• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب پیار کیا تو ڈرنا کیا
پیار کیا کوئی چوری نہیں کی
چھپ چھپ آہیں بھرنا کیا
پیار کیا تو ڈرنا کیا
یہ وہ گانا ہے جو 1950ء کی دہائی کے اوائل میں شروع ہو کر 1960ء کی دہائی کے اوائل میں ریلیز ہونے والی مشہور فلم مغل اعظم کے لئے گایا گیا تھا۔لتا کی آواز میں گائے گئے اس گانے کو مدھوبالا پر فلمایا گیا تھا۔اس گانے کے لئے مغیلہ دور میں بنائے گئے شاہی قلعے کے شیش محل کے طرز پر ایک 150فٹ لمبے، 80 فٹ چوڑے اور 35 فٹ اونچے شیش محل کے سیٹ کو تعمیر کیا گیا تھا۔جس میں بلجیم کے بنے ہوئے آئینے کے ٹکڑے تراش کرلگائے گئے تھے۔ اتنے بڑے سیٹ پر درکار روشنی کو پورا کرنے کیلئے پانچ سو ٹرکوں کی ہیڈ لائٹس روشن کرکے مقصد حاصل کیا گیا تھا۔اس طرح اس گانے میں پہنے جانے والے لباس اور دیگر سازوسامان کی تیاری کے لئے بھارت کے معروف دستکاروں کی خدمات حاصل کی گئیں تھیں اور اس پر کثیر سرمایہ لگایا گیا تھا۔ لتا کے اس گانے کو جہاں موسیقی کے دلدادہ لوگوں کی طرف سے بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ وہاں پیار و محبت کرنے والوں نے بھی اپنے محبوبوں کو چھپ چھپ کر پیغامات اور رقعے دینے کی بجائے گھروں سے بھاگ کر شادیاں کرنا شروع کردی تھیں۔فلم مغل اعظم ایسے حوالوں اور روایات سے بھری پڑی ہے۔ اس فلم کو کریم الدین آصف(کے آصف) نے ڈائریکٹ کیا۔ جبکہ فلمی دنیا کے معروف نام دلیپ کمار(یوسف خان) اور مدھوبالا(ممتاز بیگم) نے ہیرو اور ہیروئن کے کردار ادا کئے۔ مدھو بالا جس کے حسن اور اداکاری کے کروڑوں مداح تھے نے اس فلم میں لازوال کردار ادا کیا۔ مغل اعظم کی کہانی کے مطابق اس فلم میں شہزادہ سلیم اور انار کلی کے عشق کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا تھا اور ان کرداروں کو ادا کرنے کیلئے دلیپ کمار اور مدھو بالا نے بڑی جاندار اداکاری کی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں حقیقت میں بھی ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا تھے۔ لیکن اس وقت کے ظالم سماج نے دونوں کی محبت اور عشق میں ایسے روڑے اٹکائے کہ دونوں ایک دوسرے کے نہ ہوسکے لیکن مدھو بالا معروف گلوکار کشور کمار سے شادی کے باوجود اپنی آخری سانس تک دلیپ کمار کی محبت میں گرفتار رہیں اور ان کی محبت کا دم بھرتی رہیں۔مدھو بالا جو دل کے عارضے میں بھی مبتلا تھی 36 سال کی ہی عمر میں وفات پا گئی تھی۔

1950میں جب فلم ایک لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل جاتی تھی مغل اعظم پر ڈھائی کروڑ روپے کی لاگت آئی تھی اس لئے آصف اس فلم کے لئے ایک طویل عرصے تک فنانسر کی تلاش میں رہے۔ اور بالآخر کئی لوگوں کے انکار کے بعد آصف نے ایک ایسے فنانسر کو مغل اعظم میں سرمایہ لگانے کے لئے راضی کرلیا جو فلم انڈسٹری کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ کے آصف نے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک شاہ پور جی پالن جی کو سرمایہ کاری کیلئے راضی کیا تھا اور انہیں بتایا کہ اس فلم پر پانچ لاکھ روپے لاگت آئے گی۔ شاہ پور جی نے کے آصف کو پانچ لاکھ روپے دیتے ہوئے ایک شرط بھی رکھی کہ فلم میں تم میرے ایک دوست کو بھی کردار دو گے آصف نے حامی بھر لی اور رقم لے کر چلے گئے۔ فلم کی کہانی اور ڈائیلاگ وجاہت مرزا، کمال امرہوی، احسان رضوی ور امان اللہ خان نے لکھے تھے۔ امان اللہ خان معروف ہیروئن زینت امان کے والد تھے۔ یہ دور تھا جب پلے بیک سنگر کے طور محمد رفیع اور لتا تین سے چار سو روپے ایک گانے کا معاوضہ لیتے تھے۔ اس دوران معروف موسیقار نوشاد کو میوزک دینے کیلئے نوٹوں کے بھرے ہوئے بریف کیس کی آفر کی گئی تھی کے آصف نے جب گانے کیلئے استاد بڑے غلام علی سے رابطہ کیا تو انہوں نے فی گانا پچیس ہزار روپے معاوضہ طلب کیا تھا۔
