بارہ ارب ڈالر سالانہ سے تجاوزکر چکی ہیں اور ملکی معیشت کو سہارا دے رہی ہیں۔ اسے چھوڑیے کہ تارکین وطن کی یہ کمائی اب تک کن ذرائع سے پاکستان پہنچ رہی تھی۔ اس پر غور فرمایئے کہ کماؤ پوت وطن سے باہر بھیجنے کا یہ سیلاب 1980ء کی دہائی میں اپنے عروج پر تھا اور اب گھٹتے گھٹتے ایک جوئے کم آب بن کر رہ گیا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی مدد کرتے رہے ۔ ان کی اکثریت اب بڑھاپے میں داخل ہو رہی ہے۔ ان کی پردیس میں پیدا ہونے والی اولاد کسے پیسے بھیجے گی اور کیوں ؟ ترسیلات زر تو ہوائی رزق ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ یہ دروازہ بند ہونے کو ہے۔ کیا ہم نے اندرون ملک ایسے معاشی ڈھانچوں کی بنیاد رکھ لی ہے جو ہماری پیداواری صلاحیت میں اضافہ کریں؟ ہماری مصنوعات کی برآمد تجارت کے خسارے کو کم کر سکے؟اگر نہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قوموں کی تعمیر معجزوں کی مرہون منت نہیں ہوتی۔
تازہ ترین