کے آصف جب پانچ لاکھ روپے کی رقم لے کر جانے کے تقریباً چھ ماہ بعد واپس فلم کے پروڈیوسر شاہ پور جی پالن جی کے پاس آئے تو شاہ پور جی نے کے آصف سے فوراً پوچھا کیا فلم مکمل ہو گئی ہے تو آصف نے جواب دیا اس رقم سے تو صرف فلم میں شامل ایک جنگ کا سین فلمایا جا سکا ہے اس سین میں آٹھ ہزار پیدل فوجیوں، دو ہزار اونٹوں اور چار ہزار گھوڑوں نے حصہ لیا تھا۔ تھوڑی تکرار کے بعد پروڈیوسر نے آصف کو مزید سرمایہ دینے کی حامی بھر لی لیکن ساتھ ہی یہ بھی پوچھا کہ کیا میں نے اپنے جس دوست کوفلم کاسٹ میں شامل کرنے کی شرط رکھی تھی اس کو بھی فلم کاسٹ میں شامل کرلیا گیا ہے آصف نے کہاکہ قد کاٹھ اور آواز کے لحاظ سے وہ اداکار ٹھیک ہے لیکن اس کی ڈائیلاگ ڈیلوری میری فلم کے معیار کے مطابق نہیں۔ پروڈیوسر کے اصرار پر دونوں دوبارہ اس اداکار کے پاس گئے۔ کے آصف نے اس اداکار کو مغل اعظم کے اہم کردار شہنشاہ اکبر کے لئے لکھے گئے چند ڈائیلاگ اس اداکار کو بولنے کیلئے دیئے۔لیکن وہ ڈائیلاگ بولنے پر آصف یہ کہہ کر چل دیئے کہ یہ کردار شہنشاہ ہند اکبر اعظم کا کردار ہے اور اس اداکار کے ڈائیلاگ کی ادائیگی کسی طور پر بھی شہنشاہ اکبر کے شان شایان نہیں یہ بات سن کر وہ اداکار جو تھیٹر کا معروف اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ کئی فلموں میں بھی چھوٹے چھوٹے کردار کرچکا تھا سخت غصے میں آگیا اور غصے میں آصف کو برا بھلا اور گالم گلوچ کرنے لگا۔ آصف الٹے پاؤں واپس آگئے اور اس اداکار سے کہنے لگے بولو اور بولتے جاؤ کیونکہ یہی تو وہ انداز ہے جو مجھے فلم کیلئے درکار ہے۔ یوں وہ اداکار جس کا نام پرتھوی راج کپور تھا مغل اعظم کیلئے شہنشاہ اکبر کا کردار ادا کرنے کیلئے کاسٹ ہو گیا اور پھر فلم مغل اعظم دیکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ پرتھوی راج نے کس خوبصورتی سے شہنشاہ اکبر کا کردار ادا کیا لیکن اس کردار کے اثرات ان کی ذاتی زندگی پر اس طرح اثر انداز ہوئے کہ وہ تمام زندگی میں بھی شہنشاہ اکبر کی ہی طرح برتاؤ کرنے لگے بعدازاں وہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے ممبر بھی رہے لیکن گھر ہو یا دوستوں کی محفل، عام گفتگو ہو یا پارلیمنٹ وہ اپنی زندگی سے شہنشاہ اکبر کو علیحدہ نہیں کرسکے۔ اس طرح پاکستان کا ایک ڈرامہ وارث بڑا مقبول ہوا تھا۔ اس میں محبوب عالم مرحوم نے ایک بڑے سخت گیر اور بڑے جاگیر دار چوہدری حشمت کا کردار کیا تھا۔ محبوب عالم کی زندگی پر اس کردار نے اتنے گہرے اثرات ڈالے تھے کہ وہ مرتے دم تک اپنی زندگی سے چوہدری حشمت کے کردار کے اثرات کو ختم نہ کرسکے۔ سوچیئے کہ کہانی اور ڈراموں کی حد تک عارضی کردار ادا کرنے والے فنکار اگر اپنی زندگی سے کرداروں کے اثرات ختم نہیں کرسکے تو حقیقی معنوں میں پروٹوکول، سیکورٹی اور عالی شان ایوانوں میں زندگی بسر کرنے والے ہمارے رہنما اقتدار سے الگ ہونے کے بعد کیسے زندگی بسرکرسکتے ہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے قریبی حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ صدر زرداری سے اس بات پر ناراض ہیں کہ انہیں قربانی کا بکرا بنا کر اقتدار سے علیحدہ کیا ہے ان کی ناراضگی اور تلملانا بالکل درست ہے۔ پرویز مشرف کا آٹھ سال اقتدار میں گزار کر واپسی کیلئے اصرار کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ شہنشایت کے اثرات کبھی ختم نہیں ہو پاتے۔۔۔۔!
تازہ ترین